Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 107
وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًاۚۙ
وَلَا تُجَادِلْ : اور نہ جھگڑیں عَنِ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ِاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ كَانَ : جو ہو خَوَّانًا : خائن (دغا باز) اَثِيْمًا : گنہ گار
اور جو لوگ اپنے اندر خیانت رکھتے ہیں تم ان کی طرف سے نہ جھگڑو ، اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو خیانت اور معصیت میں ڈوبے ہوئے ہوں
خیانت کرنے والا خائن ہے خواہ وہ کوئی ہو اور خائن کی حمایت ہر حال میں گناہ ہے 180 ۔ یہ گویا تاکیدی حکم ہے کہ خیانت کرنے والوں کی طرف سے جو دباؤ بھی پڑے اس کی پروا مت کرو اور ان کے معاملہ میں ذرا برابر بھی لچک اپنے قول و عمل میں مت رکھو کیونکہ وہ اللہ کو پسند نہیں اور قرآن کریم نے اس کی بار بار نشاندہی فرمائی کہ کہیں یہ ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے بلکہ ہر حال میں اس کی حفاظت کرنا ہے خواہ اس معاملہ میں کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے کوئی رہے یا جائے اس کی پروا مت کرو جو کھرا ہے وہ آخر جائے ہی گا کیوں ؟ اور جو کھوٹا ہے اس کو رکھ کر کیا کرو گے ؟ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہوا کہ : اے پیغمبر اسلام ! اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کا کہا مت مانو ، حقیقت میں حکیم وعلیم تو اللہ ہی ہے اس بات کی پیروی کرو جس بات کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تم کو کیا جا رہا ہے۔ اللہ ہر اس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔ اللہ پر بھروسہ کرو ، اللہ ہی اصل وکیل ہے اور اس کی وکالت کفایت کرنے والی ہے۔ (الاحزاب) نبی اعظم و آخر ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جو فرض تم پر عائد کیا گیا ہے اسے اللہ کے بھروسے پر انجام دو اور دنیا بھر بھی اگر مخالف ہو تو اس کی پروا نہ کرو۔ جب آدمی کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو کہ فلاں حکم اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے تو پھر اسے بالکل مطمئن ہوجانا چاہئے کہ ساری خیر اور مصلحت اس حکم کی تعمیل میں ہے اس کے بعد حکمت اور مصلحت دیکھنا اس شخص کا اپنا کام نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے اعتماد پر صرف تعمیل ارشاد کرنی چاہئے اللہ اس کیلئے بالکل کافی ہے کہ بندہ اپنے معاملات اس کے سپرد کردے وہ راہنمائی کیلئے بھی کافی ہے اور مدد کیلئے بھی اور وہی اس امر کا ضامن بھی ہے کہ اس کی راہنمائی میں کام کرنے والا آدمی کبھی نتائج بد سے دوچار نہ ہو۔ یعنی جو نتائج اس کے نکلیں وہ کبھی ان کو اپنے حق میں برا خیال کرے۔ اگرچہ سارا زمانہ ان کو برا کہے اس لیے کہ علیم کل وہ ہے نہ کہ کوئی اور بندہ۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا : اے پیغمبر اسلام ! ان کفار و منافقین سے کبھی نہ دبو اور ان کی کوئی پروا کرو اور نہ ان کی اذیت کا خیال رکھو ، اللہ پر بھروسہ کرو اور اللہ ہی اس کیلئے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اس کے سپرد کردے۔ وکفی باللہ وکیلا۔ (الاحزاب)
Top