Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 61
مَّلْعُوْنِیْنَ١ۛۚ اَیْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا
مَّلْعُوْنِيْنَ ڔ : پھٹکارے ہوئے اَيْنَمَا : جہاں کہیں ثُقِفُوْٓا : وہ پائے جائیں گے اُخِذُوْا : پکڑے جائیں گے وَقُتِّلُوْا : اور مارے جائیں گے تَقْتِيْلًا : بری طرح مارا جانا
وہ (اللہ کی طرف سے) پھٹکارے ہوئے ہیں ، جہاں پائے گئے (بس) پکڑے گئے اور جان سے مارے گئے
منافقین پھٹکارے گئے ہیں اور اب وہ جہاں بھی جائیں گے لعنت ان کو نہیں چھوڑے گی 61 ۔ گزشتہ آیت میں منافقین مدینہ کا انجام بتایا گیا تھا اور زیر نظر آت نے اس کی مزید وضاحت فرمادی ہے کہ لعنت وپھٹکار کے مستحق ٹھہرے ہیں گویا اب جہاں بھی وہ مدینہ میں رہیں گے لعنت و پھٹکار ہی میں رہیں گے جب تک ظاہر نہیں ہوں گے اور جب ظاہر ہوں گے تو پکڑے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے۔ { اینما ثقفوا } بلا شبہ عام ہے کہ جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں گے لیکن چونکہ یہ پیش گوئی مدینۃ النبی کے لئے تھی اسی لئے { اینما ثقفوا } کے معنوں میں ” فی المدینۃ “ کے الفاظ تسلیم کیے جائیں گے کیونکہ اوپر آیت میں یہ قید موجود ہے جو یہاں بھی بحال رہے گی اور { ملعونین } کی میم پر جو تشدید ہے وہواضح کررہی ہے کہ اس آیت کا تعلق گزشتہ آیت کے ساتھ قائم ہے اور دونوں کا مضمون مشترک ہے اس لئے اوپر جو پیش گوئی کی گئی ہے اس کا تعلق اس آیت کے ساتھ بھی اسی طرح قائم ہے اور اس طرح دونوں آیتوں کا مفہوم واضح اور مربوط ہوتا ہے بلا شبہ جو ہم نے کہا ہے وہ مفسرین میں سے کسی نے بھی بیان نہیں کیا اور ان دونوں آیتوں کی تفسیر آپ کسی تفسیر سے اٹھا کر دیکھ لیں مضمون واضح نہیں ہوتا اور نہ اس بات کی سمجھ آتی ہے کہ یہ مفسر صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ مثلاً آپ ضیاء القرآن ہی کو لے لیں انہوں نے آیت 61 پر حاشیہ اس طرح دیا ہے کہ منافقوں اور بد باطن لوگوں کے لئے اے حبیب ! تیرے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ چند روز یہاں رہیں گے اس کے بعدا نہیں یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ جہاں جائیں گے ان پر لعنت اور پھٹکار ہوگی جہاں بھی وہ پائے جائیں گے اپنی بداعمالیوں کی پاداش میں انہیں گرفتار کرلیا جائے گا اور انہیں بڑی رسوائی اور ذلت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا “۔ سمجھ میں کچھ آیا ؟ کیا یہ کوئی خاص لوگ تھے جو منافق تھے جن کو چند روز یہاں رکھنے کے بعد یہاں سے نکال دیا گیا اور پھر جہاں وہ گئے مارے گئے اور قتل کیے گئے ؟ اگر بات ایسی ہے تو ان کا معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون تھے ، کہاں گئے ، کیسے پکڑے گئے اور کیسے قتل ہوئے ؟ اور اگر عام منافقت اس سے مراد ہے تو کیا اب دنیا میں بکثرت منافق موجود نہیں ہیں ؟ جن کو نہ پکڑا گیا ہے اور نہ ہی وہ قتل کیے گئے ہیں۔ وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ قرآن کریم کیا کہہ رہا ہے اور اس آیت کا واضح مفہوم کیا ہے جب کہ ہم دیکھ رہے ہیں اس وقت بھی اسلامی حکومت کے اندر منافق موجود تھے اور آپ کی وفات کے بعد بھی وہ موجود رہے اور اسلام کے اندر ریشہ دوانیاں کرتے رہے اور ان کی تحریک نے کامیابی بھی حاصل کی اور اس وقت سے لے کر آج تک موجود ہیں بلکہ اب تو ان کی ہر طرف کثرت نظر آرہی ہے اور اس طرح آیت کا مفہوم واضح نہیں ہوتا کیونکہ وہ مشاہدہ کے بھی خلاف ہے اور تاریخی لحاظ سے بھی حالانکہ قرآن کریم کی کہی ہوئی بات کبھی غلط نہیں ہوسکتی اور خصوصاً اس کے ساتھ تو آنے والی آیت نے مزید چیلنج بھی کردیا ہے کہ جو بات زیر نظر دونوں آیتوں میں کہی جارہی ہے یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہے اور ایسا اعلان ہے جس طرح کے کیے ہوئے اعلان کبھی غلط نہیں ہوتے نہ آج تک کوئی غلط ثابت کرسکا اور نہ ہی آئندہ ثابت کرسکے گا۔
Top