Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 58
اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ
اَوْ : یا تَقُوْلَ : وہ کہے حِيْنَ : جب تَرَى : تو دیکھے الْعَذَابَ : عذاب لَوْ اَنَّ : کاش اگر لِيْ : میرے لیے كَرَّةً : دوبارہ فَاَكُوْنَ : تو میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
یا عذاب کو دیکھ کر یہ کہنے لگے کہ کاش مجھے (دُنیا میں) پھر ایک بار واپس جانا ہو تو میں (بڑے) نیک کام کرنے والوں میں ہو جاؤں
عذاب کو دیکھیں گے تو افسوس سے کہیں گے کہ کاش ہم ایک بار دنیا میں لوٹ جائیں 58۔ مقام غور ہے کہ اگر مرنے کے بعد مرنے والے کو عذاب سے اس کے پیچھے رہ جانے والے چھڑا سکتے ہوتے تو کسی ایک جگہ تو قرآن کریم اس کا ذکر کرتا اور مرنے والے کی عذاب کو دیکھ کر یہ خواہش ہوتی کہ اب تو ایک صورت ہے کہ میرے پیچھے والوں کو خیال آجائے اور وہ میرا فدیہ دے کر مرنے والا جب عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا تو پکار پکار کر کہے گا کہ کاش میرے لیے ایک بار دنیا میں دوبارہ لوٹائے جانے کی کوئی صورت پیدا ہوجائے تو میں نیکوکاروں میں ہو جائوں۔ زیر نظر آیت کے الفاظ کو بار بار پڑھو اور ایک ایک لفظ کے معنی سمجھ کر ان پر غور کرو۔ اس مضمون کو ہم نے عروۃ الوثقی جلد اول تفسیر سورة البقرہ کی آیت 167 ، جلد ششم میں سورة المومنون کی آیت 97 تا 111 ، جلد ہذا سورة الشعرا کی آیت 58 کے تحت وضاحت کر چکیں ہیں ان مقامات کا مطالعہ ضرور کریں انشاء اللہ بات مزید واضح ہوجائے گی۔
Top