Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 8
لِّیَسْئَلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِهِمْ١ۚ وَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا۠   ۧ
لِّيَسْئَلَ : تاکہ وہ سوال کرے الصّٰدِقِيْنَ : سچے عَنْ : سے صِدْقِهِمْ ۚ : ان کی سچائی وَاَعَدَّ : اور اس نے تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
تاکہ سچوں سے اللہ ان کی صداقت کے متعلق سوال کرے اور کافروں کے لیے (اللہ نے) دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے
سچوں سے ان کی سچائی کے بارے سوال ہوگا اور کافروں کو عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا 8) سچے کون ہیں ؟ وہی جنہوں نے سچائی کی تصدیق کی اور جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کردیا اور وہ لوگ جنہوں نے سچائی کا اعلان کیا اور اپنے اعلان کے مطابق عمل کرکے دنیا کو دکھا دیا اور اس ملامت کرنے والے کی ملامت کی انہوں نے کوئی پروانہ کی بلاشبہ اس جگہ الصادقین سے مراد خود انبیاء ورسل ہیں اور وہ لوگ بھی جنہوں نے ان کی سچائی کو بسررو چشم قبول کیا۔ گزشتہ مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے جب محمد رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے حکم سے غلام اور آزاد کی تقسیم کو توڑنے کے لئے زید کی شادی کا پروگرام اپنی حقیقی پھوپھی کی بیٹی زینب سے نکاح کرادیا اور اس طرح غلامی کی لعنت کو قیامت تک کے لئے دفن کردیا اور لوگوں کی اس غلط تقسیم کا قلع قمع کردیا پھر جب یہ معاملہ راس نہ آیا ، زیدوزینب کے درمیان سکون وامن قائم نہ رہ سکا حالانکہ انہوں نے ازواجی زندگی کی مخصوص صورت حال کو بھی قبول کیا اور انجام کار زید نے زینب کو باوجو نبی کریم ﷺ کے اس مشورہ کے کہ آپ ﷺ نے فرمایا طلاق نہ دو ، طلاق دے دی تو اس صورت حال نہ ہماری اسلامی زندگی کے لئے بیشمار نصیحتیں چھوڑیں جن کا ذکر انشاء اللہ ان کے اصل مقام پر کیا جائے گا پھر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب اپنے متنبی کی بیوی سے خود شادی کرلی تو وقتی رواج کے بت کو اپنے اسوہ حسنہ سے پاش پاش کرکے رکھ دیا اور لوگوں نے جو کہا وہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرتے ہوئے لوگوں پر ثابت کردیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ کرنے اور عمل کرنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ صرف پڑھنے کے لئے اور مصنوعی طریقہ سے ثواب حاصل کرنے کے لئے نیز اس کی وضاحت فرمادی کہ وہ لوگ جو مصلحت کی خاطر احکام الٰہی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ان کی بجائے قوی رواجات کو اہمیت دیتے ہیں وہ صرف گناہ ہی نہیں کرتے بلکہ وہ ایک ایسا برا عمل کرتے ہیں کہ جس سے ان کا کفر واضح ہوجاتا ہے اور اگر وہ اسی حالت پر قائم رہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو بلاشبہ وہ مبتلائے عذاب کردیئے جاتے ہیں اور آخرت میں بھی وہ درد ناک عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس کے بعد مضمون جنگ احزاب جس کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے اس کی طرف منتقل ہوتا نظر آتا ہے۔
Top