Urwatul-Wusqaa - Faatir : 31
وَ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ
وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی بھیجی ہے اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب هُوَ : وہ الْحَقُّ : حق مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والی لِّمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ ۭ : ان کے پاس اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں سے لَخَبِيْرٌۢ : البتہ باخبر بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اور جو کتاب ہم نے آپ ﷺ پر نازل کی ہے وہی حق ہے اپنے سے پہلے کی (نازل کی گئی کتابوں کی) تصدیق کرتی ہے ، بلاشبہ اللہ اپنے بندوں سے باخبر ہے (اور ان کی ہر بات کو) دیکھنے والا ہے
قرآن کریم اللہ کی وہ کتاب ہیجس میں گزشتہ کتابوں کا بھی خلاصہ بیان کیا گیا ہے 31 ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ پر جو کتاب نازل کی گئی وہی کامل ومکمل کتاب ہے۔ گزشتہ کتابوں کے جن جن واقعات کی اس نے تصدیق کی وہ بلا شبہ صحیح اور درست ہیں اور یہ بھی کہ جن جن حصوں کی اس نے تصدیق کی ہے وہی درست ہیں جو تحریف سے پاک ہیں اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے غیر درست ہونے پر اس نے مہر ثبت کردی ہے اور ایسی بھی ہیں جن کی طرف درست نہ ہونے کا اس نے اشارہ کردیا ہے لیکن ان پر زور نہیں دیا اس لئے کہ وہ باتیں اخلاقی نہیں تھیں اور غیر ضروری بحثوں کو قرآن کریم نے چھوا اور چھیڑا تک نہیں ہے اور بلاشبہ قرآن کریم کا مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ غیر ضروری باتوں کے پیچھے نہیں پڑتا اور اس طرح جو کچھ کرتے ہیں اس کو برداشت کرلیتا ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ قرآن کریم کو بیان کرنے کے لئے اور اس کی عملی تعلیم دینے کے لئے اللہ کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ بھیجے گئے تاکہ وہ اپنے اسوہ حسنہ سے ان کو مشاہدانہ تعلیم دے دیں اور اس کی گارنٹی بھی دے دی کہ جو کچھ محمدرسول اللہ ﷺ تعلیم دے رہے ہیں یہی حقیقت ہے اور اس پر ماننے اور تسلیم کرنے والوں کو حصر اور نحصار کرنا چاہیے تاکہ رسول اللہ ﷺ کی اپنی حیثیت بھی واضح ہوجائے کہ وہ محض باجا کی طرح بجنے کے لئے نہیں ہیں اور ٹیپ ریکارڈر کی طرح صرف نقل سنانے کے لئے نہیں بھیجا گیا بلکہ وہ پریکٹیکل کرکے دکھانے کے لئے بھیجا گیا ہے اور جو کچھ اس نے کرکے دکھایا ہے وہ وہی ہے جو قرآن کریم کی عبارت میں آگیا ہے ہاں ! جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا اور ہم تک پہنچایا ہم کو ان کے متعلق تسلی کرنا ہے کہ آیا انہوں نے صحیح کہا یا غلط کہہ دیا تو اس کے لئے ایک روایت کی تسلی ہے اور دوسری درایت کی اور دونوں کے جو اصول مقرر کیے گئے ہیں ان پر انحصار کرنے کے سوا ہم کو چارہ نہیں۔ ہاں ! اس کے لئے قرآن کریم ہی ایک کسوٹی ہے جس پر حق وناحق پر کھا جاسکتا ہے کہ یہ اصل ہے اور احادیث اس کی تشریح اور انجام کار آیت نے ہم کو بتادیا کہ سب حالات سے آگاہ واقف وہ خود ہے اور بندوں کو وہ دیکھ رہا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اس لئے جو تم کرو اس نظریہ کے تحت کرو کہ اللہ کو ہمارے کیے کی خبر ہے اور وہ ہم کو ہر حالت میں دیکھ رہا ہے یادرکھو کہ اس پر جتنا عقیدہ تمہارا مضبوط ہوگا اتنا ہی غلطی کا امکان کم ہوتا جائے گا اور یقینا اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور انسانی عیوب کی پردہ پوشی کرنے والا بھی ہے۔ اس لئے ہم سب کو یہی کہنا چاہیے کہ رب اغفروارحم وانت خیرالراحمین۔
Top