Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے رسول ﷺ پر رحمت بھیجتے ہیں اور اے ایمان والو ! تم بھی (اللہ کے رسول ﷺ پر) درود (رحمت کی دعا) بھیجا کرو
نبی کریم ﷺ پر اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف سے درود اور ایمان والوں کو درود کا حکم 56 ۔ زیر نظر آیت کا مفہوم سمجھنے کے لئے اس سورت کی آیت 43 پر نگاہ رکھنی چاہیے تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے اس لئے کہ آیت 43 میں اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کا سارے ایمان والوں پر درود بھیجنے کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس جگہ اللہ اور اس کے فرشتوں کا نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنے یا بھیجنے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی حکم دیا ہے کہ تم بھی نبی کریم ﷺ پر درود بھیجو اور سلام کہو اس لئے ظاہر ہے کہ جو معنی صلوٰۃ یعنی درود کے آیت 43 میں کیے ہیں وہی معنی اس جگہ بھی کیے جائیں گے اور یہ ظاہر ہے کہ جس چیز کو عربی میں ” صلوٰۃ “ کہتے ہیں اس کو فارسی میں درود کہتے ہیں اور یہی لفظ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے اور انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن معنوں میں فارسی میں استعمال ہوتا ہے آیت 43 میں اس بات کی وضاحت بھی کردی ہے کہ ” صلوٰۃ “ یا درود کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات ہو تو مطلب ومفہوم اللہ کی رحمت و برکت اور بیحد مہربان ہوتا ہے اور جب صلوٰۃ و درود کا مرجع فرشتے ہوں تو اس کا مفہوم دعائے بخشش اور نہایت ہی غایت درجے کی محبت رکھنے کے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ آیت 43 کے حاشیہ پر ایک نظر ڈال لی جائے تو بات جلد واضح ہوجائے گی۔ صلوٰۃ عربی کا لفظ ہے ، درود فارسی کا اور جو معنی صلوٰۃ کے ہیں بالکل وہی معنی درود کے کیے جاتے ہیں اگرچہ صلوٰۃ کے لفظ میں وسعت زیادہ ہے ، درود فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی اس طرح کیے گئے ہیں درود۔ 1 ۔ صلوٰۃ ، رحمت۔ 2 ۔ تحسین وآفرین ، شاباش۔ 3 ۔ استغفار۔ تعریف۔ 4 ۔ سلام ، دعا۔ 5 ۔ تسبیح اور اصطلاحاً وہ دعا اور سلام جو نبی کریم ﷺ پر پڑھا جائے۔ اس تشریح کے پیش نظر ہماری سمجھ میں جو بات آتی ہے وہ تو یہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم ﷺ پر صلوٰۃ (درود) کا مفہوم بلا شبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ پر بیحد مہربان اور آپ ﷺ کی تعریف وتحسین کے ساتھ اپنی رحمتوں کی بارش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی وہ تکوینی طاقتیں اور قوتیں جن کو فرشتوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے وہ بھی آپ ﷺ کی تعریف وتحسین بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے دعائے مغفرت اور رحمتوں کی بھر مار کی اپیل کرتے ہیں اور ماحصل اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ نبی کریم ﷺ کے محاسن بیان کرتے ہیں اور آپ ﷺ کی تعریف وتحسین کرتے ہیں اور مسلمانوں تم بھی نبی کریم ﷺ کے محاسن بیان کرو اور آپ ﷺ کی تحسین وتعریف کرتے رہو اور نبی کریم ﷺ پر سلام کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے بدباطن لوگوں نے جو جان بوجھ کر اور سمجھ سوچ کر محمدرسول اللہ ﷺ پر الزام تراشے ہیں اور جو مذمب کی ہے لیکن اس کے لئے ایسا پیرایہ اختیار کیا ہے کہ وہ بظاہر الزامات اور مذمت نظر نہیں آتے اس لئے اپنوں نے بھی ان کو خوش فہمی کی بنا پر قبول کرلیا ہے تم ان کا پوری قوت کے ساتھ رد کرو اور ان کو روک دو اور دنیا والوں پر ثابت کردو کہ یہ الزامات ہیں جو آپ ﷺ پر لگائے گئے ہیں اور کچھ سادہ لوح لوگوں نے اپنی ناسمجھی کی بنا پر ان کو قبول کرلیا ہے۔ آپ ﷺ کی ذات بابرکات بالکل اس سے بری الذمہ ہے۔ لہٰذا اس سلبہ میں عملی اقدامات بھی کرنے ہوں گے اور زبان کو بھی استعمال کرنا ہوگا اس لئے تمہیداً فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر بہت ہی مہربان ہے اور اپنے رسول کی تعریف کرتا ہے ، آپ ﷺ کے کام میں برکت دیتا ہے ، آپ ﷺ کا نام بلند کرتا ہے اور آپ ﷺ پر اپنی رحمت کرتا ہے اور اللہ کے فرشتے بھی آپ ﷺ سے غایت درجے کی محبت کرتے ہیں ، آپ ﷺ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے بدست دعا ہیں اور آپ ﷺ کے دین کی سربلندی کے لئے آپ ﷺ کے معاون ہیں اور اے مسلمانو ! تم بھی دشمنان اسلام کی طرف سے جو الزامات آپ ﷺ پر لگائے گئے ہیں اور جو کیچڑا اچھالا گیا ہے اس کا دندان شکن جواب دو اور اس کیچڑ کو بالکل صاف کردو اور لوگوں کو بتا دو کہ وہ چاند پر تھوک کر خود اپنے ہی اوپر تھوک رہے ہیں ، چاند کا اس سے کچھ نہیں بگڑے گا اور ان کی تھوکوں سے اس کی روشنی کبھی ماند نہیں ہوگی۔ آپ سورة الاحزاب کے مضامین پڑھتے آرہے ہیں ذرا غور سے کام لیں تو آپ پر یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ فی الواقع جب یہ آیت نازل ہوئی تو کفار مکہ ، یہودونصاریٰ اور عرب کے سارے دوسرے قبائل مل کر زور لگا چکے تھے اور انہوں نے منہ کی کھائی تھی اور بلا شبہ مسلمانوں کے قدم روز بروز بڑھتے چلے جا رہے تھے اب یہ سارے گروہ مل کر صرف زبانوں سے کام لے رہے تھے اور اس بڑھتی ہوئی تحریک اسلام کے خلاف بدزبانی کے سوا یہ کچھ کر بھی نہ سکتے تھے انہوں نے اب زور اس پروپیگنڈے پر صرف کرنا شروع کردیا کہ دیکھو جو پیغمبر اصلاح کرنے کے لئے آیا تھا اس نے کیا کرنا شروع کردیا کہ اپنے بیٹے کی بہو سے بیاہ رچایا کل تک جس کو بیٹا کہتا تھا آج اس کے متعلق لوگوں کو کہتا ہے کہ زید بن محمد نہیں بلکہ زید بن حارثہ کہو۔ عورتوں کا اس قدر شیدائی ہے کہ عرب کا کوئی قبیلہ اس نے نہیں چھوڑا جس کو اس نے اپنا سسرال نہ بنایا ہو۔ وہ لوگ اس طرح کی بدزبانیاں کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اے مسلمانو ! ان مشرکین ومنافقین نے مل کر اب میرے رسول کو بدنام کرنے اور نیچا دکھانے کی نئی سکیمیں تیار کی ہیں اور اس طرح کا پروپیگنڈا شروع کردیا ہے لیکن یہ لوگ اس معاملہ میں بھی جو کچھ کہہ سکتے ہیں کہہ لیں وہ یقینا منہ کی کھائیں گے اس لئے کہ میں اس پر مہربان ہوں اور جو کچھ وہ کررہا ہے میرے ہی حکم سے کررہا ہے میں نے ہی اس کو ان رسومات کو ختم کردینے کا کہا ہے اور وہ جو کچھ کررہا ہے میرے حکم سے کررہا ہے۔ میرے حکم سے اس نے یہ ساری شادیاں کی ہیں جو میرے دین کی ترویج کے لئے ضروری تھیں اور میرے ملائکہ بھی اس کے ثناخواں ہیں اور میرا اعلان ہے کہ یہ لوگ میرے رسول کا کچھ بگاڑ سکیں گے اور میں تم مسلمانوں کو بھی حکم دیتا ہوں کہ تم بھی اس پر لگائے گئے الزامات کا جواب ان لوگوں کو اس طرح دو کہ آئندہ یہ لوگ اس کی جرات ہی نہ کریں۔ فرمایا جارہا ہے کہ اے وہ لوگو ! جن کو محمد رسول اللہ ﷺ کی بدولت راہ راست نصیب ہوئی ہے تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسان عظیم کا حق ادا کرو۔ تم وہی لوگ ہو کہ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاقی پشتیوں میں گرے ہوئے تھے اس شخص نے تمہیں اٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج تم محمود خلائق بنے ہوئے ہو ، تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا ، کفر کی دنیا اس لئے اس شخص پر خارکھارہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم لوگوں پر کیے ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہ کی تھی اس لئے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیر مجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے کئی گنا بڑھ کر تم زیادہ محبت اس سے رکھو ، جتنی وہ اس سے نفرت رکھتے ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ تم اس کے گرویدہ ہوجائو اور جتنی وہ اسکی مذمت کرتے ہیں اتنی ہی زیادہ بلکہ اس سے بھی زیادہ تم اس کی تعریف کرو ، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑھ کر تم اس کے خیر خواہ بنو اور اس کے حق میں وہ دعا کرو جو ملائکہ اللہ کر رہے ہیں کہ ” اے ہمارے رب ! جس طرح تیرے نبی محمدرسول اللہ ﷺ نے ہم پر بےپایاں احسانات فرمائے ہیں تو بھی ان پر بیحد و حساب رحمت فرما اور ان کا مرتبہ دنیا میں بھی سب سے زیادہ بلند کردے اور آخرت میں بھی انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔ “ تمہاری اس دعا کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم پر بھی میں ” اللہ “ مہربان ہوں گا اور میرے فرشتے تمہارے بھی معاون و مددگار ہوں گے۔ اس طرح { صلواعلیہ } کے معنی یہ ہوئے کہ ” تم میرے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کے گرویدہ ہوجائو ، ان کی مدح وثنا کرو اور ان کے لئے دعا کرتے رہو۔ “ ظاہر ہے کہ کسی کا گرویدہ ہونا عملی طور پر ہی ممکن ہے تاکہ دوسروں کو بھی تمہارے عمل سے معلوم ہوجائے ، مدح وثنا اور دعا کا تعلق زبان سے ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ عملی اظہار زیادہ مشکل ہے زبانی اظہار سے۔ گویا صلوٰۃ و درود کا وہ پہلو جو عمل سے تعلق رکھتا ہے وہ بہت زیادہ اہم ہے اور اس کا تعلق بھی زیادہ تر عمل سے ہے اور دوسرا پہلو جو آسان ہے جس کا تعلق صرف زبان سے ہے ، ہم بےدھڑک یہ کہہ سکتے ہیں کہ صحابہ کرام نے اس درود وصلوٰۃ کا وہ پہلو جو زیادہ مشکل اور نہایت اہم تھا اس کو سرانجام دے کر لوگوں پر واضح کردیا اور اس پہلو کی کوئی بات بھی مبہم نہ رہنے دی کہ انہوں نے اپناسب کچھ نبی کریم ﷺ پر قربان کردیا حتیٰ کہ صرف اور صرف آپ ﷺ کی خاطر اپنے عزیز و رشتہ دار ، اپنی زمینیں اور مکانات اور تجارتی سامان اور مال مویشی سب کچھ چھوڑ کر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر آئے اور زبان سے سلام ادا کرنا بھی انہوں نے سیکھ لیا کہ تشہد میں بیٹھتے ہیں السلام علیک ایھا النبی کا ورد کرنے لگتے اس لئے انہوں نے عملی کا کرچکنے کے بعد زبانی کام کرنے کے معتلق بھی دریافت کیا کہ کیف نصلی یارسول اللہ ؟ ہم زبان سے درود کس طرح پڑھیں اے اللہ تعالیٰ کے رسول ! ہم زبانی صلوٰۃ کیونکر ادا کریں اور یہ بھی کہ سلام کا طریقہ تو آپ ﷺ نے سکھادیا اب درود کا طریقہ بھی سکھادیا جائے جس کا تعلق صرف زبان سے ہے کیونکہ جتنے حصہ کا تعلق ہمارے عمل سے تھا وہ تو ہم کرچکے اور آپ ﷺ نے دیکھ لیا اور ہم کو شاباش بھی دی کہ تم نے خوب کیا۔ اس کے جواب میں نبی اعظم وآخر ﷺ نے جو الفاظ سکھائے وہ درج ذیل ہیں : اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید وبارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید۔ (عن کعب بن عجوہ ؓ ، بخاری ، مسلم ، ابودائو ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، امام احمد ، ابن ابی شیبہ ، عبدالرزاق ، ابن ابی حاتم اور ابن جریر) اور یہی عبادرت قدرے کمی بیشی کے ساتھ یا الفاظ کی ترتیب الگ الگ کرکے کتب احادیث میں بیان کی گئی ہے اگر اس کے سارے صیغے شمار کئے جائیں تو بارہ ، پندرہ تک شمار ہوسکتے ہیں لیکن الفاظ میں کمی بیشی اور آگے پیچھے بیان کیے گئے اس درود کیا ختلاف کے باوجود معنی ومفہوم میں کوئی فرق نہیں بیان کی گیا۔ ایک ایک کرکے نقل کرتے جائو اور اس کا مفہوم دیکھتے چلے جائو ۔ ایسے ہی الفاظ ذکر کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمانو ! مجھ پر درود بھیجنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ ” اے اللہ ! تو محمد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیج “۔ اس پر نادان لوگ جن کو معنی کا شعور نہیں ہے اس پر فوراً اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی اللہ تعالیٰ تو ہم سے کہے کہ تم میرے نبی پر درود بھیجو مگر ہم الٹا اللہ سے کہہ دیں کہ تو ہی درود بھیج گویا کہ ہم نہیں بھیج سکتے یا نہیں بھیجیں گے۔ حالانکہ یہ سراسر ان کی ایک کٹ ہجتی ہے ہم نے تو اوپر ذکر کردیا ہے کہ صلوٰۃ کا وہ پہلو جو عملی کہلاتا ہے اس پر عمل کرلینے کے بعد زبان کو اس میں شامل حال کرنے کے لئے دریافت ہوا اور ظاہر ہے کہ زبان سے جو کچھ طلب کیا جائے گا وہ صرف اور صرف اللہ ہی سے طلب کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے سے طلب کرنے کی انسان کو خود تعلیم دیتا ہے اور وہ اپنے سوا کسی دوسرے سے طلب کرنے کو حرام اور شرک قرار دیتا ہے ذرا غور کرکے بتائو کہ زبان کا عمل کیا ہے ؟ یہی کہ وہ طلب کرے اپنے لئے طلب کرے ، زندوں کے لئے طلب کرے ، مردوں کے لئے طلب کرے ، اور ہر حال میں طلب کرے ، بڑا ہے تو طلب کرے ، چھوٹا ہے تو طلب کرے ، شاہ ہے تو طلب کرے گدا ہے تو طلب کرے لیکن جو کچھ طلب کرے ، جس کے لئے طلب کرے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے طلب کرے اور غیر اللہ سے خواہ وہ کوئی ہو ، خواہ کون ہو ہرگز اور ہرگز نہ طلب کرے اور اسی زبان کی طلب کے متعلق نبی اعظم وآخر ﷺ نے ہم کو تعلیم دی ہے کہ میرے لئے اللہ سے طلب کرو اور یہ ارشاد فرما کر گویا شرک کی جڑ کاٹ دی ہے کہ دینے والا یعنی داتا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی سب کو دینے والا ہے اس لئے تم بھی اسی سے طلب کرو اور میرے لئے طلب کرنے والوں میں تم بھی اپنا نام لکھوا لو کہ اس سے تمہارا فائدہ ہوجائے گا۔ ہاں ! بات کرنے والے کو صرف یہ حق تھا کہ وہ لوگوں کو اس طرح کہتا کہ لوگوں صرف زبان ہی سے درود پڑھ دینے پر اکتفا نہ کرو بلکہ عملی طور پر بھی وہ کام کردکھائو جن کے کرنے کا درود تقاضا کرتا ہے بلکہ زبان کھولنے سے قبل عمل کرکے دکھائو جیسا کہ صحابہ کرام کرتے رہے۔ بعض لوگوں کو اس درود پر اعتراض ہے کہ یہ اچھا درود ہے جس میں اللہ کو یہ کہا جارہا ہے کہ تو محمد ﷺ پر ایسی رحمت اور ایسی برکت بھیج جیسی رحمت و برکت تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر بھیجی تھی گویا مانگنے والا اللہ کو سمجھا رہا ہے کہ میری طلب کیا ہے ؟ حالانکہ یہ بھی محض ایک بےعقلی اور بیوقوفی کا سوال ہے کیونکہ ہر طلب کرنیوالے کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی چاہت کی وضاحت کرے کہ وہ کیا چاہتا ہے کیونکہ دینے والے کے پاس تو بہت کچھ ہے اور اس کے خزانے میں تو کسی چیز کی کمی نہیں ہے اس لئے تمہارا حق ہے کہ تم اپنی طلب کی وضاحت کرو کیونکہ اگر تم بکری سنبھال سکتے ہو لیکن دینے والے نے ہاتھی دے دیا تو تمہارا کو نڈا ہوجائے گا اور ہاتھ جوڑ کر ہاتھی کو رخصت کرنا پڑے گا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے لئے طلب کرنے کا مسلمانوں کو طریقہ سکھایا تو اپنی طلب بھی بتادی کہ وہ رحمت و برکت مجھے درکا ہے جو اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے لوگوں کو عطا کی کہ جب ابراہیم کو گھر والوں اور خاندان والوں نے گھر سے نکل جانے کا حکم دیا تو وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور پھر کیا تھا کہ اللہ نے نہ تو دنیا کے مال ومتاع کی کوئی کمی چھوڑ اور نہ ہی آخرت کے درجات کی بلندی میں کوئی کسر رہنے دی۔ پھر غور کرو کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت کیسی شخصیت ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے پیشوا اور راہنما آئے لیکن جو پیشوائی اللہ نے ابراہیم کو عطا کی وہ کسی دوسرے کے حصہ میں آپ سے پہلے کب آئی کہ دنیا میں جتنے لوگ ہیں خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی یا مسلمان سب ہی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں حتیٰ کہ مکہ کے مشرک اور صابی بھی اپنے آپ کو ابراہیمی کہتے تھے اور بلاشبہ ایسی عزت افزائی ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد کسی کی کی گئی تو وہ محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہوسکتے ہیں جو پوری دنیا کے لئے اور رہتی دنیا تک کے لئے رسول بنائے گئے ہیں اور آپ ﷺ پر یہ مرتبہ اور عہدہ ہی ختم کردیا گیا اور ایسا ختم کیا کہ کسی قوم نے بھی آپ ﷺ کے بعد کسی آنے والے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی۔ ختم نبوت کیخلاف جب کوئی فتنہ کھڑا ہوا تو خود مسلمانوں ہی میں کھڑا ہوا لیکن بحمد اللہ اسی وقت اس کا سرکچل دیا گیا۔ بعض لوگوں کو اور تو کوئی بات نہ سوجھی اور وہ اس طرح کے اعتراض نہ کرسکے تو انہیں نے اس ” صلوٰۃ “ یا ” درود “ کو چھوڑ کر جو خود نبی اعظم وآخر ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا اور صحابہ کرام کو سکھایا تھا خود درود گھڑنے شروع کردیئے اور اس طرح بیسیوں لمبے اور چھوٹے درود گھڑے اور بیان کیی اور ان کے ساتھ ایسے ایسے فضائل لگادیے کہ آنے والوں نے نبی کریم ﷺ کے سکھائے اور بتائے ہوئے درود کو چھوڑ کر ان بناوٹی درودوں کی طرف توجہ کرلی اور ان کا پڑھنا فرض ٹھہرا لیا اور اس درود کو صرف نماز کے لئے مختص کردیا گیا اس سلسل میں اس وقت جو ہمارے معروف درود ہیں ان میں درود ہزارہ ، درود لکھی ، درودماہی ، درود تنجینا ، درود مقدس ، درود رضا خانی ، درود شفا اور درود تاج کے نام سرفہرست ہیں جو وظائف کی کتابوں میں تقریباً تحریر کئے جاتے ہیں اور ایک درود جو ” بڑے درود “ کے نام سے معروف ہے اور وہ پنجاب ہی میں زیادہ پڑھا جاتا رہا ہے وہ سینہ بہ سینہ چلتا آرہا ہے اور یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جس درود میں جتنے زیادہ شرکیہ الفاظ شامل کیے گئے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ مشہور ومعروف ہوا مثلا آج کل پاکستان اور برصغیر کے دوسرے ممالک میں جو سب سے زیادہ پڑھا جانے والا درود وہ ہے جس کہ ہم نے رضاخانی کہا ہے خواہ وہ کس نے بنایا اور کس نے چلایا ہے یعنی ” الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ وسلم علیک یا حبیب اللہ “ لیکن بعض نے درود رضاخانی اس طرح نقل کیا ہے کہ صلی اللہ علی النبی الامی والہ وا صحابہ ﷺ صلوۃ وسلاما علیک یارسول اللہ اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر درود تاج ہے جو بریلویہ فکر کی ہر مسجد کی زینت ہے جس میں اس طرح کے الفاظ درج ہے کہ صاحب التاج والمعراج والبراق والعلم دافع البلاء والوباء واقحط والمرض والالم… چونکہ شرک کی بو باس انہیں دو تین میں زیادہ ہے اس لئے یہی زیادہ پڑھے جاتے ہیں لیکن ابھی تک ان درودوں کو نماز کے اندر تشہد کی جگہ نہیں ملی ، ممکن ہے کہ تیسری عید منانے والے جب اس عید کی نماز شروع کریں تو اس میں ان درودوں کو شامل کرلیں کیونکہ حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اس ملک عزیز پاکستان میں کئی ایک مزاروں پر باقاعدہ حج پڑھا جانے لگا ہے اور ان کے طواف کئے جاتے ہیں تو ان درودوں کا نماز میں شامل ہونا کیا بعید بات ہے ؟ اللہ سمجھ دے اور لوگ اس طرح کی حرکتوں سے باز آجائیں جن سے اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ بات درود کی ہورہی تھی تو اس سلسلہ میں اول بھی اور آخر بھی صرف یہ بات ہے کہ درود وہی پڑھنا افضل واعلیٰ ، جائز اور درست ہے جو نبی کریم ﷺ نے خود بتایا ہے اور جس کو ہمارے ہاں نماز کا درود کہا جاتا ہے چاہے کہ اپنے درود وظیفہ میں اس کو پڑھا جائے اور اسی پر اکتفا کیا جائے۔ علاوہ ازیں سب بڑے اور چھوٹے درودوں سے اجتناب کیا جائے خواہ ان میں شرکیہ الفاظ موجود ہوں یا نہ ہوں۔ ہاں ! نمونہ کے طور پر ایک پنجابی درود جو ” وڈا درود “ کے نام سے معروف ہے دیکھ لیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ اختراعی درود کس طرح گھڑے اور بنائے گئے اور لوگ ان کو کس اہتمام سے پڑھتے اور دیہاتی ملائوں نے ان کا کس طرح اہتمام کررکھا ہے۔ رہا بھیج ثواب توں اندر اس دن رات دتا میرا بھیج توں روح محمد ساتھ جو سردار پیغمبراں اندو دو جہاں رہا جس پر بھیجیا سچا تدھ قرآن بھی ارواح پیغمبراں سبنھاں نوں پہنچا آدم مڈھ پیغمبراں محمد اوڑک آ بھیج ثواب ابابکر نو عمر عثمان علی خدیجہ ، عائشہ ، فاطمہ ، حسن ، حسین ولی ایویں سعد سعید نوں طلحہ زبیر پہنچا ابا عبید عبدالرحمن نوں نال ثواب رلا چاچے پاک رسول دے حمزہ تے عباس النہاں دونہاں بھیج توں ہینی دونویں خاص ال بیت رسول دیاں قیلیاں دوستاں نوں ارواح امت سب اوس دی بھیج الٰہی توں ماواں پیو واں ساڈیاں دادیاں دادیاں نوں رہا بھیج ثواب توں نانیاں نانیاں نوں ماسیاں ، ماسڑاں ، پھوپھیاں پھوپھڑاں نوں تایا تائیاں ، چاچیاں ، چاچیاں نوں استاداں بن ہمسائیاں ہر ہر پتر دھی بہن بھراواں کل نوں تے یار آشنا بھی حق جنھاں دا ، اساں تے جاں چنگیا ئی دا عورت یا وت مرد بھی مویا ایس دم تا رہا بھیج ثواب توں توں رحمن رحیم حرمت نبی کرمی دی جس پر فضل عظیم ہمارے ہاں ایک بحث یہ بھی چلتی رہتی ہے کہ آیا صلوٰۃ کا استعمال انبیاء کرام کے سوا بھی دوسرے مسلمانوں پر جائز ہے یا نہیں ؟ ہم جائز یا ناجائز کی بحث میں شریک ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں اور نہہی اس کی کوئی ضرورت ہے البتہ یہ عرض کریں گے کہ وہ دعا یا الفاظ جن سے تخصیص ہوجاتی ہے کہ جس شخص کی بات ہورہی ہے وہ کس مرتبہ کا ہے وہ زیادہ بہتر اور صحیح ہے کیونکہ دعا غیر و برکت کے لئے جتنے الفاظ کتاب وسنت میں آئے ہیں سب ہی بابرکت ہیں لہٰذا نبی اعظم وآخر ﷺ کے لئے ” ﷺ “ دوسرے انبیاء کرام کے لئے ” علیھم الصلوٰۃ والسلام “ صحابہ کرام کے لئے ” ؓ “ اور امت کے دوسرے لوگوں کے لئے ” (رح) “ کے الفاظ ہی زیادہ صحیح اور درست ہیں کہ ان الفاظ سے تخصیص نکل آتی ہے اور ہر کہ دمہ سمجھ جاتا ہے کہ جس کی بات ہے وہ کس مقام کا آدمی ہے۔ واللہ اعلم۔ ان درودوں کے ساتھ سلام پڑھنے کے بھی نئے نئے طریقے ایجاد ہوگئے ہیں۔ صلوٰۃ جمعہ ادا کرنے کے بعد اور اسی طرح کی دوسری مجالس میں کھڑے وکر اور گا گا کر سلام پیش کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کیا گیا ہے اور پھر سلام پیش کرنے کے بھی مختلف اشعار بنائے گئے ہیں اور اس طرح کی صدائیں بھی بلند ہوتی ہیں کہ سپیکر کھول کر بڑی سر اور لے کے ساتھ سالم اور درود کے الفاظ مل کر گائے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس طرح مصرع کے طور پر نہایت مہیب آواز کے ساتھ سنائی دیتا ہے کہ دم بدم پڑھو درود کہ رسول اللہ بھی ہیں یہاں موجود۔ یہاں ! نبی اعظم وآخر ﷺ کا اسم گرامی جہاں بھی آئے تحریر کیا جائے یا ویسے ہی لیا جائے آپ ﷺ کے نام کے ساتھ ﷺ کے الفاظ لگانابلا شبہ سنت نبوی ہے ، اذان کے بعد ، دعا سے قبل ، درود ابراہیمی پڑھنے کا اجروثواب ہے۔ درودابراہیمی کو بطور وظیفہ پڑھنے سے پڑھنے والے کو اجرو وثواب ملتا ہے۔ آپ ﷺ کے نام گرامی کے ساتھ ” ﷺ “ نہ پڑھنے والے کو بخیل کہا گیا ہے اور رحمت سے محروم بتایا گیا ہے اور بلا شبہ درود ابراہیمی ھم وغم کا بہترین علاج ہے۔ اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید۔
Top