Urwatul-Wusqaa - As-Saaffaat : 114
وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق مَنَنَّا : ہم نے احسان کیا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ : موسیٰ پر اور ہارون پر
اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر (بھی) احسان کیا
(پچھلی آیت کی بقیہ تفسیر) بات بالکل واضح ہے کہ یہاں کوئی بچے کی طلب نہیں کی اور یہ طلب اس لیے نہیں کی کہ الحمد للہ اب اولاد ان کے پاس موجود ہے لیکن جو کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس کی خوشخبری خود بخود ان کی سنائی جارہ ہے اور ظاہر ہے کہ اب ابراہیم (علیہ السلام) بھی پہلے زیادہ بوڑھے ہوچکے ہیں اور آج آپ کو اولاد کی خوشخبری سنائی جا رہی ہے اس لحاظ سے آپ کو تعجب ہو رہا ہے کہ اس بوڑھاپے میں اولاد جب کہ ہم دونوں ہی بوڑھے ہوچکے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جب چاہے اپنے قانون کے مطابق خوشخبری سنا دے اس تعجب سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کے پاس اس سے پہلے کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے جناب استاذی حافظ عنایت اللہ صاحب مرحوم ومغفور کا یہ استدلال صحیح اور درست نہیں ہے ، اس طرح آپ کا دوسرا استدلال کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسمعیل (علیہ السلام) کو ” یبنی “ چھوٹا بیٹا کہہ کر پکارا ہے کوئی وزن نہیں رکھتا اور تیسرا استدلال کہ اسحاق سحق سے ہے اگر اس کو استدلال کہا جاسکتا ہے تو اس کا تعلق عورت سے ہے نہ کہ مرد سے اور سارہ ؓ کے ہاں بلاشبہ یہ پہلا ہی فرزند ہے اور اس سے قبل کوئی فرزند اس کے موجود نہیں تھا ۔ تورات کے بیان کے مطابق ابراہیم (علیہ السلام) سو سال کے ہوئے تھے کہ ان کو اس بیٹے ” غلام علیم “ کی بشارت سنائی گئی جو سارہ کے بطن سے تھے چناچہ تحریر ہے کہ ” اور خدا نے ابراہام سے کہا کہ تیری جورو ساری جو ہے اس کو ساری نہ پکارنا اس کا نام سارہ ہوگا اور میں اس میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یقینا میں اسے برکت دوں گا کہ قومیں اس کی نسل سے ہوں گی اور عالم کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے ، تب ابراہام سرنگوں ہوا اور ہنس کر دل میں کہنے لگا کہ کیا سو سال کے بڈھے سے کوئی بچہ ہوگا اور کیا سارہ کے جو نوے برس کی ہے اولاد ہوگی ؟ اور ابراہام نے خدا سے کہا کہ کاش اسمعیل ہی تیرے حضور جیتا رہے ۔ تب خدان نے فرمایا کہ بیشک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا تو اس کا نام اضحاق رکھنا اور میں اس سے اور پھر اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ابدی عہد ہے باندھوں گا ۔ “ (پیدائش 17 : 15 تا 20) قرآن کریم میں سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش اور خوشخبری کا ذکر سورة ہود ‘ سورة الحجر اور سورة الذاریات میں کیا گیا ہے ۔ آپ کا قرآنی نام بلاشبہ سیدنا اسحاق (علیہ السلام) ہے لیکن تورات میں آپ کو اضحاق تحریر کیا ہے جو غالبا اضحاک ہوگا اس لیے بعض بزرگوں نے لکھا ہے کہ خدا کے فرشتوں نے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سوبرس کی عمر میں اور سیدہ سارہ کو نوے برس کی عمر میں بیٹا ہونے کی بشارت دی تو وہ انہوں نے اچنبھا سمجھا تھا اور دونوں کو ہنسی آگئی تھی اس لیے اس کا یہ نام تجویز ہوا یا اس لیے یہ نام رکھا گیا کہ ان کی پیدائش سیدہ سارہ کی مسرت و شادمانی کا باعث ہوئی اس لیے یہ یضحک سے یضحق اور اس سے اضحاق ہوگیا لیکن اس کی حیثیت وہی ہے جو سیدی حافظ عنایت اللہ (رح) نے اسحاق سے استدلال کیا ہے ۔ تورات نے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) اور اس گھر کے سارے مردوں کے ختنہ کا ذکر کیا ہے کہ ایک ہی روز ہوا جب کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر اسی برس کی تھی اس طرح سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کے ختنہ کے متعلق تحریر کیا کہ اسحاق (علیہ السلام) آٹھ دن کے ہوئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انکا ختنہ کروا دیا ۔ (پیدائش 21 : 4) سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی شادی اور اولاد در اولاد : قرآن کریم سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی شادی یا شادیوں کا ذکر نہیں کیا اگرچہ آپ کی اولاد اور اولاد کی اولاد بھی ہے بعض کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ آپ کے ہاں نبوت کا سلسلہ مسلسل چلتا رہا اور بہت سے نبی ورسول اس سلسلہ میں پیدا ہوئے جن میں سے بعض کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہوا ہے ، تورات میں آپ کی شادی کے بارے میں ایک طویل قصہ مذکور ہے ۔ جس کا ماحصل کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے کانہ زاد الیعزر دمشقی سے فرمایا کہ میں یہ طے کرچکا ہوں کہ اسحاق (علیہ السلام) کی شادی فلسطین کے ان کنعانی خاندانوں میں ہرگز نہ کروں گا بلکہ میری یہ خواہش ہے کہ اپنے خاندان اور باپ دادا کی نسل میں اس کا رشتہ کروں اس لیے تو سازوسامان لے کر جا اور فدان آرام میں میرے بھتیجے بتوئیل بن ناحور کو یہ پیغام دے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اسحاق سے کردے اگر وہ راضی ہوجائے تو اس سے یہ بیھ کہہ دینا کہ میں اسحاق کو اپنے پاس سے جدا کرنا نہیں چاہتا لہذا لڑکی کو تیرے ساتھ رخصت کر دے ۔ الیعزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق فورا آرام کو روانہ ہوگیا جب آبادی کے قریب پہنچا تو اپنے اونٹ کو بٹھایا تاکہ حالات معلوم کرے الیعزر نے جس جگہ اونٹ بٹھایا تھا اس کے قریب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی بتوئیل کا خاندان آباد تھا ابھی یہ اس میں مشغول تھا کہ سامنے اسے ایک حسین لڑکی نظر آئی جو پانی کا گھڑابھر کر مکان کو لیے جا رہی تھی الیعزر نے اس سے پانی مانگا لڑکی نے اس کو بھی پانی پلایا اور اس کے اونٹ کو بھی اور پھر حال دریافت کیا الیعزر نے بتویل کا پتہ دریافت کیا لڑکی نے کہا کہ وہ میرے باپ ہیں اور الیعزر کو مہمان بنا کرلے گئے مکان پر پہنچ کر اپنے بھائی لابان کو اطلاع دی لابان نے الیعزر کی بیحد مدارات کی اور آمد کیوجہ دریافت کی الیعزر نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پیغام سنایا لابان کو اس پیغام سے بیحد خوشی ہوئی اور اس نے بہت سازوسامان دے کر اپنی بہن رفقہ کو الیعزر کے ہمراہ رخصت کردیا اور اس طرح رفقہ اسحاق (علیہ السلام) کی بیوی ہوئی اور اس بیوی سے سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کے توام دو لڑکے الترتیب عیسو اور یعقوب پیدا ہوئے یہ بیان تورات میں پیدائش باب 64 کا ہے اور اس میں بہت رطب ویابس بیان ہوا ہے اس لیے ہم اس کو حذف کرتے ہوئے صرف یہ بات عرض کریں گے اس طرح قرآن کریم کی یہ پیش گوئی کہ ” اے ابراہیم ہم نے آپ کو اسحاق جیسا فرزند عطا کیا اور اسحاق کے پیچھے یعقوب بھی “ پوری ہوئی اور یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں میں سے سیدنا یوسف (علیہ السلام) کی سرگزشت قرآن کریم نے بہت تفصیل کے ساتھ بیان کی جو سورة یوسف میں بطور قصہ اور وہ بھی ایسا جس میں رہتی دنیا کے لوگوں کے بہت نشانیاں رکھ دی گئی ہیں ، بشرطیکہ ان نشانیوں سے کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہئے ، سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں عیسو اور یعقوب کا ذکر تورات میں بہت تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے لیکن اس قصہ میں رطب ویابس ہے اس لیے ہم اس کو بھی نظر انداز کرتے ہیں ۔ سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی وفات کہاں اور کیسے ہوئے کچھ معلوم نہیں کیونکہ اس کا ذکر تورات نے بھی نہیں کیا اور تاریخ انبیاء بھی اس جگہ خاموش ہے اور غیر متعلق باتوں کو بیان کرکے وقت ضائع کرنے کا ماحصل کیا ہے اندریں صورت سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت کو اس جگہ ختم کرتے ہیں ۔ اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید ۔ بلاشبہ ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر بھی احسان کیا : 114۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے دو بیٹوں کا مختصر ذکر کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) دونوں بھائیوں کے واقعات کی طرف اشارات کیے جا رہے ہیں تاکہ ان کی پوری داستان بھی نظروں کے سامنے آجائے اور قدرت الہی کی اسکیم سے واقفیت حاصل ہوجائے کہ وہ ایک واقعہ کو ترتیب دینے کے لیے کیا کرتی ہے ؟ قوم بنی اسرائیل پر مظالم ڈھائے جا رہے تھے اور فرعون ان کے بچوں کو قتل کرتا اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رکھ کر ان سے اپنے گھروں کے کام کاج کروانے کے ساتھ ساتھ ان کی عصمت پر بھی ڈاکہ زنی کر رہا تھا ، قدرت الہی نے چاہا کہ قوم بنی اسرائیل کو جو اس وقت پوری طرح فرعون کے مظالم کا شکار تھے ان کو اٹھا کھڑے کرے اور فرعون کو اس کے مظالم کا بدلہ دنیا مین بھی چکھائے ، اس اسکیم کے تحت قدرت خداوندی کی کرشمہ سازیوں کو دیکھو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جو بنی اسرائیل ہی کی قوم میں پیدا ہوئے کس ترتیب و ترکیب کے ساتھ فرعون کے محلات میں لا کر فرعون ہی سے ان کی پرورش شروع کرا دی اس کو اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ (ان کیدی متین) کہ بلاشبہ میری تدبیر سلجھی ہوئی ہے کہ الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) جب جوان ہوگئے اور ان کے جذبہ کو قومی جذبہ میں کسی طرح تبدیل کرنا شروع کیا اور جب وہ مکمل طور پر قومی جذبہ سے سرشار ہوگئے اور اپنے آدمی کی حمایت میں حکومت کے آدمی کو اس کی زیادتی کے باعث ایک مکہ رسید کردیا اور اس سے اس کا کام تمام ہوگیا تو یہ دیکھ کر کہ اب حکومت کو بھی احساس پیدا ہوگیا ہے کہ موسیٰ کا چونکہ تعلق قوم بنی اسرائیل سے ہے اور اس میں اپنی قوم کا جذبہ کام کرنے لگا ہے انہوں نے چاہا کہ اس کا کام ختم کیا جائے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو جب ان کے عزم کے متعلق علم ہوا تو وہ مصر سے نکل کر چلتے چلاتے اور پھرتے پھراتے مدین پہنچ گئے ، آپ کا مدین کی طرف نکلنا آوارہ نہیں تھا بلکہ اس کے خاص وجوہ تھے وہ یہ کہ مدین کا علاقہ بھی موسیٰ (علیہ السلام) ہی کے خاندان کی شاخ سے آباد تھا کہ موسیٰ اسحاق (علیہ السلام) کی نسل سے تھے اور مدین میں ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد بنو قطورا آباد تھے ، مدین میں آپ نے رہ کر شعیب کی مدد کی اور ان کی بیٹی سے شادی کی اور آٹھ یا دس سال کے بعد دوبارہ مصر کی طرف آرہے تھے کہ راستہ میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے آپ کو منتخب کرلیا اور پھر اس کے بعد آپ کی معاونت کے لیے ہارون (علیہ السلام) کو بھی آپ کا شریک کار بنا دیا اور اس طرح دونوں بھائی فرعون کے پاس پیغام الہی لے کر گئے اب فرعون کو دعوت پیش کی اور ایک لمبے عرصہ تک ان کی تفہیم کراتے رہے ‘ طرح طرح کے دلائل اس کے سامنے رکھے لیکن لاحاصل انجام کار بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر نکلے اور بنی اسرائیل بحر قلزم سے پار ہوگئے اور فرعون کو اور اس کے پورے لشکر کو اللہ تعالیٰ نے قلزم ہی میں غرق کردیا اور اقتدار کی باگ ڈور بنی اسرائیل کے سپرد کردی گئی یہی وہ احسان تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) پر کیا گیا جس کا ذکر اس جگہ کیا گیا ہے ۔
Top