Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 108
یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَ هُوَ مَعَهُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا
يَّسْتَخْفُوْنَ : وہ چھپتے (شرماتے) ہیں مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَسْتَخْفُوْنَ : چھپتے (شرماتے) مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَھُوَ : حالانکہ وہ مَعَھُمْ : ان کے ساتھ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ : جب راتوں کو مشورہ کرتے ہیں وہ مَا لَا : جو نہیں يَرْضٰى : پسند کرتا مِنَ : سے الْقَوْلِ : بات وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطًا : احاطہ کیے (گھیرے) ہوئے
یہ لوگ اپناحال انسانوں سے چھپاتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتے حالانکہ وہ راتوں کو مجلس بٹھا کر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں تو اس وقت وہ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں
راتوں کو چھپ چھپ کر مشورے کرنے والے اللہ سے پوشیدہ نہیں ہیں 181: راتوں کرنے کا رواج بہت پرانا ہے اور خصوصا ایسی مجلسیں جن میں مخالفت کا عنصر غالب ہو اور رات کو جمائی جاتی ہیں تاکہ سرغنے سر جوڑ کر بیٹھ سکیں اور اپنی اپنی سکیمیں اور دائو پیچ ‘ ان کے طریقے اور پھر نتائج پر سیر حاصل بحث کرسکیں اور اس طرح جو قدم اٹھائیں وہ پیچھے نہ ہٹا سکیں ۔ اگر خاندان کا مسئلہ ہے تو پورے خاندان کے سربراہان جمع ہوں گے اگر پارٹی کا مسئلہ ہے تو پوری پارٹی کے سرغنے جمع ہوں گے اس طرح اگر کسی مکتب جکر کا معاملہ ہے تو مکتب فکر کے راہنمامل بیٹھیں گے روایات میں آتا ہے کہ اس معاملہ کا پورا حل کھل جانے کے بعد بنی ابیرق نے مشورہ کر کے نام کے مسلمان بشر کی حمایت کرنے کا عزم کیا اور یہودی کی مخالفت محض اس کے یہودی ہونے کی وجہ سے کی گئی۔ فرمایا یہ لوگ بھی عجیب ہیں کہ اپنے ہی جیسے آدمیوں سے تو شرماتے ہیں اس لئے چوری چھپاتے ہیں کہ ہمارے آدمی کی بدنامی ہوگی تو اس طرح پورے خاندان کی بدنامی ہے حالانکہ ان کو اللہ تعالیٰ سے شرمانے کا زیادہ حق تھا کیونکہ وہ تو دلوں کے راز جانتا ہے تو کیا ان کا آدمی جب چوری کا کرتوت کر رہا تھا وہ اس کہ جان سکا ؟ چاہئے تو یہ تھا کہ جب حق واضح ہوگیا تھا اس کہ بسر وچشم قبول کرتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کر کے اس کے ازالہ کی کوشش کرتے لیکن ان کو خا ندان کی عزت یاد آگئی اور پھر اللہ کے ہاں ان کی عزت وناموس کا کون محافظ ہوگا جہاں کوئی راز بھی پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا ۔ اس طرح کی سر گوشیوں کا ذکر قرآن کریم نے کئی ایک مقامات پر کیا ہے تاکہ مسلمانوں کو تنبیہ رہے اور وہ حق و باطل میں امتیاز کریں لیکن افسوس کہ آج ان ساری ہدایت سے مسلمانوں نے منہ پھیرلیا ہے چناچہ ارشادالٰہی ہے کہ : ” کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ زمین و آسمان کی ہرچیز کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے ؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو ۔ یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو۔ پھر خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ جہاں کہیں بھی وہ ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ پھر قیامت کے روز وہ ان کہ بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے ‘ اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔ “ (المجادلہ 58 : 7) خیال رہے کہ یہ معیت درحقیقت اللہ جل شانہ کے علیم وخبیر اور سمیع وبصیر اور قادر مطلق ہونے کی طور پر ہے کہ ان کی سرگوشیوں کو وہ جانتا بھی ہے اور دیکھتا بھی۔ اس طرح بیان فرما کہ لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ خواہ وہ کیسے ہی محفوظ مقامات پر خفیہ مشورہ کر رہے ہوں ان کی بات دنیا بھر سے چھپ سکتی ہے مگر اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتی اور وہ دنیا کی طاقت کی گرفت سے بچ سکتے ہیں کیونکہ اس سے بچنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں لیکن اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔ اس مضمون پر ان لوگوں کو بھی غور کرنا لازم ہے جو جھوم جھوم کر اور گا گا کر پڑھتے ہیں۔ جو پکڑے خدا چھڑائے محمد محمد کے پکڑے چھڑا کوئی نہیں سکدا حالانکہ مسلمانوں کو اس بات کی خاص ہدایت دی گئی ہے کہ محمد رسول ﷺ کو اس طریقہ سے مت بلائو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو ۔ اگر تم ایسا کرو گے تو یقینا تمہارے اعمال ضبط کر لئے جانے کا خطرہ اس میں موجود ہے لیکن نا سمجھوں نے ضد میں اپنے اعمال کی بربادی کا حکم بھی یاد نہ کھا ۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ ان سرگوشیوں سے باز آجائو اس میں تمہارا بہت بڑا نقصان ہے چناچہ ارشاد ہوا کہ : ” کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کیا گیا تھا ۔ یہ لوگ چھپ چھپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں ۔ “ (المجادلہ 58 : 8) اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے بھی آپ ﷺ نے لوگوں کو اس حرکت سے باز رہنے کی ہدایت کی تھی لیکن آپ ﷺ کے دعویٰ رسالت کو مان لینے کا مطلب کیا نکلا ؟ اور اس طرح مان لینے اور نہ ماننے میں کیا فرق رہا ؟ نہ مان کر کافر تھے اور مان کر منافق ٹھہرے اور اس طرح جو نام کا فرق ہوا وہ بھی ان کے حق میں کوئی اچھا نہ ٹھہر اکیو ن کہ منافق کا انجام کافر سے بدتر ہے۔ اللہ معاف فرمائے اور سمجھ کی توفیق دے۔
Top