Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 17
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اجْتَنَبُوا : بچتے رہے الطَّاغُوْتَ : سرکش (شیطان) اَنْ : کہ يَّعْبُدُوْهَا : اس کی پرستش کریں وَاَنَابُوْٓا : اور انہوں نے رجوع کیا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف لَهُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰى ۚ : خوشخبری فَبَشِّرْ : سو خوشخبری دیں عِبَادِ : میرے بندوں
اور جو لوگ بتوں کی پرستش سے بچتے رہے اور اللہ کی طرف رجوع رہے ان کے لیے بشارت ہے پس آپ ﷺ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے
غیر اللہ کی پرستش سے بچنے والوں کے لیے جنت کی بشارت 17۔ طاغوت کیا ہے ؟ طاغوت اس نظریہ کو کہا گیا ہے جس نظریہ کے تحت غیر اللہ کی عبادت کفر نہ رہے اور غیر اللہ میں ہر وہ چیز آجاتی ہے جو اللہ نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ صرف اور صرف ایک ذات واحد کا نام ہے لہذا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت بھی طاغوت ہی کہلاتی ہے خواہ وہ کوئی ہو۔ اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے انبیاء ورسل اور اولیاء کرام کی بھی لوگوں نے عبادت کی ہے اور ان کو بھی رب اور الٰہ قرار دیا ہے کہ ان کی عبادت کو بھی طاغوت سے تعبیر کیا جائے گا ؟ تو یاد رکھنا چاہیے کہ بلاشبہ ان سب کی یا ان میں سے کسی کی عبادت بھی طاغوت ہی کی عبادت ہوگی کیونکہ جس نظریہ کے تحت ان کی عبادت کی گئی وہ نظریہ طاغوت کا نظریہ ہے نہ کہ ان انبیاء ورسل اور اولیائے کرام کا۔ کسی نبی ورسول اور ولی اللہ نے اپنی عبادت کرنے کا نہیٰں فرمایا اس پر پوری بحث پیچھے عروۃ الوثقی ، جلدسوم میں سورة المائدہ کی آیت 116 ، 117 میں گزر چکی ہے۔ بلاشبہ ان چیزوں کو بھی طاغوت کہا گیا ہے جن کی لوگوں نے پرستش کی جیسے بتوں کو ، اس لیے دھوکا باز بار بار یہ شور مچاتے ہیں کہ طاغوت تو بتوں کو کہتے ہیں ان وہابیوں نے اس کا اطلاق نبیوں ، ولیوں اور بزرگوں پر کر کے لوگوں کو دھوکا دیا ہے حالانکہ دھوکہ وہ خود دینا چاہتے ہیں اس لیے کہ یہ بت جن کی مشرکین پرستش کرتے تھے کوئی عام بت نہ تھے بلکہ ان لوگوں ہی کے بت تھے جن کو وہ اپنے نظریہ کے مطابق نیل لوگ سمجھتے تھے خواہ وہ نبی ورسول تھے یا اولیاء کرام تو ان لوگوں نے نہایت عیاری سے ان بتوں کی جگہ قبروں کو دے دی اور قبروں میں عمارتیں اور روضے تعمیر کر کے ان کی پرستش شروع کردی اور مکہ کے مشرک جو عقیدت صاحب بت سے رکھتے تھے انہوں نے صاحب قبر سے کی اور اسطرح اس سوانگ کو اس سوانگ میں بدل کر مطمئن ہوگئے اور پھر لوگوں کو بھی مطمئن کرنے کی کوشش میں دن رات مصروف ہیں مکہ کے مشرک جو چڑھاوے بتوں کے نام سے کھاتے تھے انہوں نے قبروں کے نام سے کھانے شروع کردیئے اور سمجھے کہ ہم اسلام کا کام کر رہے ہیں حالانکہ شرک کا سوانگ بدل دینے سے شرک کے شرک ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا لہٰذا کوئی شخص رام چندر کے بت کی پرستش کرے یا علی ہجویری کی قبر کی دونوں میں سوائے نام کی کوئی فرق نہیں اور عد اللہ دونوں ایک ہی جیسے مشرک قرار پائیں گے فرق صرف یہ ہے کہ رامچندر ہندوئوں کے ہاں بزرگ تھے اور علی ہجویری مسلمان کہلانے والوں کے ہاں۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ نہ تو رام چندر نے ہندوئوں کو یہ کہا تھا کہ یہ بت بنا کر اس کی پرستش کرنا اور نہ ہی علیہ ہجویری نے مسلمانوں کو یہ کہا تھا کہ میری قبر کی پرستش شروع کردینا اور چڑھاو وں کا مرکز قرار دیے لینا بلاشبہ وہ ہندئوں کی اختراع تھی اور ہر مسلمان کہلانے والوں کو اندریں صورت کسی نبی یا رسول یا ولی و بزرگ کی قبر کی پرستش کرنا اور اس پر چڑھاوے چڑھانا بھی ایسا ہی شرک ہے جیسے کہ لات ومنات اور عزیٰ کی پرستش کا اس لحاظ سے یہ نظریہ طاغوت کا نظریہ کہلائے گا۔ ہم اپنے بھائیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ٹھنڈے دل سے اس نظریہ پر غور کریں اور اس طرح جن جن کی وہ پرستش کرتے ہیں ان کی پرستش سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کی طرف رجوع کریں کہ زیر نظر آیت میں اس بات کا حکم دیا گیا ہے تاکہ ان کے لیے خوشخبری ہو ہم یقینا ان کو اللہ کے بندے سمجھ کر ان کو یہ خوشخبری دیتے ہیں اور وہ اس خوشخبری کے عوض ہمیں گالیاں نہ دیں اس لیے ہم کو ہابی کہہ دینے سے ان کے شرک میں کچھ تخفیف نہیں ہوگی اور شرک ایسی بری شے ہے جس سے انسان کی عاقبت بھی خراب ہوجاتی ہے اور دنیا بھی یقینا نہیں سنورتی۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کو بھی بلاشبہ شرک کے نام سے نفرت ہے اور ہم جب ان کو کہتے ہیں کہ تم شرک کر رہے ہو تو وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ مشرک ہم نہیں کہ ہم سے نفرت کریں بلکہ شرک ان کا وہ نظریہ ہے جس کے تحت وہ شرک کے مرتکب ہوتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ ہر کسی کی پرستش کرنا محبت نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہے اور جو محبت جس سے کرنے کا حق ہو وہی اس سے کرنا صحیح اور درست ہے ورنہ محبت تو محبت ہی ہے خواہ وہ ماں سے ہو یا بیوی سے لیکن دونوں محبتوں میں جو فرق ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اس لیے ہم یقین سے کہتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں سے بھی پوشیدہ نہیں کیونکہ ان کے ہاں بھی یہ دونوں رشتے موجود ہیں محبت کا لفظ تو ایک ہی ہے لیکن جو محبت ماں سے ہے وہ بیوی سے حرام ہے اور جو محبت بیوی سے ہے وہ ماں سے حرام ہے۔ فافم فتدبر۔
Top