Urwatul-Wusqaa - Faatir : 22
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَمَا يَسْتَوِي : اور نہیں برابر الْاَحْيَآءُ : زندے وَلَا : اور نہ الْاَمْوَاتُ ۭ : مردے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُسْمِعُ : سنا دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جس کو وہ چاہتا ہے وَمَآ اَنْتَ : اور تم نہیں بِمُسْمِعٍ : سنانے والے مَّنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
اور نہ زندہ اور مردہ کبھی برابر ہو سکتے ہیں ، بلاشبہ اللہ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور (اے پیغمبر اسلام ! ) ان لوگوں کو جو قبروں میں مدفون ہیں (مر مٹ گئے ہیں) آپ ﷺ ان کو بھی نہیں سنوا سکتے
زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوتے اللہ تو جس کو چاہے سنا سکتا ہے 22 ۔ زندوں سے بھی اس جگہ ایمان والے اور مردوں سے کفار مراد ہیں اور گزشتہ مضمون کی طرح یہاں بھی ان دونوں کو محض ایک دوسرے کی مخالفت کے لئے بیان کیا گیا ہے اور قرآن کریم نے جہاں بھی ان دونوں کو بطور تقابل بیان کیا ہے موت سے مراد کفر ہی لی ہے اور اس موت کے مرے ہوئے لوگوں کو ایمان کی زندگی دینے کے لئے انبیاء کرام اور رسل عظام تشریف لائے اور اسی کفر کو مٹانے کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی لیکن اس کے باوجود جن بدبختوں کو کفر کی موت مرنا تھا وہ ایمان کی زندگی حاصل نہ کرسکے باوجود اس کے کہ انبیاء کا کام ایمان کی زندگی تقسیم کرنا تھا لیکن اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام یعنی ہدایت دینا اللہ کا کام ہے نبی کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے اس بات کو دوسری جگہ ” باذن اللہ “ سے بیان کیا ہے یعنی نبی ورسول کسی کو کفر کی موت سے زندگی دے سکتے ہیں تو وہ { باذن اللہ } ہی دے سکتے ہیں اور آپ ﷺ اے پیغمبر اسلام قبروں والوں کو نہیں سنواسکتے۔ جس طرح آیت کے پہلے حصہ میں موت سے مراد کفر ہے اس طرح آیت کے اس آخری حصہ میں قبر سے مراد کفر کا گڑھا بھی لی جاسکتی ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو کفر کے گڑھے میں مدفون ہیں ان کے دلوں میں ایمان بھر دینا رسول کا کام نہیں ہے۔ گزشتہ چار آیتوں کا مفہوم اپنے اندر انسان کے لئے ہدایت لئے ہوئے ہے گزشتہ چار آیتوں میں جو تمثیلات بیان کی گئی ہیں یہ وہی ہیں جو قرآن کریم میں جگہ جگہ الگ الگ بیان کی جاچکی ہیں اور ان تمثیلات میں ایک مومن اور کافر کی زندگی کا فرق بتایا گیا ہے۔ کافروہ ہے جو حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور کچھ نہیں دیکھتا کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ جس میں اس کا اپنا وجود بھی شامل ہے اپنے اندر کس صداقت کو لئے ہوئے اس کا اعلان کررہا ہے اور مومن وہ ہے جس کی ہدایت کھلی ہیں اور وہ صاف صاف دیکھ رہا ہے کہ اس کائنات کی ہرچیز توحید الٰہی کا درس دے رہی ہے یہاں تک کہ اس کا اپنا وجود بھی اس بات کی گواہی پیش کررہا ہے کہ اس کائنات میں ایک اور صرف ایک ناظم ہے جس کے ہاتھ میں سارا نظام ہے۔ کافر وہ ہے جو اہام ومفروضات اور قیاسات کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کی لائی ہوئی روشنی کو روشنی تسلیم کرنے ہی سے عاری ہے اور مومن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون پر پختہ یقین رکھتا ہے اور مفروضات وقیاسات کے گھوڑے کبھی نہیں دوڑاتا اور ایمانیات میں اس قدر پختہ ہے کہ وہم و گمان کے قریب بھی نہیں بھٹکتا ۔ کافر وہ ہے جو دوزخ کی تپش میں خوب تپایا اور جلا یا جانے والا ہے اور مومن وہ ہے جو سایہ رحمت الٰہی کا استحقاق رکھتا ہے اور وہ اس میں جگہ پائے گا اور انجام کار کافر کو موت سے اور مومن کی زندگی سے تشبیہہ دے کر بات کو مزید واضح کردیا گیا ہے اور ان تمثیلات و استعارات میں جو لطف بیان ہے وہ عام عبارت میں کہاں میسر آسکتا ہے اور انسانی زندگی کے لئے جو ان تمثیلات اور استعارات میں جو لطف بیان ہے وہ عام عبارت میں کہاں میسر آسکتا ہے اور انسان زندگی کے لئے جو ان تمثیلات اور استعارات میں ہدایات دی گئی ہیں وہ بلا شبہ سیدھی دل پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اسلام کی تعلیمات میں دل کی اصلاح ہی سے پورے جسم کی اصلاح ممکن ہے دل بیمار ہو تو جسم کبھی صحت مند نہیں ہوسکتا اور اس صحت سے وہ صحت مراد ہے جس سے انسان کی آخرت سنور جائے کیونکہ دنیوی زندگی تو نہایت عارضی زندگی ہے اصل زندگی تو وہی زندگی ہوسکتی ہے جس زندگی کے بعد موت کو بھی موت دی جائے گی اور زندگی ہی زندگی باقی رہ جائے گی۔ مختصراً یہ کہ ان آیات میں مومن کو بینا ، نور ، سایہ اور زندہ سے تشبیہہ دی گئی ہے اور کافر کو اندھا ، تاریکی ، دھوپ اور مردہ قرار دیا گیا ہے اور کافر کو مردہ کہنے کے بعد کہا گیا ہے کہ مردے نہیں سنتے۔ سماع موتی کے متعلق پیچھے سورة النحل کی آیت 81 , 80 ، سورة الروم کی آیت 52 میں بیان کیا گیا ہے اور حدیث میں جو قبرستان میں جاکر ” السلام علیکم یا اھل القبور “ اس کے بعد یہ ایک دعا بیان کی گئی ہے یہ اکرام ہے ان مومنین ومسلمین کا جن کو ہم نے یہاں چھوڑا تھا اور وہ بلا شبہ ان تک ہمارا اسلام پہنچایا جاتا ہے اور اس سے یہ بحث کہ مردے سنتے ہیں اس لئے بھی صحیح نہیں کہ اگر کوئی سننے کے باوجود جواب نہ دے سکے تو یہ سننا اس کے لئے محمود نہیں بلکہ مذموم ہی ہوگا اور پھر مرنے والوں کے متعلق اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ قبروں کی طرف زندوں کا جانا محض عبرت حاصل کرنے کے لئے ہے کہ جہاں ہم نے ان کو دفن کیا ہے یہیں ہم کو دفن کیا جانا ہے اور اس شہر خاموشاں میں خاموش ہو کر آنے کے لئے ابھی تک ہم کو زندہ رکھا گیا ہے۔ یہ عبرت کی جگہ ہے تماشا نہیں اس لئے اس جگہ سے عبرت ہی حاصل کرنا چاہیے اس کو تماشا گاہ بنانا صاحب عقل کا کام نہیں بلکہ سراسر ایک جہالت کا مظاہرہ ہے اور جاہلوں ہی کا یہ مشغلہ ہے۔
Top