Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول لَعَنَهُمُ : ان پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابًا مُّهِيْنًا : رسوا کرنے والا عذاب
بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے (اللہ نے) ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے
اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچانے والوں پر اللہ کی لعنت ہے اور ذلت کا عذاب 57 ۔ اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچانا کیا ہے ؟ بلا شبہ ایسا کام کرنا جس سے انسان چاہے وہ عام ہو یا خاص کو ایذا پہنچے اور یہ فطری امر ہے اور ایسا کام اللہ عزوجل کے ساتھ کرنا بھی ایذا پہنچانا ہے اگرچہ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی ایذا اس کو پہنچا سکے مطلب یہ ہے کہ فاعل کی طرف سے ایسا کام سرزد ہوگیا جس سے ایذا پہنچنا ایک فطری امر ہے تو کیا ایذا پہنچانے والے نے اپنی طرف سے ایذا پہنچادی اللہ تعالیٰ کو اگر ایذا نہیں پہنچی تو یہ اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی ایذا پہنچا ہی نہیں سکتا۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کو ایذا دینے سے مراد کیا ہے ؟ مراد اس سے فقط رسول اللہ ﷺ کو ایذا پہنچانا ہے کیونکہ جس نے رسول اللہ ﷺ کو ایذا پہنچائی تو گویا اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی چونکہ رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور جس کے پیغمبر کو کوئی تکلیف پہنچائے یقینا اس نے دراصل اسی کو ایذا پہنچائی جس نے اس پیغمبر کو بھیجا چناچہ احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس شخص نے زمانہ کو گالیاں دیں اس نے دراصل اللہ ہی کو گالیاں دیں کیونکہ زمانہ کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے نظام کا نام ہی تو ہے پھر جس نے انتظام کیا ہے گالیاں تو اس کو ہوئیں اس لئے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اللہ اور اسکے رسول کے ایذا کا باعث ہوئے گویا الہ کے رسول کو ایذا دینا اللہ ہی کو ایذا دینا ہے کیونکہ رسول کو اسی نے مبعوث کیا ہے تماثیل میں صرف ایک مناسبت قائم کرنے کے لئے بات کی جاتی ہے اور اسی مناسبت کو تلاش کرنا اور حقیقت کو معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے بحث سے بحث نہیں نکالی جاتی اور نہ ایسی بات کبھی مفید ہوتی ہے مثلاً احادیث میں ہے کہ مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل آدم خلقہ من تراب غور طلب بات تو یہ ہے کہ یہ مثال کیوں دی گئی محض اس لئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو لوگوں نے اللہ یا اللہ کا جزاء اور بیٹا قرار دیا ان کو بتایا گیا کہ جس طرح آدم مٹی سے بنایا گیا عیسیٰ (علیہ السلام) بھی مٹی سے بنایا گیا دونوں کی ایک جنس ہے ، ایک باپ ہے اور دوسرا بیٹا تو تم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کیسے بنا دیا کیا عیسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ دونوں کی ایک جنس ہے اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر اللہ کا بیٹا وہ کیونکر قرار پا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان مثل عثمان عنداللہ کمثل عیسیٰ ابن مریم (سنن ابی دائود ج 4 ص 340) حدیث میں ہے کہ : قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ عزوجل یقول یوم القیامۃ یا ابن ادم مرضت فلم تعلنی قال یا رب کیف اعودک وانت رب العلمین ؟ قال اما علمت ان عبدی فلاتا مرض فلم تعدہ اما علمت انک لو عدتہ لوجدتنی عندہ ؟ یا ابن ادم استطعمتک فلم تطعمنی قال یا رب کیف اطعمک و انت رب العلمین ؟ قال اما علمت انہ استعمک عبدی فلان قلم تطعمہ اماعلمت انک لو اطعمتہ لوجدت ذلک عندی ؟ یا ابن آدم استسقیتک فلم تسقنی قال یا رب کیف اسقیک وانت رب العلمین ؟ قال استسفقاک عبد فلان فلم تسقہ ! اما علمت انک لو سقیتہ لوجدت ذلک عندی (مسلم حدیث نمبر 2569 بحوالہ ریاض الصالحین ص 379) ” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا مگر تو نے میری عیادت نہ کی۔ وہ کہے گا اے میرے اللہ ! تو رب العالمین ہے میں تیری عیادت کیسے کرتا ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جانتا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے پھر بھی تو اس کی مزاج پرسی کو نہ گیا اگر تو اس کو بیمار پرسی کو جاتا تو تو مجھے اسکے پاس پاتا۔ پھر فرمائے گا اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے مجھے کھانا نہ دیا ، وہ کہے گا میرے اللہ ! تو تو رب العالمین ہے میں تجھے کس طرح کھلا سکتا تھا ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا فلاں بندہ تجھ سے کھانا مانگنے آیا مگر تو نے اسے کھانا نہ کھلایا تجھے خبر نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو وہ کھانا تجھے میرے پاس موجود ملتا پھر فرمائے گا اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہیں پلایا وہ کہے گا اے اللہ میں تجھ کو کیسے پانی پلاتا ؟ تو تو رب العالمین ہے تو اللہ تعالیٰ کہے گا کہ میرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے اسے پانی نہیں پلایا اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو آج وہ پانی میرے پاس تجھے موجود ملتا۔ مسلم نے روایت کیا اور یہ حدیث ریاض الصالحین ص 379 پر موجود ہے اس حدیث نے اور اس جیسی دوسری احادیث نے ایذائے خداوندی کی ساری تفہیم واضح کردیا۔ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کو دکھ دے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوگیا ، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کے لئے اللہ نے رسوا کرنے والا عذاب تیار کررکھا ہے۔ غور کرو کہ ان لوگوں کی بدبختی اور بدنصیبی کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنی دنیا بھی خراب کرلی اور اپنی عاقبت بھی اور جس مقصد کے لئے انہوں نے اتنا خسارہ قبول کیا اس کو وہ کبھی حاصل نہ کرسکے کیونکہ اللہ کو کوئی کیا دکھ پہنچائے گا وہ تو سراسر خیر وبھلائی ہے اور اللہ کا رسول کسی ایسے دکھ کو کب دکھ سمجھتا ہے جو راہ اللہ میں پہنچایا گیا ہو۔
Top