Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 59
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں کو وَبَنٰتِكَ : اور بیٹیوں کو وَنِسَآءِ : اور عورتوں کو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں يُدْنِيْنَ : ڈال لیا کریں عَلَيْهِنَّ : اپنے اوپر مِنْ : سے جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ : اپنی چادریں ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَنْ : کہ يُّعْرَفْنَ : ان کی پہچان ہوجائے فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ : تو انہیں نہ ستایا جائے وَكَانَ اللّٰهُ : اور اللہ ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
آپ ﷺ اپنی ازواج اور اپنی بیٹیوں (ؓن) سے اور مسلمانوں کی (ساری) عورتوں سے فرما دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں اس سے وہ جلد پہچان لی جائیں گی (کہ یہ مسلمانوں کی عورتیں ہیں) پھر ان کو کوئی نہ ستائے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بہت ہی پیار کرنے والا ہے
اے نبی ﷺ ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور ایمان والیوں کو پردے کا حکم دیں 59 ۔ گزشتہ آیات میں عام مسلمان مردوں اور عورتوں کو ایذا پہنچانے کو حرام اور گناہ کبیرہ ہونا بیان کیا گیا اور خصوصاً نبی کریم ﷺ کو ایذا دیناکفر اور موجب لعنت بتایا گیا تھا خیال رہے کہ منافقین کی طرف سے دو طرح کی ایذائیں سب مسلمانوں کو اور نبی اعظم وآخر ﷺ کو پہنچتی تھیں ایک یہ کہ منافقین میں سے عوام اور آوارہ قسم کے لوگ نوجوان لڑکیوں کو جب وہ اپنے کام کاج کے لئے باہر نکلتیں تو اکثر ستایا کرتے اور جب چار یاری میں بیٹھتے تو ان عورتوں کا ذکر بہت بےحیائی اور بےغیرتی کے ساتھ کرتے گویا جو کچھ اس وقت کے اوباش لوگ اور نئی روشنی کے وڈیروں کی اولاد نرینہ کر رہی ہے وہ سب کچھ اس وقت بھی کیا جاتا تھا دوسری ایذا ان کی یہ تھی کہ ان کا کام افواہیں پھیلانا تھا جھوٹی خبروں کو وہ اس طرح اڑا دیتے کہ بڑے بڑے سمجھدار لوگ ان کو سچ سمجھ لیتے اور خصوصاً مسلمانوں کی دل آزاریاں وہ کرتے ہی رہے تھے اور اس طرح جو کچھ وہ کرتے تقریباً اپنے بچائو کی صورت میں سوچتے رہتے اگر کہیں کوئی بات ظاہر ہوتی تو فوراً اس کا تدارک کرتے اور اس طرح کا نشانہ ہمیشہ کمزور لوگ ہی ہوتے۔ یہ وہ وقت تھا کہ ابھی پردہ کا مستقل حکم نازل نہیں ہوا تھا یہ پہلی سورت ہے جس میں پردے کے احکام کے کھلے اشارات دیئے گئے ہیں اور ان کو مزید وضاحت اور مستقل ہدایات اور ان پر مکمل کنٹرول کی صورت سورة النور میں بیان کی گئی چونکہ سورة النور عروہ الوثقی کی چھٹی جلد میں گزر چکی ہے لہٰذا ہم اس سورت کی آیت 22 , 21 میں اس کی پوری وضاحت کر آئے ہیں وہاں سے وضاحت دیکھ لیں۔ زیر نظر آیت میں بھی مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا جارہا ہے کہ { یدنین علیھن من جلابیبھن } اپنے اوپر اپنی چادریں اچھی طرح لپیٹ لیا کریں { یدنین } ادناء سے مشتق ہے جس کے لفظی معنی قریب کرنے کے ہیں اور { علیھن } کے معنی اپنے اوپر ہیں اور { جلابیب } جلباب کی جمع ہے اور جلباب خاص لمبی چادرکو کہا جاتا ہے گویا مطلب یہ ہے کہ مسلمان عورتیں جب باہر نکلیں تو اپنی اوڑھنیاں اپنے اوپر اچھی طرح اوڑھ لیں جس کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ابن کثیر (رح) نے اس طرح نقل کیا ہے کہ امر اللہ نساء المومنین اذا خرجن من بیوتھن فی حاجۃ ان یغطین وجوھھن بالجلابیب ویبدین عینا واحدم (ابن کثیر) ” اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے اپنی چادریں لٹکا کر چہروں کو بھی چھپالیں اور صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لئے کھلی رکھیں “۔ اس طریقہ بیان سے ایک بحث یہ چھڑ گئی کہ آیا چہرہ کا ڈھانپنا بھی ضروری ہے یعنی کیا چہرے کا پردہ ہے ؟ اور پھر اس پر بہت لمبا کلام کیا گیا اور آج کل جو پردے کے رواجات ہیں وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں وہ ظاہری زیب وزینت کو زیادہ کرتے ہیں یا کم ؟ کیا زینت کو چھپانے اور ظاہر نہ ہونے دینے کا حکم ہے یا نہیں ؟ سب کو معلوم ہے ہم کو حکم کیا دیا جاتا ہے اور ہم اس حکم کیساتھ کیا کرتے ہیں سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اس پردے کی اصل ہے ہم کو حکم کیا دیا جاتا ہے اور ہم اس حکم کے ساتھ کیا کرتے ہیں سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اس پردے کی اصل وجہ قرآن کریم نے زیر نظر آیت میں یہ بیان فرمائی کہ اس طرح سب کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ ایمان والی عورتیں ہیں گویا یہ پردہ اس بات کی پہچان ہے کہ یہ عورتیں مومن ومسلم ہیں لہٰذا ان کو کوئی نہیں ستائے گا کیسے ؟ ایسے کہ مومن مرد ان منافق ، یہود اور عیسائی چھوکروں کی خبر گیری رکھیں گے اور ان کو چھیڑنے نہیں دیں گے اور اب ان کا عذر نہیں رہے گا کہ ہم پہچان نہ سکے کہ وہ کون ہے ؟ اس سے جو ضروری بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عورتوں کو غیر مسلم عورتوں کے مقابلے میں اپنے پردہ کی ایک خاص پہچان رکھنی چاہیے تاکہ قومی امتیاز بھی برقرار رہے ، انسان بہرحال انسان ہے اور حالت بھی ہر وقت یکساں نہیں ہوتی اپنی طرف سے جو احتیاط کی جاسکے وہ ضروری ہے اللہ تعالیٰ بخش دینے والا ، پیار کرنے والا ہے اور پردہ کا حکم اس باعث اس نے دیا ہے کہ تم اپنی حیا کی حفاظت کرسکو جو ایمان کا ایک اہم جزو ہے۔ زیر نظر آیت میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کی ساری عورتیں یا آپ یوں کہہ لیں کہ بنات اسلام نبی کریم ﷺ کی بیٹیاں ہیں اور نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات امہات المسلمین ہیں لیکن اس آیت میں آپ ﷺ کی ازواج کا ذکر کرنے کے بعد تمام ایمان والی عورتوں کا ذکر کرنے سے پہلے درمیان میں { بنتک } کا لفظ لایا گیا جس کا مطلب بلاریب یہی ہے کہ اس لفظ سے مراد نبی اعظم وآخر ﷺ کی حقیقی بیٹیاں ہیں اس سے مراد نہ تو آپ ﷺ کی ربائب ہو سکتی ہیں اور نہ عرف عام میں عام مسلمان عورتیں اس سے مراد ہوسکتی ہیں اگرچہ عرف میں بنات الاسلام کو بنات النبی کہنا یا تسلیم کرنا جائز اور صحیح ہے۔ یہ بات اس لئے کہنا پڑی کہ اپنے آپ کو اسلام ہی کے نام سے متعارف کرانے والا ایک گروہ جس کو شیعہ کہا جاتا ہے نبی کریم ﷺ کی صرف ایک بیٹی فاطمہ ؓ کو حقیقی بیٹی تسلیم کرتا ہے اور دوسری بیٹیوں کو وہ حقیقی بیٹیاں تسلیم نہیں کرتا اور اس کے پروپیگنڈے کا یہ اثر ہے کہ اکثر مسلمانوں کو بھی یہی معلوم ہے کہ فاطمہ ؓ آپ ﷺ کی بیٹی تھیں اور اس کی اولاد گویا حسن و حسین آپ کے دو بیٹے تھے جن کی محبت کی داستانیں عوام و خواص میں مشہورومعروف ہیں اور فاطمہ ؓ کے علاوہ آپ ﷺ کی کسی بیٹی سے کسی کو بھی واقفیت نہیں حالانکہ قرآن کریم نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرکے یہ فرمارہا ہے کہ اے رسول ! ﷺ آپ ﷺ اپنی بیٹیوں کو کہہ دیں کہ وہ اگر باہر نکلیں تو اپنی اوڑھنیاں اوڑھ کر باہر نکلیں اور { بنتک } کا لفظ تین سے کم پر نہیں بولا جاسکتا ہاں ! تین یا تین سے زیادہ پر ہی بولا جاسکتا ہے اور اگر آپ ﷺ کی صرف اور صرف ایک ہی حقیقی بیٹی ہوتی تو ” بنت “ کا لفظ ہی ہوتا ” بنات “ کا لفظ بالکل نہ ہوتا اور پھر روایات میں آپ ﷺ کی چار بیٹیوں کا ذکر عام ملتا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی صرف ایک بیٹی نہ تھی بلکہ تین یا تین سے زیادہ یعنی چار تھیں اور اہل سنہ کی کتابیں چھوڑ شیعوں کی خاص کتب میں بھی آپ ﷺ کی چار صاحبزادیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور چاروں صاحب زادیاں سیدہ خدیجہ ؓ سے پیدا ہوئی تھیں۔ چناچہ اصول کافی شیعوں کی معروف کتاب ہے جس سے کوئی شعیہ بھی انکار نہیں کرسکتا خواہ وہ شیعوں کی اندرونی گروہ بندیوں میں سے کوئی گروہ ہو چناچہ اصول کافی میں ہے کہ ” وتزوج خدیجۃ وھوابن بضع وعشرین سنۃ فولدلہ منھا قبل مبعثہ (علیہ السلام) القاسم ورقیۃ وزینب وام کلثوم و ولدلہ بعد المبعث الطیب والطاھر وفاطمۃ علیھا السلام (اصول کافی جلد اول ص 439 تہران) ” نبی اعظم وآخر ﷺ نے سیدہ خدیجہ ؓ سے شادی کی تو اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک بیس سے کچھ زیادہ (25) سال تھی اور سیدہ خدیجہ ؓ کی کے بطن سے اولاد پیدا ہوئی۔ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے قاسم ، رقیہ ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد طیب ، ظاہر اور فاطمہ ؓ پیدا ہوئیں۔ “ اور اسی طرح علامہ مجلسی کی کتاب حیوۃ القلوب میں نقل ہے کہ ” در قرب الاسناد بسند معتبر حضرت صادق روایت کردہ است کہ از برائے رسول خدا ﷺ از خدیجہ متولد شدند طاہروقاسم وفاطمہ وام کلثوم ورقیہ زینب “ (حیوۃ القلوب ص 823) ترجمہ : قری الاسناد میں متعبر سند سے حضرت جعفر صادق سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے رسول اللہ ﷺ کی یہ اولاد پیدا ہوئی ، طاہر ، قاسم ، فاطمہ ، ام کلثوم ، رقیہ اور زینب ؓ۔ یہ دونوں کتابیں شیعوں کے ہاں اتنی ہی معتبر ہیں جتنی کہ اہل سنت کے ہاں مسلم و بخاری۔ اس وضاحت کے بعد بھی جو لوگ کریم ﷺ کی تین صاحب زادیوں کا انکار کرتے ہیں خاندان نبوت سے ان کا بیر روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے دراصل ان لوگوں نے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج سب کی صورت بگاڑی حتیٰ کے اذان تک کو اس کی اپنی اصلی حالت پر نہ رہنے دیا ، اس طرح اسلام کی دوسری تعلیمات کا بھی مکمل انکار نہیں تو اس کی صورت کو ضروربگاڑنے کی کوشش کی اور ان کی اس بگاڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورے دین اسلام کے ارکان اور عقائد کی صورت تقریباً بگڑ کر رہ گئی اور اس بگاڑ میں سب سے زیادہ انہی کی مکاریوں ، عیاریوں کو دخل ہے اصل میں اہل بیت کا ان لوگوں نے انکار کیا اور اسلامی تعلیمات میں جن کو اہل کساء کہا گیا ان اہل کساء کو انہوں نے اپنے پروپیگنڈے کے ذریعہ اہل بیت کہا اور آج فی الواقع لوگ اہل کساء ہی