Urwatul-Wusqaa - Faatir : 33
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا١ۚ وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ
جَنّٰتُ عَدْنٍ : باغات ہمیشگی کے يَّدْخُلُوْنَهَا : وہ ان میں داخل ہوں گے يُحَلَّوْنَ : وہ زیور پہنائے جائیں گے فِيْهَا : ان میں مِنْ : سے ۔ کا اَسَاوِرَ : کنگن (جمع) مِنْ : سے ذَهَبٍ : سونا وَّلُؤْلُؤًا ۚ : اور موتی وَلِبَاسُهُمْ : اور ان کا لباس فِيْهَا : اس میں حَرِيْرٌ : ریشم
وہ باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے وہاں ان کو سونے اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس حریر (ریشم) کا ہو گا
یہی لوگ جنت عدن کے رہنے والے ہیں اور انعامات جنت کے مستحق ہیں 33 ۔ اوپر جو تین اقسام کے لوگ بیان کئے گئے ہیں بلاشبہ یہ لوگ جنت عدن کے مالک اور وارث بنائے جائیں گے اور اپنے اپنے درجات کے مطابق ان کو وہاں رہنا ہوگا اس بات کو اس ایک مثال سے اچھی طرح سمجھ لو اور وہ یہ ہے کہ ابو ثابت کہتے ہیں کہ میں ایک روز مسجد نبوی میں گیا اور میرے جانے سے پہلے ابوالدرداء ؓ مسجد میں ایک جگہ تشریف فرما تھے اور ان کے قریب میں بھی جاکر بیٹھ گیا اور بیٹھ کر میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اللھم انس وحشتی وارحم غربتی ویسرلی جلیسا صالحا ” اے اللہ میری قلبی وحشت و پریشانی کو دور فرما اور میری حالت مسافرت پر رحم فرما اور مجھے کوئی صالح اور نیک جلیس یعنی ہم نشین عطا فرمادے “۔ ابودرداء ؓ نے میری یہ دعا سنی تو فرمانے لگے کہ بھائی ! اگر آپ اپنی اس دعا وطلب میں سچے ہیں تو میں اس معاملہ میں آپ سے زیادہ خوش نصیب ہوں کہ اس نے مجھے آپ جیسا جانشین بےمانگے عطا فرمادیا ہے۔ ابوالدردائ ؓ یہ کہہ کر فرمانے لگے کہ بھائی میں آپ کو ایک حدیث سنتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے لیکن ابھی تک اس کے بیان کرنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ وہ حدیث یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک روز { ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا } آیہ کریمہ تلاوت فرمائی اور پھر فرمانے لگے کہ ان تینوں قسموں میں سے جو سابق بالخیرات ہیں وہ تو وہ ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے او جو مقتعد یعنی درمیانے ہیں ان سے ہلکا سا حساب لیا جائے گا اور وہ جنت میں داخل کردیئے جائیں گے لیکن وہ جن کو ” ظالم لنفسہ “ کہا گیا ہے یعنی اعمال میں کوتاہیاں کرنے والے اور گناہوں کی لغزش میں مبتلا ہونے والے ہیں ان کو اس مقام پر ایک دفعہ تو سخت رنج والم ہوگا اور یہی رنج والم ہی ان کے گناہوں کا ازالہ کردے گا اور انجام کار ان کو بھی جنت عدن میں داخل کردیا جائے گا اور زیر نظر آیت میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ ” ان ہی لوگوں کے لئے وہ باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے وہاں ان کو سونے اور موتیوں کے کنگن پہنچائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس بھی ریشمی قسم کا ہوگا “۔ اور قرآن کریم نے اہل جنت کے لئے ہر اس چیز کو بیان کردیا ہے جس کی چاہت انسانی کے دل میں اس وقت موجود ہے اور یہ اس لئے بیان کیا ہے کہ جو چاہت اس وقت انسان کی ہوگی وہی کچھ اس کو اس وقت ملے گا۔ اگر ان چیزوں سے جنت کے انعامات کا ذکر نہ کیا جاتا تو انسان ان انعامات کو کبھی سمجھ نہ سکتا تھا اور اگر وہ سمجھ ہی نہ سکتا تو اس کا طلب ہوتی تو کیا ہوتی ؟ لیکن یاروں نے اسی تصور کے اندر گم ہو کر حورعین کے گلے میں با ہیں دیں اور تن من دھن سے ایک ہوگئے اور اب کہہ رہے ہیں کہ ع تاکس نہ گوید من دیگرم تو دگیری
Top