Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 63
لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
لَهٗ مَقَالِيْدُ : اس کے پاس کنجیاں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات کے اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ پانے والے
اس کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں اور جو لوگ اللہ کی نشانیوں کے منکر ہوئے (اور اس کے احکام کو نہ مانا) وہی لوگ خسارے میں رہیں گے
اللہ تعالیٰ ہی کے لیے آسمان و زمین کی چابیاں ہیں ، کافر خسارہ میں ہیں 63۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کرکے چھوڑ نہیں دیا بلکہ وہ خود ہر ایک چیز کا نگہبان ہے اور ہرچیز کی خبر گیری وہ خود کر رہا ہے جس طرح وہ ہر ایک چیز کا خالق ہے اسی طرح وہ ہر ایک چیز کا منتظم ومنصرم بھی ہے جس طرح رب ذوالجلال والاکرام کے پیدا کرنے سے ہر ایک چیز وجود میں آئی اسی طرح وہ اس کے باقی رکھنے سے باقی ہے ، اسی کی پرورش کرنے سے پھل پھول رہی ہے اور اسی کی حفاظت ونگرانی میں کام کر رہی ہے۔ (مقالید) قلد سے ہے اور قلادہ ہر وہ چیز ہے جو گلے میں لٹکائی جائے اور جو چیز کسی کا احاطہ کرلے اور مقالید کے معنی ہیں وہ چیز جس کے ساتھ وہ آسمانوں اور زمین کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے معنی خزانے اور چابیاں بھی کیا جاتا ہے اور مقصود اس کا یہ ہے کہ ہرچیز اللہ رب کریم کے قبضہ قدرت میں ہے کہ وہی ہر ایک چیز کی حفاظت کرتا ہے اور یہ کہ اس کے ساتھ کوئی نہیں جو اس کام میں اس کا شریک وسہیم ہو لیکن افسوس کہ لوگوں نے ایک نہیں ہزاروں اور لاکھوں انسانوں ، جنوں ، پریوں اور کائنات کی تقریبا ہر ایک چیز کو اس کام میں شریک بنایا اور سہیم ٹھہرایا اور بدقستی سے مسلمان کہلانے والوں میں بھی کثیر طبقہ انہی لوگوں کا ہے جو اس طرح کی اوہام پرستی میں مبتلا ہیں حالانکہ قرآن کریم کی زیر نظر آیت اور اس جیسی دوسری آیات کے مطابق ایسا سمجھنے اور کرنے والے سب کے سب نہایت ہی خسارہ میں ہیں کیونکہ ان کا خسارہ عاقبت کا خسارہ ہے جہاں اس خسارہ کے پورا ہونے کی کوئی شکل و صورت نہ ہوگی اور نہ ہی کوئی ضمانت دینے والا موجود ہوگا۔
Top