کو اہل بیت کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تین بیٹیوں کا انکار کیا اور آج لوگ فی الواقع ایک کے سوا باقی تینوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں رہے اور سب سے زیادہ اور بڑا ظلم یہ کیا کہ سیدنا علی ؓ کی اولادوں میں سے جو 19 بیٹے اور 18 بیٹیاں تھیں لیکن آج لوگ حضرت علی ؓ کے صرف دو بیٹوں حسن ؓ و حسین ؓ کے ناموں کو جانتے بلکہ ان دونوں میں سے بھی سیدنا حسن کے تو صرف نام ہی سے واقف ہیں اس کے آگے ان کی اولاد در اولاد کا کسی کو کوئی علم نہیں اور حضرت علی ؓ کی ایک لڑکی زینب کا نام شیعہ لیتے ہیں باقی سب اولادوں سے انکاری ہیں سب سے بڑھ کر تعجب یہ ہے کہ حضرت علی ؓ کے بیٹوں میں سے عمر ، ابوبکر اور عثمان نام کے تینوں بیٹوں کو تاریخ نے بلکہ شیعوں کی معتبر کتابوں نے محفوظ رکھا ہے لیکن اس کے باوجود آج سننے والوں کو تعجب ہوتا ہے کہ حضرت علی ؓ کی اولادوں کے یہ نام ؟ حالانکہ حضرت علی ؓ کو عمر ؓ سے اتنا پیار تھا کہ اپنے دو بیٹوں کے نام عمر رکھا ایک کو عمر الاکبر جن کو عمراطراف بھی کہتے اور دوسرے کو عمر الاصغر اس تعجب پر تعجب یہ ہے کہ آج عباس علمبردار کے نام سے بچہ بچہ واقف ہے یہ عباس کون ہیں ؟ حضرت علی ؓ کے صاحبزادے ہی تو ہیں اور ایک یعنی عمر اطراف انہی عباس علمبردار کے حقیقی بھائی تھے۔ مطلب یہ ہے کہ ان دونوں کی ماں بھی ایک ہی تھی اختلاف یہ ہے کہ آیاعباس ؓ بڑے تھے یا عمر ؓ ؟ بعض نے عباس کو بڑا کہا ہے اور بعض نے عمر کو۔ اس عمر بن علی ؓ نے 77 سال عمر پائی اور کثیر تعداد میں اولاددر اولادچھوڑی اور اپنے بھتیجے علی زین العابدین کی اولاد سے ان عمر بن علی ؓ کی اولاد سے رشتہ داریاں پائی گئیں۔ سای عباس علمبردار کے دوسرے حقیقی بھائی کا نام عثمان تھا جو علی ؓ ہی کا بیٹا تھا اور اس عثمان بن علی ؓ نے سانحہ کربلا میں جان دی اور اسی طرح ابوبکر بن علی ؓ بھی میدان کربلا میں اپنے بھائی حسین ؓ کے ساتھ کام آئے اور دوسرے عمر بن علی ؓ جو ام سعید بنت عروہ بن مسعود ثقفی کے بطن سے تھے انہوں نے بھی کربلا میں ہی اپنے بھائیوں حسین ، عباس ، عمر اور عثمان کے ساتھ جان جان آفرین کے سپرد کی۔ مختصر یہ کہ سیدنا علی ؓ کے 19 بیٹوں میں سے 6 بیٹے تو آپ کی زندگی ہی میں وفات پاگئے تھے اور باقی تیرہ بیٹوں میں سے چھ بیٹے میدان کربلا میں کام آئے دو کا سلسلہ آگے نہیں چلا اور پانچ بیٹوں حسن ، حسین ، محمد الحنفیہ ، عباس اور عمر اطراف کی نسل آگے چلی بلکہ بہت بڑھی اور ان ساری اولادوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہوتی رہیں اور سب نے اولاد کثیر چھوڑی لیکن آج صرف ایک بیٹے حسین کے صاحبزادے علی جن کو زین العابدین کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ان کی اولاد دراولاد سے لوگ واقف ہیں اور باقی کسی کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے اس لئے جو مختصر ذکر میں نے کیا ہے شاید اس کو دیکھ کر اور پڑھ کر وہ مجھے کیا ہی کہیں گے لیکن چونکہ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی مجھے کیا کہتا ہے وہ جو کہتا ہے کہتا رہے میں نے جب سچی بات کہنے کی قسم کھائی ہے تو اس سلسلہ میں بھی یہ سچی بات کہہ دی ہے اور جو کچھ کہا اس کی ایک نہیں سو دلیل میرے پاس موجود ہیں لیکن یہ موضوع تفسیر ہے تاریخ یا سیرت کا