Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 15
فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
فَاعْبُدُوْا : پس تم پرستش کرو مَا شِئْتُمْ : جس کی تم چاہو مِّنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوائے قُلْ : فرمادیں اِنَّ : بیشک الْخٰسِرِيْنَ : گھاٹا پانے والے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : گھاٹے میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو وَاَهْلِيْهِمْ : اور اپنے گھر والے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : روز قیامت اَلَا : خوب یاد رکھو ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ الْخُسْرَانُ : گھاٹا الْمُبِيْنُ : صریح
(اے کافرو ! ) تم اس کے سوا جس کی چاہو پرستش کرو ، آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ سب سے بڑھ کر خسارہ میں وہی رہے جنہوں نے اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے دن خسارہ میں ڈالا ، آگاہ رہو یہ خسارہ ہی کھلا خسارہ ہے
میرا کام تو تم کو منع کرنا تھا وہ میں نے کردیا اب تمہاری مرضی کہ جو چاہو کرو 15۔ فطرتِ انسانی ہے کہ اگر وہ کسی آدمی کو کسی بات سے روکتا ہے اور جب وہ اس سے باز نہیں آتا تو انجام کار وہ کہہ دیتا ہے کہ جو تو کرتا ہے کرتا رہ اس انداز میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اے کافرو ! اور مشرکو ! اللہ کے سوا تم جس کی عبادت و بندگی چاہتے ہو کرتے رہو میرا اعلان تو یہ ہے کہ قیامت کے روز گھاٹے میں وہی لوگ رہیں گے جو خود بھی گھاٹے میں ہوں گے اور ان کے اہل و عیال بھی اور دوست و احباب بھی جو ان کو اس معاملہ میں چاہنے والے ہوں گے اور بلاشبہ ان کا گھاٹا بھی ایسا ہوگھاٹا ہوگا جو نہایت کھلا اور واضح ہوگا۔ کھلا خسارہ وہی ہوگا جس کو عرف عام میں دیوالیہ کہا جاتا ہے اور دیوالیہ یہ ہے کہ آدمی جو سرمایہ کسی کاروبار میں لگائے وہ اس طرح ڈوبے کہ اس کے اصل سرمایہ کا بھی کچھ پتہ نہ چلے اور لوگوں کے مطالبات بھی اس کے سر ہوں جن کو وہ کسی صورت پورا نہ کرسکتا ہو گویا کمائی تو کمائی رہی اس کا اصل زر بھی گم ہو کر رہ جائے۔ اس چیز کو قرآن ِ کریم نے (الخسران المبین) کہا ہے۔ انسان کی دنیوی زندگی میں جو کچھ بھی اس کو دیا گیا ہے یعنی عمر ، عقل ، جسم کی قوتیں اور قابلیتیں ، ذرائع اور مواقع سب کا مجموعہ ہی وہ سرمایہ ہے جس وہ حیات دنیوی کے کاروبار میں لگاتا ہے۔ یہ سارا سرمایہ اگر کسی شخص نے اس مفروضے پر لگا دیا کہ اللہ کی ذات مطلق ہے ہی نہیں یا یہ کہ اس کائنات میں بہت سے رب ہیں جن کا میں بندہ ہوں اور مجھے کسی کے سامنے حساب کے لیے پیش نہیں ہونا ہے یا یہ کہ حساب لینے والا اللہ ہے لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو اس حساب سے مجھے چھڑا لیں گے اور میرا حساب نہیں ہونے دیں گے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے ایسا سمجھ کر ایسا عقیدہ رکھ کر سب کچھ ڈبو دیا اس طرح زندگی کا نفع تو نفع رہا گویا اس نے زندگی کا اصل زر بھی ضائع کردیا کیونکہ اس کا یہ مفروضہ غلط تھا اور اس غلط مفروضے پر جتنے کام بھی اس نے کیے ان سب میں وہ اپنے نفس سے لے کر دنیا کے بہت سے انسانوں اور آئندہ آنے والی نسلوں اور اللہ کی دوسری بہت سی مخلوق پر عمر بھر ظلم کرتا رہا اس لیے قیامت کے روز اس پر بیشمار مطالبے چرھے ہوئے ہوں گے لیکن اس کے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں ہوگا جس سے وہ ان مطالبات کا ازالہ کرے اس طرح وہ فقط خود ہی نہ ڈوبا بلکہ اپنے بچوں کو ، بیوی کو اور بہت سے دوست یاروں کو بھی لے ڈوبا جو اس پر انحصار کرتے تھے۔
Top