Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 27
بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُكْرَمِیْنَ
بِمَا : اس بات کو غَفَرَ لِيْ : اس نے بخش دیا مجھے رَبِّيْ : میرا رب وَجَعَلَنِيْ : اور اس نے کیا مجھے مِنَ : سے الْمُكْرَمِيْنَ : نوازے ہوئے لوگ
(قیامت کے روز وہ کہے گا) کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کر دیا
دیکھو میرے رب نے مجھے معاف فرمایا اور اپنے عزت والے بندوں میں داخل کردیا : 27۔ سبحان اللہ ! کس اخلاق کا مالک تھا یہ اللہ تعالیٰ کا بندہ جن لوگوں نے اس کو ابھی ابھی قتل کیا اور اس کو بھری مجلس میں رسوا کرنے کے لئے ساری ہمت لگا دی اور وہ مرنے کے بعد بھی قوم کے درد سے اسی طرح لبریز ہے اور قوم کے لئے اپنے دل میں کوئی جذبہ انتقام نہیں رکھتا سچ ہے کہ جو ظرف کے اندر ڈالا گیا ہو وہی اس سے نکلتا ہے جب بھی نکلتا ہے ۔ آج ہمارے سیاسی اور مذہبی لیڈروں اور پیشواؤں میں سے کوئی ایسا میسر آسکتا ہے جس کے اندر قوم کا ایک ذرہ بھی درد پایا جاتا ہو لیکن ہمارے مقابلے میں جتنی اقوام اس صفحہ ہستی میں موجود ہیں ان میں سے ایک ایک کا تجزیہ کرکے دیکھو گے تو تم کو معلوم ہوگا کہ ان کی حالت بھی کبھی یہی تھی جو آج ہماری ہے لیکن تاہم ان کی یہ حالت نزول قرآن کریم سے پہلے کی ہے لیکن نزول قرآن کے بعد انہوں نے اس وقت قرآن کریم اور صاحب قرآن کی دل کھول کر مخالفت کی اور قرآن کریم کی طرف دھیان نہ دیا اور جب وہ قوم جو اس وقت موجود تھی اس دنیا سے رخصت ہوگئی اور ان کی نسل نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا تو انہوں نے اپنی حرکتوں کا جائزہ لیا تو وہی کچھ پایا جو قرآن کریم نے بیان کیا تھا ‘ ان کی قومی حمیت نے ان کو اسلام قبول کرنے سے تو باز رکھا لیکن اپنی کمزوریوں کو ایک حد تک دور کرنے کی سرتوڑ کوشش کی اور ان کے لیڈروں نے بغیر یہ بتائے کہ یہ تعلیمات قرآن کی ہیں انہی خطوط پر قوم کی تربیت کی کوشش کی اور آج وہ بہت حد تک اپنی ان کمزوریوں کو رفع کرچکے ۔ ان کے اس وقت کے لیڈروں نے اس کے سوا اپنی اخلاقی کمزوریوں کی طرف توجہ نہ دی تو آج وہ اخلاقی لحاظ سے ہم کو بہت پیچھے نظر آتے ہیں اگرچہ انہوں نے اپنی قومی کمزوریوں کو کافی حد تک درست کیا ہے ۔ بہرحال وہ اللہ کا بندہ جنت میں پہنچ کر بھی اپنی قوم کے نام پر جو پیغام پہنچا رہا ہے وہ یہی ہے کہ میری قوم کے لوگو ! میرے رب نے میری لغزشوں سے درگزر فرماتے ہوئے اپنی خاص رحمت سے مجھے بہت عزت دی ہے اور میری بہت ہی قدر کی گئی کہ مجھے ان لوگوں میں رکھا گیا جو بہت ہی عزت و تکریم والے ہیں خواہ وہ نیک بندے ہیں جو اس سے پہلے وہاں پہنچ گئے ہیں یا وہ مکرم بندے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں لیکن پہلا احتمال ہی زیادہ صحیح اور زیادہ درست معلوم ہوتا ہے اس طرح اس اللہ کے بندے نے جیتے جی بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور مرنے کے بعد بھی اس کا جذبہ خیر خواہی ماند نہ ہوا بلکہ پہلے سے سوایا ہی ہوا ہے اور یہ آیات اس بات پر بھی دال ہیں کہ انسان مرنے کے بعد نیست ونابود نہیں ہونا بلکہ اس کی روح ایک دوسرے قالب کے ساتھ جس کو مثالی جسم سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے وابستہ ہوجاتی ہے اور چونکہ ثواب و عذاب کا تعلق روح کے ساتھ ہے اس لیے حقیقت یہی ہے کہ جس کو ہم موت کہتے ہیں وہ اس جسم کے ساتھ تعلق ہے اور اس جسم سے روح کے الحاق کا خاتمہ ہی موت ہے اور آسائش واذیت جو کچھ ہے اس کا تعلق صرف اور صرف روح سے ہے اگر روح نہ ہو تو جسم کے لئے کوئی آسائش واذیت نہیں ہے ۔
Top