نہیں ورنہ میں اس کی بہت زیادہ وضاحت عرض کرتا لیکن اس جگہ اس پر اکتفا کرتا ہوں اور اب نبی کریم ﷺ کی بنات کے متعلق ایک مختصر سا تعارف پیش کرکے بات کو بالکل ختم کردیں گے اور پھر آگے بڑھیں گے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ہمارے نبی کریم ﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں اور چاروں ہی سیدہ خدیجۃ الکبری کے بطن اطہر سے تھیں اور سب کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ 1… سیدہ زینب ؓ جو قاسم ؓ سے چھوٹی اور دیگر اولاد النبی سے بڑی تھیں۔ 2… سیدہ رقیہ ؓ جو سیدہ زنیب سے چھوٹی تھی۔ 3… سیدہ ام کلثوم ؓ جو سیدہ رقیہ ؓ سے چھوٹی تھیں۔ 4… سیدہ فاطمہ الزہرا ؓ جو سیدہ ام کلثوم ؓ سے چھوٹی تھیں۔ سیدہ زینب ؓ پیدا ہوئیں تو اس وقت نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک 30 سال کی تھی ان کا نکاح مکہ میں ابوالعاص بن ربیع سے ہوا۔ ابو العاص ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے جو سیدہ خدیجۃ الکبری کی حقیقی بہن تھیں یہ نکاح خدیجہ الکبریٰ کی زندگی میں ہوا گویا سید زینب اور ابوالعاص دونوں خالہ زاد تھے ۔ سیدہ زینب اپنی والدہ ماجدہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے ساتھ ہی داخل اسلام ہوگئی تھی لیکن ابوالعاص کا اسلام متاخر تھا جنگ بدر میں ابوالعاص قریش کی جانب تھے سیدہ زینب رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی نے اپنے خاوند کے فدیہ میں اپنا وہو ہار بھیجا تھا جو خدیجہ الکبریٰ نے اپنی بیٹی کو الوداع کرتے وقت دیا تھا۔ سیدہ زینب کے ہاں ایک لڑکا علی اور ایک لڑکی امامہ پیدا ہوئی۔ علی ؓ سبط الرسول کو رضاعت کے بعد نبی کریم ﷺ نے مدینۃ النبی میں بلالیا تھا اور اپنی اس بیٹی کے بیٹے کی تربیت آپ ﷺ نے خود فرمائی اور فتح مکہ کے دن یہی علی ؓ سبط الرسول آپ ﷺ کی ناقہ پر آپ ﷺ کے ردیف تھے۔ ابھی عنفوان بلوغ کو پہنچے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھا لئے گئے اور اس طرح وہ رفع علیین ہوئے اور ان کی وفات نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں ہوئی۔ (بخاری) امامہ نبی کریم ﷺ کی وہ پیاری نواسی ہیں جن کو گود میں لے کر نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھی۔ (صحیح مسلم ، نسائی) یہی دو نواسی ہیں جن کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ احب اھلی الی یہ اہل بیت میں سے مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے او یہ اہل بیت اس لئے کہ آپ ہی کے پاس پرورش پارہی تھی کیونکہ زینب رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینۃ النبی میں تھیں یہی وہ امامہ ہیں جن کے بارے میں سیدہ فاطمہ ؓ نے اپنے خاوند سیدنا علی ؓ کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد آپ امامہ کو اپنے نکاح میں لے لیں حضرت علی ؓ نے اس وصیت پر عمل کیا اور امامہ کے ساتھ سیدہ فاطمہ ؓ کے بعد نکاح کرلیا اور ان کے بطن سے سیدنا علی ؓ کے دو بیٹے پیدا ہوئے تھے اس نکاح میں سیدہ امامہ ؓ کے نکاح کے ولی حضرت حسن بنائے گئے سیدہ امامہ کا یہ دوسرا نکاح تھا جو حضرت علی ؓ سے ہوا۔ سیدہ رقیہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی دوسری صاحبزادی ہیں ان کی پیدائش کے وقت رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک 33 سال کی تھی گویا کہ رقیہ ؓ سیدہ زینب ؓ سے تین سال چھوٹی تھیں ان کا نکاح بھی مکہ میں سیدنا عثمان بن عفان ؓ سے ہوا تھا اور اس وقت یہ بات عام تھی کہ سب سے اچھا جوڑا جو دیکھا گیا وہ رقیہ وعثمان ہیں۔ ؓ سیدہ رقیہ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے ہجرت فی سبیل اللہ کی سنت کو اپنے شوہر سیدنا عثمان کا ساتھ دے کر قائم کیا چناچہ مستدرک حاکم میں ہے کہ انھما الاول من ھاجر بعد لوط وابراھیم کہ لوط و ابراہیم کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی ہے اور لوط علیہ اسلام کی یہ پہلی ہجرت تھی جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کیس اتھ اپنے وطن سے مصر کی طرف کی تھی لوط (علیہ السلام) اگرچہ اس وقت ابھی نبی نہیں تھے البتہ مہاجر ضرور تھے۔ سیدہ رقیہ کے بطن سے حضرت عثمان کے ایک صاحبزادے پیدا ہوئے جن کا نام عبداللہ رکھا گیا سیدہ رقیہ کو 2 ہجری میں چیچک کا مرض لاحق ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا حضرت عثمان کو نبی کریم ﷺ نے بدر میں شامل نہ ہونے دیا محض اس لئے کہ وہ اسامہ بن زید کو ساتھ لے کر رقیہ کی تیمار داری کے فرائض سرانجام دیں بدر کی فتح کی خوشخبری زید بن حارثہ ؓ لے کر جب مدینہ پہنچے تو اس وقت ان کی تدفین ہورہی تھی اور اس وقت ان کی عمر تقریباً 21 سال ہوئی تھی رقیہ کو وفات پائے ہوئے ایک سال ہوا تھا کہ آپ ﷺ نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح سیدنا عثمان سے کردیا اور اس وقت آپ کو ذوالنورین کالقب ملا کہ نبی ﷺ کی دوسری بیٹی بھی عثمان کے گھر کو آباد کرنے کیلئے آئیں اور آپ کی ان صاحبزادی نے بھی آپ کی موجودگی ہی میں 9 ہجری میں وفات پائی ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی اور عثمان ؓ کے بیٹے عبداللہ کا بھی جو رقیہ کے بطن سے تھے 6 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا اور آپ کی چوتھی صاحبزادی فاطمہ تھیں۔ سیدہ فاطمۃ الزہرا کا نکاح حضرت علی ؓ سے ہوا اور ان کا حال تقریباً سب کو معلوم ہی ہے سیدہ فاطمہ ؓ کے بطن سے دو بیٹیاں ہوئیں اور سیدہ نے ان کے نام بہنوں کے نام پر رکھے ایک کا نام زینب تھا جو بڑی تھیں اور دوسری کا نام ام کلثوم جو چھوٹی تھیں۔ ام کلثوم کا عقد حضرت عمر ؓ سے ہوا تھا اور حضرت عمر ؓ کے دو بچے سیدہ ام کلثوم عمر فاروق ؓ کے بطن سے پیدا ہوا تھے جن میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی لڑکے کا نام زید رکھا گیا اور لڑکی کا نام رقیہ رکھا۔ حضرت عمر فاروق ؓ کیوفات بعد ام کلثوم کا نکاح ثانی عدی بن جعفر طیار سے ہوا اتفاق دیکھئے کہ ام کلثوم بنت علی ؓ کی وفات اور ان کے بیٹے زید بن عمر فاروق ؓ کی وافت ایک ہی روز ہوگئی اور زینب بنت فاطمہ الزہرا کا نکاح عبداللہ بن جعفر طیار سے ہوا تھا اور عبداللہ بھی میدان کربلا میں ہی کام آئے تھے بلکہ ان کے فرزند عدی بن عبداللہ بھی کربلا میں مقتولین کربلا میں شامل تھے ۔ بنات النبی کے اس مختصر تذکرہ کے بعد ہم اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں بنات النبی کا تفصیلی ذکر دیکھنا ہو تو تاریخ وسیر کا مطالعہ کرو اور بنات النبی کے نام سے کتب بھی چھپی ہیں۔ اس نام کی کوئی کتاب مطالعہ میں رکھ لو تو انساء اللہ ساری حقیقت واضح ہوجائے گی۔
Top