Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 47
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ۙ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ اَطْعَمَهٗۤ١ۖۗ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے اَنْفِقُوْا : خرچ کرو تم مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ ۙ : اللہ قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ان لوگوں سے جو ایمان لائے (مومن) اَنُطْعِمُ : کیا ہم کھلائیں مَنْ : (اس کو) جسے لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ : اگر اللہ چاہتا اَطْعَمَهٗٓ ڰ : اسے کھانے کو دیتا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر۔ صرف فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) کچھ خرچ کرو تو کافر مومنوں سے (مخاطب ہو کر) کہتے ہیں کہ کیا ہم ان کو کھانا کھلائیں جن کو اگر اللہ چاہتا تو کھلا دیتا ، تم لوگ تو کھلی گمراہی میں مبتلاہو
ان کو جب راہ الہی میں خرچ کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں : 47۔ سرمایہ داری اور غربت ومفلسی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ آج تک جتنے سرمایہ داروں کا ذکر قرآن وحدیث میں کیا گیا چند معدودے انسانوں کے سوا اکثریت نے غربت ومفلسی کو کبھی برداشت نہیں کیا اور نہ ہی ان کی انسانیت کا احترام کرنے کی کوشش کی بلکہ ہمیشہ غریبوں اور مفلسوں کو مزید غریب اور مفلس بنانے کا کام کیا ۔ ان کے لیڈروں نے ہمیشہ یہی اعلان کیا کہ ہم غربت ومفلسی کو ختم کرنے کے لیے آئے ہیں تو انہوں نے نتیجۃ غریبوں اور مفلسوں کو ختم کرنے کی کوشش کی تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری جب کوئی غریب ہی نہ رہے گا تو ان کے خیال میں اس طرح غربت اور مفلسی ختم ہوجائے گی لیکن اس سلسلہ میں آج تک جتنی کوششیں ہوئیں ناکام ہی ہوئیں ، ان کو جب بھی کہا گیا کہ اللہ کی راہ میں اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے کچھ خرچ کرو تاکہ مفلسوں اور ناداروں کی مفلسی اور ناداری ختم ہوجائے تو انہوں نے اس دعوت کا ہمیشہ مذاق اڑایا ہے کہ تم ان بھک منگوں اور ناداروں کے لیے ہم سے رزق کیوں مانگتے ہو اگر اللہ ان کو دینا چاہتا تو خود ہی دے دیتا اور یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ ہی ان کو نہ دینا چاہتا ہو تو تم اور ہم کون ہیں رزق عطا کرنے والے ۔ اس طرح مذاق کرکے ان کو ٹال دیا اور زور دار الفاظ سے انہوں نے کہا کہ اگر اللہ ان کو دینا یا کھلانا چاہتا تو کیا وہ نہیں دے سکتا تھا اور نہیں کھلا سکتا تھا کہ اس کی جگہ ہم ان کو دیں ‘ اگر اللہ ہی چاہتا تو ان کو یوں محتاج نہ کرتا اور جب اس نے ان کو بھوکا رکھنا چاہا تو اس کی مرضی کے خلاف آخر ہم کریں گے تو کیوں ؟ عجیب ہو تم کہ ایک طرف تو اللہ کے احکام بجا لانے کی دعوت دیتے ہو اور دوسری طرف اس کے فعل کو ناپسند کرتے ہو اس کے خلاف کر رہے ہو ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم بہک گئے ہو اور تمہاری عقل میں فتور آگیا ہے ۔ ذرا غور کرو کہ سرمایہ دارانہ ذہنیت کی کتنی صحیح عکاسی کی گئی ہے پہلے بھی اس کا یہی حال تھا اور آج بھی یہی حال ہے اگر فرق ہے تو وہ صرف اتنا ہے کہ پہلے چند لوگ اس زہریلی ذہنیت کے مالک ہوتے تھے اور آج اس مادی ترقی کے دور میں ان کی تعداد بہت ہی بڑھ گئی ہے ‘ پہلے ان کی نظروں میں اپنی تعداد کے کم ہونے کی وجہ سے ذرا جھکاؤ آجاتا تھا لیکن اب ان میں احسان ومروت کی کوئی جھلک ہی باقی نظر نہیں آتی ‘ کیوں ؟ اس لیے کہ اب ان کی بھی اقلیت نہیں رہی اور نہایت ہی ڈھیٹ ہوچکے ہیں اور یوں بھی کہا جاتا ہے کہ حیا آنکھوں میں ہوتی ہے اور جب انسان کسی طرف سے آنکھیں بند کرلیتا ہے تو حیا خود بخود عنقا ہوجاتی ہے ۔ کتنی سیدھی بات ان سے کی گئی کہ اللہ کے دیئے ہوئے مال سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تاکہ اس مال کے خرچ کرنے سے تمہاری آخرت سنور جائے اور جس طرح تم کو اس دنیا میں دیا گیا اسی طرح تم کو آخرت کی زندگی میں دیا جائے تاکہ تمہارا بھلا ہو گویا رب کریم نے یہ بخشش تم پر تمہارے ہی فائدہ کے لیے کی لیکن تم نے اس کا کتنا الٹا جواب دیا کہ اس کی بخشش سے کچھ فائدہ ہی حاصل نہ کرسکے گزشتہ لوگوں کی داستانوں کو نگاہ میں رکھو اور خود ہی فیصلہ کرلو کہ یہ جواب تم نے کس دل سے دیا کیا ایسا دل ایک مسلمان کا دل ہو سکتا ہے ؟ لیکن جب دولت واقتدار کا نشہ انسان کو چڑھ جاتا ہے تو اس کو کچھ نہیں سوجھتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یہی حالت ان کی ہے کہ وہ الٹا ان لوگوں کو جو ان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی نصیحت کرتے ہیں کہہ رہے ہیں کہ تم ہم کو اس طرح کی نصیحت کر کے اپنی گمراہی کا اعلان کر رہے ہو اس لئے ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ تم بہک گئے ہو اور تمہاری عقل میں فتور آگیا ہے ۔ اس طرح کے اعتراضات اور انہی سیدھی باتوں کو اس دور کے مترفین بھی اکثر کرتے ہی رہتے ہیں اس لیے اس کی زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ۔
Top