Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 66
یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا
يَوْمَ : جس دن تُقَلَّبُ : الٹ پلٹ کیے جائیں گے وُجُوْهُهُمْ : ان کے چہرے فِي النَّارِ : آگ میں يَقُوْلُوْنَ : وہ کہیں گے يٰلَيْتَنَآ : اے کاش ہم اَطَعْنَا : ہم نے اطاعت کی ہوتی اللّٰهَ : اللہ وَاَطَعْنَا : اور اطاعت کی ہوتی الرَّسُوْلَا : رسول
جس دن وہ اوندھے منہ آگ میں ڈالے جائیں گے (اس وقت) وہ کہیں گے کہ کاش ! ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول ﷺ کی فرمانبرداری کی ہوتی
ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے تو اس وقت افسوس کریں گے 66 ۔ دوزخ میں جب ان کو بھوننے کے لئے الٹ پلٹ کیا جائے گا یا یہ کہ دوزخ کی آگ سے جل بھن کر ان کے چہروں کی حالت بدل جائے گی کبھی کچھ اور کبھی کچھ نظر آئے گی اس وقت وہ پکاریں گے اور نہایت افسوس سے کہیں گے کہ ہائے افسوس ہم کو کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی تابعداری کی ہوتی لیکن اب اس افسوس کا کوئی فائدہ ان کو نہیں پہنچے گا کیونکہ وقت نکل جانے کے بعد کف افسوس ملنے سے وقت کبھی واپس نہیں آجاتا۔ بلاشبہ وقت واپس آنے کی کہانیاں بھی ہمارے ہاں بہت گھڑی گئی ہیں لیکن کہانیوں کا کیا ہوتا ہے وہ تو کہانیاں ہی ہوتی ہیں حقیقت تو وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اور یادرکھو کہ گیا وقت کبھی ہاتھ نہیں آتا یہ یار لوگوں کی محض خوش فہمیاں ہیں جن کا کوئی سر سر نہیں ہے اگر ہمارے ہاں انہیں باتوں کو پذیرائی حاصل ہے اور کوئی شخص جتنے زیادہ سے زیادہ جھوٹ بول سکتا ہے یا تحریر کرسکتا ہے اتنا ہی وہ زیادہ مقبول قرار پاتا ہے۔ چناچہ تحریر ہے کہ : ” امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی (رح) ایک روز نماز فجر کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے دیکھا کہ ایک شخص قبلہ رو پہلوئے راست پر سو رہا ہے خیال کیا کہ شاید نماز پڑھ کر سوگیا ہے پھر ظہر کے وقت گئے تب بھی اسی کروٹ سے سوئے پایا پھر عصر ومغرب کے اوقات میں بھی وہی کیفیت دیکھی جب وقت مغرب تنگ ہونے لگا تو اس کو جگایا اور فرمایا کہ نماز قضا ہوئی جاتی ہے وہ شخص جاگا اور وضو کرکے اول نماز فجر کی نیت کی تو سب دیکھتے ہیں کہ ٹھیک صبح کا وقت اور نور کا تڑکا ہے ، اس نے ظہر کی نیت کی تو وقت ظہر معلوم ہونے لگا اور جب عصر کی نیت باندھی تو وقت عصر موجود تھا اور مغرب کی نیت کی تو مغرب کا پھر مدد صاحب سے اس نے کہا کہ نماز کے لئے تو آپ نے جگا دیا مگر حال نہ پہچانا کہ کیا ہے بھلا اس حالت کے روبرو نماز کیا شے ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھئے کہ نماز کچھ شے نہیں البتہ ایسی حالت کے فقیر ہر وقت نماز میں رہتے ہیں گو ظاہر میں نماز نہ پڑھیں “۔ (تذکرہ غوثیہ ص 335 , 334) جن دماغوں میں اس طرح کی باتیں بیٹھ چکی ہیں اور پھر وہ تہ بہ تہ جم چکی ہیں ان کے سامنے قانون الٰہی کے سربستہ رازوں کا ذکر کیا جائے تو وہ قانون الٰہی کو کیا جانیں گے ان کے دماغوں میں تو اتنا کچھ بھرا پڑا ہے کہ اب قانون الٰہی کی باتوں کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے جو باتیں بچپن سے دل میں سمائی ہیں وہ کانوں کی راہ سے آئی ہیں اور کانوں ہی کے راستے سے نکلیں گی۔ کسی نے خوب کہا ؎ بھو بھاگت بھاگت بھاگے رنگ لاگت لاگت لائے بہت دنوں کا سویا منوا جاگت جاگت جاگے ہمارا مطلب واضح ہے کہ رفع اوہام وشکوک کے لئے ایک مدت چاہیے ع عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
Top