Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 112
وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓئَةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّكْسِبْ : کمائے خَطِيْٓئَةً : خطا اَوْ اِثْمًا : یا گناہ ثُمَّ : پھر يَرْمِ بِهٖ : اس کی تہمت لگا دے بَرِيْٓئًا : کسی بےگناہ فَقَدِ احْتَمَلَ : تو اس نے لادا بُهْتَانًا : بھاری بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور جس کسی سے خطا سرزد ہوجائے یا کسی گناہ کا مرتکب ہو اور پھر اسے کسی بےگناہ کے سر تھوپ دے تو اس نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر لاد لیا
بہتان کیا ہے ؟ خود گناہ کرنا اور دوسرے کے ذمہ لگا دینا : 185: اس آیت میں انسانی زندگی کیلئے بہت بڑی راہنمائی رکھی گئی ہے اگر اس سے کوئی فائدہ حاصل کرلے فرمایا یہ ضابطہ الٰہی ہے کہ جو شخص خود کوئی جرم کرے اور پھر یہ اپنا یہ جرم کسی بےقصور انسان کے ذمے لگا دے جیسے اس گزشتہ واقعہ میں ہوا کہ چوری بنو ابیرق کے ایک آدمی نے کی اور الزام لبید یا اس یہودی پر لگا دیا ‘ فرمایا جس کسی نے بھی ایسا کیا تو وسمجھ لو کہ اس نے بہت بڑا بہتان اور صریح گناہ اپنے اوپر لادلیا ۔ بہتان کیا ہے ؟ یہ آیت بہتان کی تعریف متعین کر رہی ہے یعنی جو عیب آدمی میں نہ ہو یا جو قصور کسی آدمی نے نہ کیا ہو وہ اس کی طرف منسوب کرنا ایک بار الفاظ پر پھر دوبارہ نظرڈال لو تاکہ اچھی طرح مفہوم ذہن نشین ہوجائے پھر نبی اعظم و آخر ﷺ نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہے آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ غیبت کیا ہے ؟ فرمایا ذکرک اخاک بمایکرہ ” تیرا اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرنا جو اسے ناگوار ہو “ عرض کیا گیا کہ اگر میرے بھائی وہ عیب موجود ہو تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان کان فیہ ماتقول فقد اغتبتہ وان لم یکن فیہ ماتقول فقد بھتہ “ اگر اس میں وہی عیب موجود ہے جو تو نے بیان کیا تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ اس میں نہیں ہے تو تو نے اس پر بہتان لگایا ۔ “ اس لئے یہ فعل ایک اخلاقی گناہ ہی نہیں ہے جس کی سزا ملنے والی ہو بلکہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک اسلامی ریا ست کے قانون میں بھی جھوٹے الزامات لگانے کو جرم مستلزم سز اقرار دیا جائے ۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ بھی ہمارے اس خیال سے یقینا متفق ہوں گے کیونکہ بہتان غیبت سے بھی ایک بڑا اور نہا یت ہی خطرناک جرم ہے لیکن ہمیں اگسوس ہے کہ اس بہتان جیسا بڑا جرم سید نا یو سف (علیہ السلام) پر کس طرح لگا دیا گیا اور اس کی نفی کیوں نہ کی گئی کہ یو سف (علیہ السلام) جو اللہ کا ایک برگزیدہ نبی ہے اس جرم کا مرتکب نہیں ہو سکتا پھر اس افسوس پر مزید افسوس ہے کہ اس بہتان کی نسبت براہ راست اللہ کی طرف کردی گئی کہ یہ بہتان یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے سکھا یا تھا ۔ اس طرح گویا جو اللہ کے رسول پر ” بہتان “ کی تہمت رکھی گئی تھی اس میں اللہ کو بھی بڑی خوبصورتی سے شریک کردیا گیا ۔ چناچہ سورة یوسف میں یو سف (علیہ السلام) کے قصہ میں بیان کیا گیا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) پر بہتان کا الزام عظیم غور کرو کیا کہہ رہے ہو ؟ جب یوسف ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا ۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکارکر کہا ” اے قافلے والو تم لوگ چور ہو ۔ “ بھائی کے سامان میں پیالہ کس نے رکھا ؟ یوسف (علیہ السلام) نے چوری کا الزام کیس پر آیا ؟ کنعانی قافلہ کے لوگوں پر جو دراصل یوسف (علیہ السلام) کے بھائی تھے ۔ انجام کار پیالہ کہاں سے نکلا ؟ جہاں رکھا گیا تھا کہاں رکھا گیا تھا ؟ بنیامین کے سامان میں۔ کس نے رکھا تھا ؟ پھر یوسف (علیہ السلام) نے ۔ جب چوری کا الزام ان پر آیا تو یوسف (علیہ السلام) کو اس الزام کی خبر ملی یا نہیں ؟ ملی ۔ پھر یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ پیمانہ میں نے رکھا تھا ؟ نہیں ‘ بہتان کس کو کہتے ہیں ۔ بھائیوں نے اپیل کی کہ ” اے سردار ذی اقتدار اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے ہم آپ (علیہ السلام) کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں ۔ یو سف (علیہ السلام) نے کہا اللہ کی پناہ ! ہم دوسرے کسی شخص کو کیسے رکھ سکتے ہیں جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے اس کو چھوڑکر اگر دوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے۔ “ بنیامین کے سامان میں پیمانہ رکھ کر اس پر چرری کا الزام لگا کر ، کنعانیوں کے قاتون کے مطابق اس کو مصر روک کر تو وہ اللہ کے نبی رہے لیکن اگر ان کنعانیوں کی اپیل پر ان میں سے کسی کر روک کر اگر بنیامین کو چھو ڑدیں تو ظالم ہوجائیں ۔ سبحان اللہ ہذا بہتان عظیم۔ کذلککدنا لیو سف اس طرح ہم نے یوسف کی تائید اپنی تدبیر سے کی یعنی اللہ ہی نے سکھائی تھی ۔ یعنی پہلے تو اللہ کے رسول یوسف (علیہ السلام) کا اپنا فعل تھا اب وہ اللہ کی ” تدبیر “ کیوجہ سے اللہ کا ہوگیا۔ یعنی وہی کام جو آپ ، ع میں کریں تو ” بہتان “ ہے لیکن رسول کرے اور اللہ کرائے تو وہ چونکہ قادر مطلق ہے اس لئے وہ ایک خوبصورت ” تدبیر “ ہوجاتی ہے ۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ کس خوبصو رتی کے ساتھ ایک گناہ گھڑا گیا اور گناہ بھی ” بہتان “ کا پھر اللہ اور رسول اللہ یوسف (علیہ السلام) کو اس کا مرتکب ٹھہرایا گیا پھر قادر مطلق کی آڑ میں اس کو پوشیدہ کر کے نہ معلوم اس سے کیا کیا ضرورتیں پو ری کی گئیں ۔ ایک ایک کر کے اگر پردہ اٹھایا گیا رو اس کے نیچے سے معلوم نہیں کون کون نکل آئے گا لیکن ہو پورے عزم سے یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ نے کبھی کسی رسول کو اس طرح کی خفیہ تدبیریں نہیں بتائیں جو عوام کا لانعام کیلئے تو ” گناہ “ ہوں لیکن رسول ان کو کرے تو وہ عین اسلام ہوجائیں ۔ اس ٹھوکر کا موجب کیا ہوا جعل السقایۃ فی رحل اخیہ جس کے معنی یہ کیے گئے کہ ” اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا “ کسی نے یہ خیال نہ کیا کہ جو یوسف (علیہ السلام) نے رکھا تھا وہ تو ” السقایۃ “ تھا اور جو گم ہوا وہ ” صواع الملک “ تھا تو پھر ” السقایۃ “ اور ” صواع الملک “ ایک کیسے ہوگیا ؟ اس کے لئے ایک کہانی گھڑی ْپڑی کہ جس کے ساتھ غلہ ماپا جاتا تھا وہ وہی تھا جس کے ساتھ بادشاہ سلامت پانی پیا کرتے تھا ۔ کہاں ماپنے کا آلہ اور کہاں بادشاہ کے پانی پینے کا پیالہ غور کرو کہ کہاں کی اینٹ اور کہاں کا گارا جس سے تم نے یہ محل کھڑا کردیا ۔ دنیا میں اس کی کوئی ایک مثال ؟ وہ تو بادشاہ تھا کیا آپ یہ برداشت کرسکتے ہیں کہ جس کے ساتھ پانی پیئیں اس کے ساتھ غلہ ماپیں۔ کیا پانی پینے کا پیالہ اور غلہ ماپنے کا آلہ برابر ہو سکتے ہیں ؟ ایک انسان کے پینے کا پیالہ کتنا بڑا ہو سکتا ہے ؟ اور وہ آلہ جس سے دنیا جہان کے انسانوں کو غلہ ماپ کر ینا ہے جس سے سینکڑوں ٹن روزانہ ماپا جاتا ہے آخر ان کی آپس میں کوئی نسبت ؟ تم اس کو مرصع کرنے لگے تو اس پر ہیرے اور جواہر جٖڑتے ہی چلے گئے ۔ تم نے قیمت کا اندازہ شروع کیا تو دنیا ومافیہا کی قیمت سے اس کو بڑھا دیا اور ما پنے پر آئے تو اس سے ماپنا شروع کر اور بادشاہ کو پانی دینے لگے تو تم کو وہی بادشاہ کا پیالہ نظر آنے لگا۔ چونکہ یہ ساری باتیں تمہارے خیال ہی خیال متعلق تھیں اس لئے تم جیسا خیال آیا تم اس کو بتاتے چلے گئے اور پھر اتنے آگے بڑھے کہ کسی قاعدہ و کلیہ کے پا بند نہ رہے۔ ایساکیوں نہ ہوتا قاعدہ و کلیہ تو عقل و فکر چاہتا ہے اور تم نے تو پہلے ہی یہ بات کہہ دی ہے کہ دین کی باتوں اور دین کے کاموں عقل نہیں چلتی ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ جو تمہارے جی میں آئے تم کہہ سکو اور عقل وفکر سے بالکل کو رے ہو کر کہو اس لئے دوسروں کو تلقین پہلے کرلو کہ جو کچھ ہم کہیں گے وہ عقل کے احاطہ سے باہر ہے اس لئے تم عقل سے سمجھ کر مت مانو ۔ بس جو ہم کہیں تم ہاں جی ہاں جی کہتے رہو ۔ یاد رکھو کہا گر تم نے زبان کھولی تو کافر ہو جائو گے کیونکہ مہر ہمارے پاس ہے تم آخر جا ئو گے کہاں ؟ پھر اگر مہر لگ گئی تو دور ہی سے پہچان لئے جائو گے وہ ” کافر “ اور جب تمہاری پہچان ہوگئی تو پھر ” دھر “ لئے جائو گے اور کوئی تمہارا پرسان حال نہیں ہوگا۔ قرآن کریم کو اٹھائو اس سے پوچھو کہ ” السقایہ “ کیا ہے ؟ قرآن کہتا ہے ” اجعلتم سقایۃ الحاج “ کیا تم نے ٹھہرالیا کہ حاجیوں کو پانی پلا نا اور ان کے لئے سبیل لگا دینا کافی ہے۔ پانی پلانا یعنی خوردو نوش کا انتظام کرنا۔ قرآن کریم ہم کو کہتا ہے کہ جب کنعانیوں کا قافلہ دوسری بار آیا تھا جس میں بنیا مین شامل تھا تو یو سف (علیہ السلام) نے ان کو ٹھہرانے کا جو انتظام کیا تھا وہ کچھ اس طرح تھا کہ اس میں سب بھائی ایک جگہ اکٹھے نہ ٹھہرائے گئے اور اگر ٹھہر ائے گئے تو بہر حال بنیا مین ان کے ساتھ ٹھہرایا گیا چناچہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں : ” ولمادخلوا علی یو سف اوی الیہ اخاہ قال انی انا اخوک فلا تبتس بما کانوا یعملون “ (یوسف 12 : 29) یہ لوگ یوسف کے حضور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کے میں تیرا بھائی ہوں جو کھو گیا تھا اب تو ان باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ “ اس بقرے میں وہ ساری داستان سمیٹ دی گئی جس میں بائیس تیئس سال گزر گئی تھے ۔ دونوں بھائیوں نے مل کر جب سارے غم غلط کر لئے لیکن ابھی سب پر اظہار کردینا خلاف مصلحت تھا اس میں بڑی حکمتیں ابھی پوشیدہ تھیں بہر حال جب ان کا سامان تیار کرایا تو آخری دعوت ان سب بھائیوں کی وہاں رکھ دی جہاں بنیامین کو ٹھہرایا گیا تھا جعل السقایۃ فی رحل اخیہ ” یعنی ان کے خوردو توش کا سارا انتظام اس جگہ کردیا جہاں اپنے بھائی بنیامین کو ٹھہرا رکھا تھا ” رحل “ بمعنی ” شلیتہ “ یا بوری یا خور جی نہیں بلکہ وہ مقام ، ڈیرا اور جگہ ہے جہاں بنیامین کو رکھا گیا تھا اور اب اس کی نسبت اپنے بھائی کے ساتھ کر کے ساری داستان کا ماحصل بیان کردیا۔ ” السقایۃ “ خوردو نوش کے خاص اہتمام کے لئے بولا گیا اور ” رحل “ اس مقام کو کہا گیا جہاں بنیامین کو ٹھہرایا گیا تھا اس لئے اس داستان کا اس میں کوئی زکر موجود ہی نہیں ہے جو دوستوں نے بنالی ۔ ” رحل “ کے معنی ٹھہر نے کی جگہ عام ہے جیسے ازان میں پکار پکار کر کہا گیا الا صلوہ فی الرحال۔ الصلٰوۃ فی الرحال کیا بوریوں میں ، شلیتوں میں اور خرجیوں میں نماز پڑھنا مراد ہے یا اپنے پنے مقام پڑنا مراد ہے جہاں ٹھہرے ہوئے ہیں کہ رات اندھیری بھی ہے اور بارش و بادل کا عزر بھی ہے اس لئے ایک جگہ اکٹھے ہو کر نماز ادا کرنا مشکل ہے اس لئے اجازت دی گئی اور قانون صلٰوہ میں اتنی نرمی کردی کہ اپنے اپنے مقام پر ہی نماز ادا کرلو اور اس طرح ان کو اطلاع کردی گئی جو آج بھی عند الضرورۃ دی جاسکتی ہے۔ اس طرح یہ بات تو واضح ہوگئی کہ یوسف (علیہ السلام) اس پیمانہ کو نہیں رکھا تھا اور نہ ہی قرآن کریم میں اس کا کہیں ذکر ہے رہی یہ بات کہ وہ کیسے رکھا گیا ؟ کس نے رکھا ؟ ان کی اپیل کیوں نامنظور ہوئی ؟ اور وہ کیا تدبیر تھا جو اللہ نے یوسف (علیہ السلام) کو سکھائی ؟ تو ان ساری باتوں کا مع شے زائد اپنے وقت پر جو اب آئے گا یا ان شاء اللہ یہاں تو صرف یہ عرض کرنا تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کے ذمہ جو بہتان لگایا گیا جس میں اللہ تعالیٰ کو بھی شامل کرنے کی سعی کی گئی وہ سارا معاملہ ہی کچھ اور تھا ۔ قرآن کریم میں وہ بات نہیں جو بنا کر گھڑ کر اس میں رکھ دی گئی اور اس طرح کی بیسیوں باتیں اور بھی ہیں جو اپنے اپنے مقامات پر بیان ہوتی آرہی ہیں اور ان شاء اللہ ہوتی رہیں گی۔ 186: نبی اعظم و آخر کو اطلاع اور آپ ﷺ کے توسط سے مسلمانوں کو تنبیہہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر خا ص فضل و احسان ہے کہ تم ان منافقین کی شر سے محفوظ چلے آرہے ہو ورنہ ان کی ایک جماعت نے تو قسم کھارکھی ہے کہ وہ آپ ﷺ راہ راست سے ہٹاکر ہی دم لیں گے لیکن وہ ذات علیم وخبیر ہے جس نے آپ ﷺ کو ان کی ساری سازشوں سے محفوظ رکھا اور تمہیں کتاب و حکمت کی جو روشنی عطا فرمائی ہے اس نے تم کو اس لغزش سے محفوظ رکھا ہے اس طرح مسلماتوں کو یہ تنبیہہ کردی کہ جو لوگ رسول ﷺ کو فاہ سے بےراہ کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں کیا وہ تم کو معاف کریں گے ؟ پھر آپ ﷺ کا بچنا تو اس لئے بھی ہوا کہ آپ ﷺ کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں لیکن تم لو گوں کو تو یہ ایک ترلقمہ بنا سکتے ہیں اس لئے تم کو ان کی طرف سے ضرور چوکنا رہنا ہوگا اور پھر اس کی تدبیر بھی بتا دی کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کتاب و حکمت کی جو نعمت تم کو ملی ہے اس کی سچے دل سے قدر کرو اور ان لوگوں کے چکموں کو قرآن کریم میں پڑھ کر یاد رکھو اور یہ جب بھی کوئی ایسا چکمہ دیں تو اس کو قبول نہ کرو بلکہ ان پر ثابت کردو کہ ایک مسلم اللہ کی دی ہوئی روشنی سے دیکھتا ہے اور اس کی بصیرت و بصارت بہت تیز ہوتی ہے۔
Top