Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 13
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِ١ۘ اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَۚ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (قصہ) اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ ۘ : بستی والے اِذْ : جب جَآءَهَا : ان کے پاس آئے الْمُرْسَلُوْنَ : رسول (جمع)
اور (اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ﷺ ان سے گاؤں والوں کا قصہ بیان کیجئے کہ جب ان کے پاس (ہمارے) بھیجے ہوئے آئے
اے رسول ! آپ ﷺ ایک بستی کی طرف ہمارے بھیجے ہوئے جو گئے تھے ان کا ذکر ان کو سنائیں : 13۔ یہ ذکر سب سے پہلے کن لوگوں کو سنانے کا حکم دیا تھا ؟ اس کا صرف ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ مشرکین مکہ کو پھر کیا مکہ والوں نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ بستی کون سی بستی تھی اور کون کون رسول اس کی طرف بھیجے گئے ؟ دو پہلے اور ایک بعد میں کیوں آیا ؟ پھر یہ کہ ان کا واقعہ ہم کو کیوں سنانے جا رہے ہو ؟ اس طرح ایک ایک تفسیر کا مطالعہ کرتے جاؤ سب تفاسیر میں ایسے سوال درج ہیں لیکن کسی نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ یہ سوال مکہ کے مشرکوں نے اٹھائے تھے جس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ مخاطبین اول بہرحال اس واقعہ سے خوب اچھی طرح واقف تھے اور واقفین حال سے اس تفصیل کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آئی اور نہ ہی واقف حال اس طرح کے سوال اٹھاتے ہیں ۔ ہاں ! بعد میں آنے والوں نے اس بستی کے متعلق سوال اٹھایا اور ان کو اس وقت لوگوں نے جواب بھی دے دیا جو دے دیا لیکن پھر مزید بعد میں آنے والے اس تحقیق میں لگ گئے کہ آخر یہ بستی کون سی تھی ؟ اور کون رسول ان کی طرف آئے تھے ؟ ـ پھر کسی نے ان دو رسولوں سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو لیا اور تیسرے کے ذکر کو انہوں نے گول کردیا ۔ ان سے سوال کیا گیا کہ تم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کیسے مراد لے لئے ؟ تو انہوں نے فورا جواب دیا کہ وہ بذاتہ اس سے مراد نہیں ہیں بلکہ ان کی قوموں نے عربوں کو رام کرنے کے لئے بہت کوششیں کی ہیں ۔ پہلے یہودیوں نے کوشش کی اور بعد میں عیسائیوں نے لیکن مکہ کے لوگ اتنے سخت تھے کہ انہوں نے ایک نہ مانی اس لئے ان دونوں نبیوں کی قوموں کو سمجھانے کو نبیوں کا سمجھانا مراد لیا گیا ۔ صاحب علم سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ تفسیر بیان کرنے والے کون ہیں اور انہوں نے کس انداز سے قوم مسلم کو ایک نظریہ دینے کی کوشش کی ، رسول اور نبی سے مراد کبھی قوم کے لوگ بھی ہوتے ہیں ۔ ذرا گہرائی میں جائیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قوم کو نبی ورسول یا نبی ورسول کہلانے وال کو قوم مراد دینے سے کیا فائدہ ہوتا ہے اور کس کو ہوتا ہے ؟ بعض مفسرین نے اس بستی سے مراد انطاکیہ کی بستی لی ہے اور انطاکیہ شام میں ہے اور انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے دو حواریوں کو وہاں بھیجا اور تیسرے کو بعد میں روانہ کیا اور انطاکیہ والوں نے ان تینوں حواریوں کو مارا پیٹا اور ان کے ساتھ بہت ظلم و زیادتی کی اور اس بستی سے مراد انہوں نے انطاکیہ کو لیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے تین حواریوں کو رسول بنا کر قوم کو یہ نظریہ پیش کیا کہ اللہ کی کتاب میں ان نبیوں اور رسولوں کے علاوہ بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے خود بنی ورسول بنا کر مبعوث نہ فرمایا ہو نبی یا رسول کہا جاسکتا ہے کیونکہ نبی کے معنی خبر دینے والا اور رسول کے معنی پیغام پہنچانے والا کے ہیں ۔ یہ نظریہ کن لوگوں کو فائدہ دیتا تھا اور انہوں نے کیوں اس طرح کی تفسیر بیان کرنے کی کوشش کی ؟ بلاشبہ بات خود بخود واضح ہو رہی ہے ۔ ہم بھی ایک بات پوچھنا چاہتے ہیں اپنے زمانہ کے مفسرین سے جو رخصت ہوگئے ‘ ان کے حواریوں سے اور جو موجودہ ہیں براہ راست ان سے کہ آخر اللہ میاں کو اس بستی اور نبیوں اور رسولوں کا نام نہیں آتا تھا اس لئے اس نے اس کی وضاحت نہ کی اور صاف صاف نہ کہہ دیا کہ یہ فلاں بستی تھی اور فلاں فلاں رسول اس بستی کی طرف بھیجے گئے تھے کہ بعد میں آنے والے مفسرین کو یہ کوشش کرنے اور اس کا کھوج نکالنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی ؟ ہم نے یہ سوال کیوں پوچھا ؟ اس لئے کہ ہمارے مفسرین ہم سے پوچھتے ہیں کہ ” جو لوگ قرآن کریم کو اللہ کا کلام مانتے ہیں اور پھر مسیح (علیہ السلام) کے متعلق یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ولادت حسب معمول باپ اور ماں کے اتصال سے ہوئی تھی وہ دراصل ثابت یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اظہار مافی الضمیر اور بیان مدعا کی اتنی قدرت بھی نہیں رکھتا جتنی خود یہ حضرات رکھتے ہیں ۔ “ ہم پوچھتے ہیں کہ ہمارے مفسرین جو آپس میں الجھ گئے اور کوئی کسی بستی کو قرار دیتا ہے اور کوئی کسی بستی کو اللہ تعالیٰ نے ان بستی والوں کا حال سورة یس کی آیت 13 سے 32 تک بیس آیتوں میں بیان کیا اور کہیں اس بستی کا اور اس بستی کی طرف آئے ہوئے رسولوں کا ذکر نہ کیا کہ وہ بستی کون سی تھی اور وہ رسول کون سے تھے ؟ کیا اللہ میاں کو اظہار مافی الضمیر اور بیان مدعا کی اتنی قدرت بھی نہیں جتنی ان ہماری مفسرین کو ہے حالانکہ قرآن کریم نے بیسیوں نبیوں اور ان کی بستیوں کا ذکر کیا ہے اور کسی بستی کے بارے میں ‘ کسی رسول کے بارے میں ان کو ابہام نہیں ہوا جتنا اس بستی کے بارے میں وہ ٹکریں مارتے پھر رہے ہیں اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا لہذا کوئی کسی بستی کا ذکر کرتا ہے اور کوئی کسی کا نام لیتا ہے ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بیان کی اس جگہ کوئی ضرورت نہیں تھی اور مفسرین کی یہ ٹکریں خواہ مخواہ ہیں ۔ رہی یہ بات کہ ہم کسی کو بغیر باپ کے کیوں نہیں مانتے کیا اللہ تعالیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کرنے کی قدرت نہیں ہے ؟ تو اس کے لئے ہماری اتنی التجا ہے کہ ہمارے ان مفسرین میں سے جو زندہ حیات موجود ہیں براہ راست اور جو رخصت ہوگئے ہیں ان کے حواریوں کے ذریعہ یہ اپیل کرتے ہیں کہ ان میں سے ایک سامنے آئے اور کہہ دے کہ میرا باپ نہیں تھا اور ان کے حواری کہہ دیں کہ ہمارے فلاں مفسر کا کوئی باپ نہیں تھا پھر دیکھیں ہم مانتے ہیں یا نہیں اگر وہ نہیں کہنا چاہتے تو ہم ان میں سے کسی کو یہ کہہ کر دیکھ لیتے ہیں کہ اس لئے ہمارے رب کو جس طرح پہلے قدرت تھی بالکل اسی طرح اب بھی قدرت ہے اور جب تک دنیا کا نظام قائم ہے بلکہ آخرت میں بھی ساری قدرتوں کا وہی مالک ہے کیا ان کے خیال میں اس وقت وہ قادر تھا اور اب قادر نہیں رہا ؟ اگر ہے تو وہ ایسا کیوں تسلیم نہیں کرتے پھر ہم نے تو انہیں مفسرین سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے باپ کا ذکر سنا کہ وہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ انسان نہیں بلکہ فرشتہ تھا تو ہم نے ان کی زبان کو پکڑ لیا اور اتنا کھینچا کہ وہ ایک ہاتھ لمبی باہر آگئی اور ان سے مطالبہ کیا کہ اگر باپ تھا تو فرشتہ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ ہم اس کی ماں مریم کی سیرت سے واقف ہیں اس کی سیرت اللہ نے ہم کو بتائی ہے تم جھوٹ بولتے ہو کہ اس کا باپ انسان تھا کیونکہ وہ انسانوں ہی کی جنس سے تھی انہوں نے ہم پر اتنا الزام لگایا اور اپنی بات کو پی گئے اور زور زور سے پکارے کہ عیسیٰ کا باپ کوئی انسان نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور فقرہ کو پورانہ کر کے خیانت یہ کی کہ اب جبریل کا نام دل میں لینے لگے اور چونکہ ان کو یہ گر یاد تھا کہ جو بات دل میں کہی جائے از روئے فقہ وہ بھی اصل میں شامل ہوجاتی ہے اس سے انہوں نے فائدہ حاصل کیا اور ہم پر الزام لگانے لگے حالانکہ خدا گواہ ہے کہ ایسا کہنے میں پہل انہوں نے کی اور انہوں نے پہلے جبریل (علیہ السلام) کو باپ قرار دیا ہم اب ان کو کہتے ہیں کہ اس الزام سے باز آجاؤ فرشتے اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق ہیں جن کے ہاں توالد وتناسل حرام ہے اس لئے اس ظلم سے باز آجاؤ اللہ سے ڈرو یہ ایک اللہ کے نبی اور رسول کی توہین ہے اور کسی ایک نبی کی توہین بھی جائز نہیں اس سے ایمان کے جاتے رہنے کا قوی خطرہ ہے اور ایک انسان ‘ انسان ہی کا باپ یا انسان ہی کا بیٹا ہو سکتا ہے فرشتہ انسان کا یا انسان فرشتہ کا بیٹا یا باپ نہیں ہو سکتا پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہہ رہے ہیں اور جب تک زندہ ہیں کہتے رہیں گے اس لئے کہ ہمارے رب کا یہی فیصلہ ہے ۔ تفصیل کے لئے عروۃ الوثقی کی جلد دوم میں سورة آل عمران کے مختلف مقامات کا بغور مطالعہ کریں ۔
Top