Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 80
اِ۟لَّذِیْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ
الَّذِيْ : جس نے جَعَلَ : پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الشَّجَرِ : درخت الْاَخْضَرِ : سبز نَارًا : آگ فَاِذَآ : پس اب اَنْتُمْ : تم مِّنْهُ : اس سے تُوْقِدُوْنَ : سلگاتے ہو
اور (دیکھو) وہ کارفرمائے قدرت جس نے سرسبز درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کردی اور اب تم اس سے آگ جلاتے ہو
اللہ وہ ذات ہے جس نے سبز درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کردی : 80۔ گزشتہ آیتوں میں بیان کیا گیا مضمون بھی کوئی مشکل نہیں تھا بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتا تھا لیکن تاہم ان میں کچھ ایسے اسرار و رموز تھے کہ شاید تم میں ان کے سمجھنے کی اہلیت نہ ہو جن کے باعث کروڑوں سال گزرنے کے باوجود اس نظام عالم میں کہنگی کے آثار کہیں نظر نہیں آتے ‘ ابھی تو جوانی ہی کا عالم نظر آتا ہے اور معلوم نہیں کہ اس کا بڑھاپا کب ہوگا اور اگر یہ دھرتی بوڑھی ہوگئی ہو سکتا ہے کہ آسمان نے ابھی مزید شادی رچانا ہو اس لیے ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن یہ تو ایک بالکل موٹی سی بات ہے کہ پانی اور آگ میں طبعی تضاد ہے آگ کا بس چلے تو پانی کو بخارات بنا کر اڑا دیتی ہے اور اگر اس دھکتی ہوئی آگ پر ایک چلو پانی ڈال دیا جائے تو وہ بجھ جاتی ہے ۔ اس طبعی تضاد کے باوجود اس نے سبز درختوں میں آگ اور پانی کو یکجا کردیا ہے یہی گیلی لکڑی جب کاٹ کر اس سے آگ جلائی جاتی ہے تو اس سے آگ کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں ، بیان کیا جاتا ہے کہ عرب میں دو درخت ایسے پیدا ہوتے ہیں جن میں سے ایک کو ” المرخ “ اور دوسرے کو ” الغفار “ کہتے ہیں اگر ان کی سرسبز و شاداب ٹہنیاں کاٹی جائیں جن سے رطوبت بہہ رہی ہو اور پھر ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رگڑا جائے تو اس سے آگ بھڑک اٹھتی ہے جس ذات نے اس طرح کا نظام پیدا کردیا ہے کہ ایک بات ایک جگہ محال نظر آتی ہے اور دوسری جگہ وہ بالکل محال اور عام سی بات معلوم ہوتی ہے تو اس کی قدرتوں کا آخر کون اندازہ کرسکتا ہے ، زندی میں ہر روز ایسی باتوں سے تم کو سابقہ پڑتا ہے اور پھر بھی تم نہ سمجھو تو ایسے نادانوں کو اللہ ہی سمجھا سکتا ہے ، اس کی قدرت کے اندازے ہر لحاظ سے فٹ اور قابل تحسین ہیں ۔ وللہ الحمد۔
Top