Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 56
اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَۙ
اَنْ تَقُوْلَ : کہ کہے نَفْسٌ : کوئی شخص يّٰحَسْرَتٰى : ہائے افسوس عَلٰي : اس پر مَا فَرَّطْتُّ : جو میں نے کوتاہی کی فِيْ : میں جَنْۢبِ اللّٰهِ : اللہ کا حق وَاِنْ كُنْتُ : اور یہ کہ میں لَمِنَ : البتہ۔ سے السّٰخِرِيْنَ : ہنسی اڑانے والے
(باخبر کیوں کیا جاتا ہے ؟ اس لیے کہ) کہیں کوئی متنفس یہ (نہ) کہنے لگے کہ افسوس ہے اس کوتاہی پر جو میں اللہ کے بارے میں کرتا رہا اور میں تو صرف ہنسی ہی اڑاتا رہا (اور میں کتنا ناسمجھ نکلا ؟ )
ڈرتے رہو کہ تم کو اپنے کیے پر افسوس نہ ہونے لگے کیونکہ جو بیجو گے وہی کاٹو گے 56۔ ایسے کام کرنے سے باز رہو جن کے کرنے کے بعد تم کو پچھتاوا ہونے لگے کی کاش ہم نے ایسا نہ کیا ہوتا اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے احکام الہٰی کی پروا نہ کی اور منیہات سے باز نہ رہے اور ان کاموں کے نتیجہ کے وقت پچھتائیں گے لیکن اس وقت پتنگ کی ڈور ٹوٹ چکی ہوگی اور ہوا کے جھونکے اس کے لیے اڑے ہوں گے اور اس پر میاں محمد کا یہ مصرعہ صادق آئے گا کہ ع ” ہتھوں چھٹی ڈور محمد گڈی وا ڑائی “ وقت گزر جانے کے بعد ہاتھ ملنے سے آخر فائدہ ؟ ہاے افسوس ! میری اس تقصیر پر جو میں اللہ رب کریم کی جناب میں کرتا رہا میں تو وہ ہوں جو الٹا مذاق اڑانے والوں میں شامل رہا۔
Top