Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 114
لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا
لَا خَيْرَ : نہیں کوئی بھلائی فِيْ : میں كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے نَّجْوٰىھُمْ : ان کے مشورے اِلَّا : مگر مَنْ اَمَرَ : حکم دے بِصَدَقَةٍ : خیرات کا اَوْ : یا مَعْرُوْفٍ : اچھی بات کا اَوْ اِصْلَاحٍ : یا اصلاح کرانا بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : یہ ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ اللّٰهِ : اللہ کی رضا فَسَوْفَ : سو عنقریب نُؤْتِيْهِ : ہم اسے دیں گے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
ان لوگوں کے پوشیدہ مشوروں میں سے اکثر مشورے بھلائی کیلئے نہیں ہوتے ہاں ! جو کوئی خیرات کیلئے یا کسی نیک کام کے لیے حکم دے یا لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانا چاہے اور جو کوئی اللہ کی خوشنودی کی طلب میں اس طرح کے کام کرتا ہے تو ہم اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائیں گے
پوشیدہ مشورے کرنے والوں کے مشوروں میں بھلائی کم ہی ہوا کرتی ہے 188: نجویٰ دراصل نجاۃ ہی سے ہے اور یہ خفیہ طور پر مشورہ کرنے کے معنوں میں بولا جاتا ہے ۔ نجویٰ فی نفسہ بری چیز نہیں ۔ وہ مزموم کیوں ہیَ ؟ ہر نجویٰ مذموم بھی نہیں ہاں ! منافقین جب کوئی خفیہ مشورہ کریں گے تو خود وہ ان کے مزاج کے باعث برا ہوگا کیونکہ ان کی باتوں میں اکثر خیر نہیں ہوتی جب وہ کوئی سوچ سوچیں گے کوئی مشورہ کریں گے تو اس میں بھلائی کیونکر ہوگی ؟ اور ایسامشورہ مسلمانوں اور خصوصا آپ ﷺ کی موجودگی میں آپ ﷺ ہی سے چھپ کر آخر کیسے ہوگا ؟ کیا وہ لوگ آپ ﷺ سے زیادہ زیرک ہیں کہ آپ ﷺ سے پوشیدہ کوئی بات کریں گے ۔ اس لئے فرمایا ان کے مشوروں میں خیر کم ہی ہوتی ہے مگر ہاں ! جو وہ بات صدقہ و خیرات کی کریں کیونکہ کبھی جھوٹ کو چھپانے کے لئے سچ بھی بولنا پڑتا ہے لیکن یہ اسلام کا کمال ہے کہ وہ ہر اس بات کو سچ ماننے کے لئے تیار ہے جو فی الحقیقت سچ ہو ہاں وہ کہے گا تو یہ کہے گا کہ ان لوگوں نے بات تو سچی کہی ہے لیکن سچ بولنے میں بھی کسی دائو پر ہیں اور وہ دائو ان کا کبھی ظاہر بھی کردیتا ہے اور کبھی یہ کہتا ہے کہ بات تو انہوں نے سچ کہی ہے لیکن ہیں وہ جھوٹے کیونکہ انہوں نے یہ سچ محض جھوٹکو چھپانے کے لئے بولا ہے۔ بات ہر رہی تھی کہ نجوی تھی کہ نجوی بذاتہ بری چیز نہیں ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اگر وہ بری چیز ہوتی تو اسلام مسلمانوں کو اس سے منع فرما دیتا حالانکہ اس نے فی نفسہ نجویٰ سے منع نہیں فرمایا۔ چناچہ ارشاد الہٰی ہے : ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی باتیں نہ کرو بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے حضور تم کو حشر میں پیش ہونا ہے ۔ “ (المجادلہ 58 : 9) فرمایا کہ یاد رکھو کہ برا نجویٰ وہ ہے جو شیطان سے ہو کیونکہ شیطان کے ہاں خیر نام کی شے ہی نہیں تو اس میں خیر کیو نکر ہوگی ؟ چناچہ ارشاد فرمایا : 1۔ مسلمانوں سیچھپ کر سر گوشیاں تو شیطان کا کام ہے کیونکہ وہ کانا پھوسی کا عادی ہے اور وہ اس سے باز کیوں کر آسکتا ہے اور وہ کانا پھوسی جو کرتا ہے تو سوائے اس کے اور کوئی بات نہیں کہ وہ ان کور نجیدہ خاطر کرنا چاہتا ہے حالانکہ بےاذن الٰہی وہ کسی کا بھی کچھ نہیں کرسکتا اور مومن تو ہوتے ہی وہ ہیں جو ہر حال میں اللہ پر بھر وسہ کرنے والے ہوں اور اللہ پر بھروسہ کرنے والا غلط بات کو دل میں جگہ دے ہی نہیں سکتا۔ “ (المجادلہ 58 : 10) فرمایا شیطان کے ساتھیوں کی بات تو اس طرح ہے کہ ” ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے نصیحت کی باتیں پے ہم آتی رہیں مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ انہوں نے ان کو جی لگا کر سنا ہو ۔ وہ سنتے ہیں مگر اس طرح کہ گویا کھیل کود میں لگے ہوئے ہیں اور دل ہیں کہ یک غافل ہیں اور دیکھو ان ظلم کرنے والوں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں ” یہ آدمی اس کے سوا کیا ہے کہ ہمارے ہی طرح کا ایک آدمی ہے ؟ پھر کیا جان بوجھ کر ایسی جگہ آتے ہو جہاں جادو کے سوا اور کچھ ہے ہی نہیں ؟ پیغمبرنے فرمایا کہ آسمان و زمین میں جو بات بھی کہی جاتی ہے خواہ پوشیدہ کہی یا اعلانیہ میرے پروردگار کو سب معلوم ہے وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (الانبیاء 21 : 2 ‘ 3) فرمایا ” جو کوئی اللہ کی خوشنودی کی طلب میں اس طرح کے کام کرتا ہے تو ہم اسے بڑا اجر عطا فرمائیں گے ۔ “ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا : ” اے لوگوجو ایمان لائے ہو جب تم فسول سے تخلیہ میں بات کرو تو بات کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دو یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے البتہ اگر تم صدقہ دینے کے لئے کچھ نہ پائو تو اللہ غفور ورحیم ہے۔ کیا تم ڈر گئے اس بات سے کہ تخلیہ میں گفتگو کرنے سے پہلے تمہیں صدقات دینے ہوں گے ؟ اچھا ‘ اگر تم ایسا نہ کرو یعنی نہ کرسکو تو اللہ نے تم کو معاف کردیا ‘ ہاں ! تم نماز قائم کرتے رہو ‘ زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “ (المجادلہ 58 : 12 ‘ 13) اس سے وقتی پابندی کا جواز بھی مل گیا اور یہ بھیمعلوم ہوگیا کہ مالدار اور غریب لوگوں کے درمیان یہ فرق ملحوظ رکھا جاسکتا ہے کہ مال والا اپنی وسعت مال کے مطابق جو خرچ کرے گا غریب لوگوں پر ضروری نہیں اس لئے کم آمدنی والوں کے لئے چھوٹ دی جائے اور مال والوں کو کوئی چھوٹ نہ دی جائے تو جائز ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اس کے برعکس سمجھ لیا گیا ہے اور ایسے قانون ملک میں نافذ ہیں کی غریب آدمی پستا رہے اور مالدار عیش و آرام لیں اس لئے کہ آخر امالدار ہیں ؟
Top