Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 117
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا١ۚ وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًاۙ
اِنْ يَّدْعُوْنَ : وہ نہیں پکارتے مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِلَّآ اِنَاثًا : مگر عورتیں وَاِنْ : اور نہیں يَّدْعُوْنَ : پکارتے ہیں اِلَّا : مگر شَيْطٰنًا : شیطان مَّرِيْدًا : سرکش
یہ (اللہ تعالیٰ کے سوا) نہیں پکارتے مگر بیبیوں کو اور یہ نہیں پکارتے مگر شیطان مردود کو
مشرکین مکہ سوا جن کو اپنا حاجت روا جانتے تھے ان کو ” اناث “ کہتے تھے : 191: اناث کیا ہے ؟ اناث انثی کی جمع ہے۔ یہ ارشاد اس لئے فرمایا کہ مشرکن مکہ جن ہستیوں کو اللہ کا شریک اور ساجھی ٹھہراتے تھے ان کے نام انہوں نے عورتوں ہی کے سے رکھے تھے جیسے لات ، مناۃ اور عزٰی اور روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ ہر ایک قبیلہ کا ایک بت تھا جسے وہ انثی بن فلاں کہتے تھے کیونکہ اناث میں قوت منفعلہ یعنی دوسرے کا اثر قبول کرنے کی قوت تو ہوتی ہے لیکن کسی میں اثر کرنے کی قوت نہیں ہوتی اگرچہ علامہ بیضاوی کا یہ ارشاد اس وقت تو صحیح ہوگا جب وہ اس دنیا میں موجود تھے لیکن اگر وہ آج ہوتے تو شاید ایسا نہ کہتے کیونکہ اس وقت حالات بدل چکے ہیں اور ” اناث “ یعنی عورتوں میں اثر پیدا کرنے کی قوت موجود ہے جس کا زمانہ شاہد ہے ۔ اس لئے ہم پہلی وجہ کو درست قرار دیتے ہیں لیکن دوسری کو نہیں۔ اور ہم اپنے خیال میں دوسری وجہ اس کی یہ قرار دیتے ہیں کہ مشرکین مکہ فرشتوں یعنی نیکی کی ان قوتوں کی پرستش بھی کرتے تھے جن کو وہ بزعم خویش ” اناث “ ماتنے اور تسلیم کرتے تھے کیونکہ قرآن کریم نے جگہ جگہ ان کے اس شرک کو بیان کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ مشرکین مکہ ” ملائکہ “ کو اللہ کی ” بیٹیاں “ قرارد یتے تھے اور ان کی پرستش کرتے تھے اس لئے کہ ان کے ہاں لڑکیوں کی عزت بنسبت لڑکوں کے زیادہ سمجھی جاتی تھی وہ اس طرح کہ اگر کسی آدمی کی لڑکی کسی دوسرے کے گھر کسی مقصد کے لئے چلی جاتی تو ہ اس مقصد کو پورا کرنا لازم و ضروری وسمجھتے اور یہ کہتے کہ فلاں کی لڑکی ہمارے گھر آگئی اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہہ اس کی بات نہ مانی جائے اور یہ بھی کہ اگر کسی شخص کے ہاں اس کی لڑکی کو لایا جائے وہ وہ اپنی لڑکی کی بات لینے پر مجبور ہوتا کہ میری لڑکی کو وہ میرے گھر لے آئے اب ان کی بات رد نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس لڑکی بات رد نہیں ہوگی۔ پھر وہ فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں اس لئے قرار دیتے کہ اگر اللہ کے ہاں اللہ ہی کی لڑکیاں ہماری سفارش کریں گی تو اللہ ان کی سفارش رد نہیں کرے گا ۔ جب ایک انسا اپنی لڑکی کی سفارش کو رد نہیں کرتا تو اللہ اپنی لڑکیوں کی سفارش کیسے رد کرے گا ؟ یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ قرآن کریم میں ان کا یہ نظریہ بیان کیا گیا ہے چناچہ ارشاد الٰہی ہے : ” ان الذین لایومنون بالاخرۃ لیسمون الملئکۃ تسمیۃ الانثیو وماعلم ان یتبعون الالظن وان الظن لایغنی من الحق شئا (النجم 53 : 47 ‘ 48) ” مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں حالانکہ اس معاملہ میں ان کو کوئی علم حاصل نہیں ہے ، وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور یہ اللہ کی بیٹیاں ٹھہراتے ہیں ، اس کے لیے پاکیزگی ہو ، بھلا اللہ کیلئے بیٹیاں کیوں ؟ پھر خودان کے لئے کیا ہے ؟ وہ جس کے لئے یہ بڑے خواہش مند ہیں یعنی بیٹے۔ ان کا اپناحال یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے جب کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے مارے رنج کے اس کا چہرہ کا لاپڑ جاتا ہے اور وہ غم میں ڈوب جاتا ہے گویا جس بات کی اسے خوشخبری دی گئی ہے وہ ایسی برائی کی بات ہوئی کہ وہ شرم کے مارے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ ذلت قبول کر کے بیٹی کو لے رہے یا مٹی کے نیچے اس کو زندہ ہی گاڑدے۔ افسوس ان پر کیا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ “ (النحل 16 : 57 تا 59) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” پھر ذرا ان لوگوں سے پوچھو کیا یہ بات تم کو بھلی لگتی ہے کہ تمہارے رب کے لئے تو ہوں بیٹیاں اور ان کے لئے ہوں بیٹے۔ کیا واقعی ہم نے ملائکہ کو عورتیں ہی بنایا ہے ؟ اور یہ لوگ آنکھوں دیکھی بات کہہ رہے ہیں ؟ خوب جان لو کہ یہ لوگ اپنی من گھڑت بات کہہ رہے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے اور فی الوقع یہ جھو ٹے ہیں۔ کیا اللہ نے بیٹوں کے بجائے بیٹیاں اپنے لئے پسند کرلی ؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے ، تم کیسے حکم لگا رہے ہو ؟۔ “ (الصفت 37 : 149 تا 152) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لئے بیٹیاں انتخاب کیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا ؟ اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کہ یہ لوگ اس خدائے رحمن کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کی ولادت کا مژدہ جب خود ان میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث وحجت میں اپنا مدعاپوری طرح واضح بھی نہیں کرسکتی ؟ انہوں نے فرشتوں کو اللہ رحمن ورحیم کے خاص بندے ہیں عورتیں قرار دے لیا ہے۔ کیا ان کے جسم کے ساخت انہوں نے دیکھی ہے ؟ ان کی یہ گواہی لکھ لی گئی ہے اور انہیں اس کی جوابدہی کرنی ہوگی۔ “ (الزخر 43 : 16 تا 19) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اب ذرابتائو تم نے اس لات اور اس عزیٰ اور تیسری ایک منات کی حقیقت پر کچھ غور بھی کیا ہے ؟ کیا بیٹے تمہارے لئے ہیں اور بیٹیاں خدا کے لئے ؟ یہ بڑی دھاندلی کی تقسیم ہے ! دراصل کچھ یہ نہیں ہیں مگر چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔ کیا انسان جو کچھ چاہے اس کے لئے وہی حق ہے ؟ “ (النجم 53 : 19 تا 24) غیر اللہ کو پکار کر وہ شیطان مردود کے تا بع ہوگئے کیونکہ یہ فرمان اسی کا ہے : 192: یعنی مشرکین مکہ ہوں یا کوئی مشرک خوہ اس زمانہ کا وہ یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ جس کو وہ پکارتا ہے اس کے پکارنے کا حکم اس پکارے جانے والے نے اس کو دیا ۔ پھر غیر اللہ کو کیوں پکارتا ہے ؟ فرمایا اس لئے کہ شیطان ہی نے اس کے دل میں یہ بات بٹھا دی ۔ شیطان اور دل میں بات بٹھانے والا ؟ ہاں ہاں بالکل اس لئے کہ اس طرح کے وساوس شیطان ہی ڈالا کرتا ہے چناچہ ارشا الٰہی ہے کہ الذی یوسوس فی صدور الناس ” وہ لوگوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ “ دل میں بات ڈالی جانے والی اگر اچھی اور نیکی کی ہے تو ہم اس کی نسبت اللہ کی طرف کریں گے اور بری ہے تو اس کی نسبت شیطان کی طرف۔ دل میں ڈالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جو خیال ورادہ بھی انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ اچھا ہوگا یا برا۔ اگر اچھا ہے تو ” من اللہ “ ہے اور برا ہے تو ” من ال شیطان “ ہے غیر اللہ کی عبادت جب بھی ہوگی اور جس کی بھی ہوگی وہ دراصل شیطان ہی کی ہوگی ؟ اس لئے اس طرف راہنمائی کرنے والا شیطان ہی ہوگا۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے کہ : الم عھد الیکم یٰبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطن انہ لکم عدومبین۔ واناعبدونی ھذا صراط مستقیم۔ (یاسین 36 : 60 ‘ 61) ” اے آدم زاد ! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی شیطان کی بندگی نہ کرو ‘ وہ تمہارا کھلادشمن ہے ‘ صرف اور صرف میری ہی بندگی کرو یہ سیدھا راستہ ہے۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اس وقت کا ذکر کرو جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ ! تو کیوں ایک چیز کی پوجا کرتا ہے جو نہ سنتی ہے ، نہ دیکھتی ہے ، نہ تیرے کسی کام آسکتی ہے ؟ اے میرے ابو ! میں سچ کہا ہوں کہ علم کی ایک روشنی مجھے مل گئی ہے جو تجھے نہیں ملی ، پس میرے پھے م چل ، میں تجھے سیدھی راہ دکھائوں گا ، اے میرے باپ ! شیطان کی بندگی نہ کر شیطان تو خدائے رحمن کا نافرمان ہوچکا۔ اے میرے ابو ! میں ڈرتا ہوں کہیں ایسانہ ہو کہ خدائے رحمن کی طرف سے تجھ کو عذاب آلگے اور تو شیطان کا ساتھی ہوجائے۔ “ (مریم 19 : 43 تا 45) یہ جو کہا جاتا ہے کہ مشرکین مکہ اور دوسرے مشرک بھی بتوں کی پوجا کرتے تھے اس کا رد قرآن کریم نے فرمایا ہے۔ ہم اس سے پہلے کئی بار عرض کرچکے ہیں کہ آج تک جب سے دنیا میں شفک پیدا ہوا کسی نے بھی بتوں کی پرستش نہیں کی۔ قبروں کی پرستش نہیں کی۔ پرستش ہمیشہ صاحب بت ، صاحب قبر اور صاحب درخت ہی کی گئی ہے۔ یہ لات ، منات اور عزیٰ کیا تھے ؟ انسان تھے ، بدھ اور رام چندر کیا تھے ؟ انسان تھے۔ علی ہجویری اور صابر کلیری کیا تھے ؟ انسان تھے۔ مکہ والوں نے ان نیک انسانوں کے مرنے کے بعد ان کے بت تراشے تو یہ بت کیا ہوئے ؟ ان نیک لوگوں کی یادگارکا ایک نشان تھے۔ بدھ اور رام چندر کے بھی ان کی یادگاری کا ایک نشان تھا اور بالکل اسی طرح یہ قبریں اور روضے بھی ان نیک لوگوں کی یادگاریں ہیں۔ پھر پرستش ان یادگاروں کی ہوئی ؟ ہرگز نہیں پرستش ہمیشہ ان یادگار والوں کی ہوئی اور ان کی پرستش کچھ انسانوں کے وہم اور ظن و گمان کی پیداوار ہے ان لوگوں نے کبھی اپنی پرستش کا نہیں کہا بلکہ بعد میں آنے والوں نے ان کی عقیدت کی بناء پر ان کے بت ، قبریں اور شبیہیں بنالیں اور جوں جوں زمانہ نے ترقی کی اب مقبرے اور تصویروں نے ان کی جگہ لے لی۔ اس طرح اس شرک کی جڑیں اتنی گہری چلی گئیں اور کچھ لوگوں نے اس قدر ان کی آبیاری کی کہ اب ان کا اکھاڑنا پچھلے زمانہ سے بھی زیادہ مشکل ہوگیا۔ مختصر یہ کہ اس طرح کی ساری پرستش خواہ کسی کی ہو نبی ، ولی ، پیر ، مرشد اور فقیر یا کسی اور تارو گرو کی بہر حال اس کو شیطان ہی کی طرف منسوب کیا جائے گا ۔ یہ صرف ہمارے رائے ہی نہیں ملکہ شروع سے اس کی تشریح اس طرح ہوتی آئی ہے آئیے امام رازی (رح) سے دریافت کریں کہ وہ اس سلسلہ میں کیا فرماتے ہیں ؟ وہ کہتے ہیں لاتعبدوالشیطن کے معنی ہیں لاتطیعوہ کہ اس کی اطاعت نہ کرو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کو صرف سجدہ کرنا ہی ممنوع نہیں ہے کہ اس کی اطاعت کرنا اور اس کے حکم کی تابعداری کرنا بھی منع ہے اس لئے اس جگہ اطاعت عبادت ہے۔ “ اس کے بعد امام صاحب (رح) نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر عبادت بمعنی اطاعت ہے تو کیا اطیعواللہ واطیعوالرسول واولی الامرمنکم میں ہم کو رسول اور امراء کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ؟ پھر اس کا جواب دیتے ہیں کہ ان کی اطاعت جب کہ اللہ کے حکم سے ہو تو وہ اللہ ہی کی عبادت اور اس کی اطاعت ہوگی۔ کیا دیکھتے نہیں کہ ملائکہ نے اللہ کے حکم سے آدم کو بطور قبلہ تسلیم کرتے ہوئے سجدہ کیا اور یہ سجدہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ تھی۔ امراء کی اطاعت ان کی عبادت صرف اس صورت میں ہوگی جب کہ ایسے معاملات میں ان کی اطاعت کی جائے جس میں اللہ نے ان کی اطاعت کا اذن نہیں دیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں اگر کوئی شخص تمہارے سامنے آئے اور تم کو کسی چیز کا حکم دے تو دیکھو کہ اس کا یہ حکم اللہ کے حکم کے موافق ہے یا نہیں ؟ موافق نہ ہو تو شیطان اس شخص کے ساتھ ہے اگر اس حالت میں تم نے اس کی اطاعت کی تو تم نے اس کی اور اس شیطان کی عبادت کی۔ اس طرح اگر تمہارا نفس تمہیں کسی کام کے کرنے پر اکسائے تو دیکھو کہ شرع کی رو سے وہ کام کرنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ اجازت نہ وہ تو تمہارا نفس خود شیطان ہے یا شیطان اس کے ساتھ ہے۔ اگر تم نے اس کی پیروی کی تو تم اس کی عبادت کے مرتکب ہوئے۔ پھر وہ فرماتے ہیں مگر شیطان کی عبادت کے مراتب مختلف ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک کام کرتا ہے اور اس کے اعضاء کے ساتھ اس کی زبان بھی اس کی موافقت کرتی ہے اور دل بھی اس میں شریک ہوتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اعضاء وجوارح سے تو آدمی ایک کام کرتا ہے مگر دل اور زبان اس کام میں شریک نہیں ہوتے ۔ بعض لوگ ایک گناہ کا ارتکات اس حال میں کرتے ہیں کہ دل ان کا اس پر راضی نہیں ہوتا اور زبان ان کی اللہ سیمغفرت کر رہی ہوتی ہے اور وہ اعتراف کرتے ہیں کہ برا کام کر رہے ہیں۔ یہ محض ظاہری اعضاء سے شیطان کی عبادت ہے۔ کچھ اور لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دل سے جرم کرتے ہیں اور زبان سے بھی اپنے اس فعل پر خوشی و اطمینان کا اظہار کرتے ہیں ۔۔ یہ ظاہر و باطن دونوں میں شیطان کے عابد ہیں۔ “ (تفسیر کبیرج 7 ص 103 ، 104) ۔ “ بلاشبہ اس وقت بھی دونوں قسم کے شیطان کے عابد موجود ہیں اگرچہ پہلی قسم سے دوسری قسم کے لوگ زیادہ ہیں۔ “
Top