Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ
: تمہیں وصیت کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَوْلَادِكُمْ
: تمہاری اولاد
لِلذَّكَرِ
: مرد کو
مِثْلُ
: مانند (برابر
حَظِّ
: حصہ
الْاُنْثَيَيْنِ
: دو عورتیں
فَاِنْ
: پھر اگر
كُنَّ
: ہوں
نِسَآءً
: عورتیں
فَوْقَ
: زیادہ
اثْنَتَيْنِ
: دو
فَلَھُنَّ
: تو ان کے لیے
ثُلُثَا
: دوتہائی
مَا تَرَكَ
: جو چھوڑا (ترکہ)
وَاِنْ
: اور اگر
كَانَتْ
: ہو
وَاحِدَةً
: ایک
فَلَھَا
: تو اس کے لیے
النِّصْفُ
: نصف
وَلِاَبَوَيْهِ
: اور ماں باپ کے لیے
لِكُلِّ وَاحِدٍ
: ہر ایک کے لیے
مِّنْهُمَا
: ان دونوں میں سے
السُّدُسُ
: چھٹا حصہ 1/2)
مِمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا (ترکہ)
اِنْ كَانَ
: اگر ہو
لَهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ يَكُنْ
: نہ ہو
لَّهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
وَّوَرِثَهٗٓ
: اور اس کے وارث ہوں
اَبَوٰهُ
: ماں باپ
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
الثُّلُثُ
: تہائی (1/3)
فَاِنْ
: پھر اگر
كَانَ لَهٗٓ
: اس کے ہوں
اِخْوَةٌ
: کئی بہن بھائی
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
السُّدُسُ
: چھٹا (1/6)
مِنْۢ بَعْدِ
: سے بعد
وَصِيَّةٍ
: وصیت
يُّوْصِيْ بِھَآ
: اس کی وصیت کی ہو
اَوْ دَيْنٍ
: یا قرض
اٰبَآؤُكُمْ
: تمہارے باپ
وَاَبْنَآؤُكُمْ
: اور تمہارے بیٹے
لَا تَدْرُوْنَ
: تم کو نہیں معلوم
اَيُّھُمْ
: ان میں سے کون
اَقْرَبُ لَكُمْ
: نزدیک تر تمہارے لیے
نَفْعًا
: نفع
فَرِيْضَةً
: حصہ مقرر کیا ہوا
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ کا
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہو ، پھر اگر ایسا ہو کہ لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں تو ترکے میں ان کا حصہ دو تہائی ہے اور اکیلی ہو تو اس کو آدھا ملے گا اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ میت کے اولاد ہو ، اگر اولاد نہ ہو اور وارث صرف ماں باپ ہی ہوں تو ماں کیلئے تہائی ہے ، اگر میت کے ایک یا زیادہ بھائی بہنیں بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہوگا ، ہاں ! یاد رہے کہ میت نے جو کچھ وصیت کردی ہو جو کچھ اس پر قرض رہ گیا ہو اس کی تعمیل اور ادائیگی کے بعد یہ حصے تقسیم ہوں گے ، دیکھو تمہارے باپ دادا بھی ہیں اور تمہاری اولاد بھی ہے ، تم نہیں جانتے نفع رسانی کے لحاظ سے کونسا رشتہ تم سے زیادہ قریب ہے ، اللہ نے حصے ٹھہرا دیئے ہیں اور وہ جاننے والا حکمت رکھنے والا ہے
میت کے جب کوئی لڑکا نہ ہو اور لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں یا صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حکم : 28: پھر اگر ایسا ہو کہ مرنے والے کے ہاں کوئی لڑکا موجود نہ ہو اور لڑکیاں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو ان سب لڑکیوں کو 2/3 حصہ ملے گا اور باقی 1/3 دوسرے وارثوں میں تقسیم ہوجائے گا اور اگر لڑکی صرف ایک ہے اور کوئی اولاد نہیں ہے تو اس لڑکی کو 1/2 دوسرے وارثوں میں تقسیم ہوجائے گا اور اس بات پر بھی پوری امت کا اجماع ہے کہ اگر لڑکا ایک ہوا تو وہ پوری جائیداد کا وارث ہوجائے گا بشرطیکہ کوئی دوسرا وارث موجود نہ ہو اگر دوسرے وارث بھی ہوں گے تو ان کا حصہ ادا کر کے باقی سارا مال لڑکا لے جائے گا۔ بلاشبہ قرآن کریم میں ” فوق اثنتین “ کے الفاظ آئے ہیں کہ اگر لڑکیاں دو سے زائد ہوں تو ان کے لیے 2/3 ہوگا لیکن دو کا حکم تو اس سے واضح نہیں ہوتا ؟ احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ دو کا حکم بھی دو سے زائد کے اندر مو ود ہے اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس طرح فیصلہ فرمایا ہے۔ چناچہ حدیث میں ہے کہ : ” جابر ؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ باہر نکلے کہ ہمارا گزر سواف میں ایک جگہ سے ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ ایک انصاری عورت اپنی دو لڑکیوں کو لے کر سامنے آئی اور کہنے لگی اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ دونوں لڑکیاں میرے شوہر کی ہیں جو آپ ﷺ کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے اور اس میدان میں شہید ہوگئے تھے۔ ان لڑکیوں کا چچا ان کے پورے مال پر قابض ہوگیا ہے اور ان کے لیے کچھ باقی نہیں رکھا۔ اس معاملہ میں آپ ﷺ کا کیا حکم ہے ؟ اللہ کی قسم ! اگر ان لڑکیوں کے پاس مال نہ ہوگا تو کل کوئی ان کو نکاح میں بھی لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی یہ بات سنی اور صرف اتنا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارا کوئی فیصلہ فرما دے گا۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ پھر جب سورة النساء کی یہ آیت نازل ہوئی ” یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ “ الخ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس عورت اور اس کے دیور یعنی لڑکیوں کے اس چچا کو جس نے پوری جائیداد پر قبضہ کر رکھا ہے بلاؤ ۔ وہ حاضر ہوگئے تو آپ ﷺ نے لڑکیوں کے چچا سے فرمایا کہ لڑکیوں کو کل مال کا 2/3 حصہ دو اور ان کی والدہ کو آٹھواں حصہ اور اس کے بعد جو بچے وہ تم خود رکھ لو۔ “ چنانچہ اس حدیث کی روشنی میں بےجھجک یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو حکم دو سے اوپر کی لڑکیوں کا ہے وہی حکم دو کا ہے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے دو لڑکیوں کو 2/3 دلوا دیا اس طرح دو کا بھی وہی حکم ہوا جو دو سے زائد کا ہے ہاں ! دو سے زائد خواہ وہ کتنی ہوں گی ان میں یہی حصہ برابر برابر تقسیم کردیا جائے گا۔ میت کے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی ہوں تو اس کا حکم : 29: اگر مرنے والے کی اولاد یا اولاد در اولاد موجود ہو اور اس کے ساتھ مرنے والے کے ماں باپ یا ماں باپ کے ماں باپ مو ود ہوں تو ماں باپ میں سے ہر ایک کو ترکہ کا 1/2 حصہ ملے گا اور باقی 2/3 دوسرے ورثا میں ان کے حصص کے مطابق تقسیم ہوگا۔ یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ذوی الفروض یعنی وہ وارث جن کے حصے قرآن کریم اور احادیث میں مقرر کردیے گئے ہیں وہ کل تیرہ اشخاص ہیں (1) باپ (2) دادا (3) اخیافی بھائی یعنی وہ بھائی جو صرف ماں کی طرف سے بھلائی ہو یا ہوں (4) اخیافی بہن یعنی وہ جو صرف ماں باپ کی طرف سے جو بہن ہو یا ہوں (10) علاقائی بہن یعنی صرف باپ کی طرف سے جو بہن ہو یا ہوں (11) والدہ (12) وادی (13) نانی۔ ان سب کے لیے شریعت میں مقرر و معین کردہ حصے ہیں اور وہ حصے جو قرآن کریم اور احادیث میں معین و مقرر ہیں وہ اس طرح ہیں 1/2 ، 1/4 ، 1/8 اور 2/3 ، 1/3 اور 1/6 ۔ شش بود فرض مقدر در کتاب عزیز نصف وربع و ثمن باللہ ثلث و ثلثان سدس نیز شاید آپ کو خیال ہوگا کہ یہ تیرہ اشخاص جن کا اوپر ذکر کیا گیا ان میں بیٹے کا تو کوئی ذکر ہی نہیں وہ کہاں چلا گیا ؟ حالانکہ وہ تو سارے رشتوں سے زیادہ قریب اور سارے ورثاء سے زیادہ اہم وارث ہے ؟ بالکل وہ سارے وارثوں سے زیادہ اہم وارث ہے اس لئے اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ان سارے ورثاء میں سے جن کا ذکر کیا گیا ہے ان کے حصص مقرر ہیں اور بیٹے کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہے۔ اس لئے یہاں ان ہی ورثا کا ذکر ہے جن کے حصص مقرر ہیں اگرچہ ہو حصص کم و پیش ہوتے رہیں۔ ان ورثا میں سے کوئی وراث ایسا نہیں ہے کہ اگر وہ اکیلا ہو تو مرنے والے کی ساری میراث کا وارث ہوجائے لیکن بیٹا ایک ایسا وارث ہے کہ اگر وہ صرف اکیلا ہو اور دوسرا کوئی وارث بھی موجود نہ ہو تو ساری میراث کا حق دار ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس لئے کہ اس کا حصہ مقرر نہیں۔ لیکن اس کے برعکس لڑکی کا حصہ مقرر ہے جو کم و پیش رتو ہو سکتا ہے لیکن لڑکی اکیلی بھی ساری میراث کی وارث نہیں ہو سکتی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس کا حصہ مقرر ہے۔ اب سمجھ میں آگیا کہ ان وارثوں میں لڑکے کا کیوں ذکر نہیں کیا گیا ؟ پھر ان سب حصوں کی مختلف حالتیں ہیں جو بدلتی رہتی ہیں۔ میت کے کوئی اولاد نہ ہو لیکن اس کے ماں باپ موجود ہوں تو ان کا حکم : 30: ماں باپ کے سوا کوئی اور وارث موجود نہ ہو تو ماں کو 1/3 ملے گا اور باقی 2/3 باپ کو ملے گا بشر طی کہ مرنے والے کو کوئی دوسرا وارث موجود نہ ہو۔ لیکن اگر مرنے والے کے بھائی ہوں یا ہو یا بہنیں ہوں یا ہو یا بہنیں اور بھائی ہوں کو ہر حال میں ماں کو 1/6 ہی ملے گا اور باقی ماں کے حصہ میں سے جو 1/6 واپس لیا گیا وہ بھی مرنے والے کے باپ ہی کے حصہ میں چلا جائے گا اور بہن بھائی ایک ہیں یا زیادہ سب محروم ہوں گے ان کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس لئے کہ والدین کی موجودگی میں بہن بھائی کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس طرح والدین کی گویا تین حالتیں ذکر کردی گئیں۔ اول یہ کہ ماں اور باپ دونوں زندہ ہوں اور مرنے والے کی اولاد بھی ہو ایک یا ایک سے زیادہ خواہ کتنی اس حالت میں ماں اور باپ دونوں کو چھٹا چھٹا حصہ ملے گا اور باقی حصہ دوسرے ورثا میں تقسیم ہوجائے گا یعنی اولاد اور بیوی یا شوہر لے لیں گے اور بعض حالتوں میں اگر پھر بھی کچھ بچ گیا تو وہ پھر والد کو مل جائے گا جو اس کے مقررہ چھٹے حصے سے زائد ہوگا علم فرائض کی اصطلاح میں اس طرح کے حق کو حق تعصیب کہتے ہیں۔ والدین کی دوسری حالت یہ بتائی ہے کہ مرنے والے کے اولاد اور بھائی بہن نہ ہوں لیکن ماں باپ موجود ہوں تو اس صورت میں مال موردث کا 1/3 ماں کو اور باقی دو تہائی 2/3 والد کو مل جائے گا اور یہ اس صورت میں ہے جب کہ مرنے والے کے ورثہ میں اس کا شوہر یا اس کی بیوی بھی موجود نہ ہو اگر شوہر یا بیوی موجود ہے تو سب سے پہلے ان کا حصہ الگ کیا جائے گا اور باقی 1/3 والدہ کو اور 2/3 والد کو ملے گا۔ والدین کی تیسری صورت یہ ہے کہ مرنے والے کی اولاد تو نہ ہو لیک بھائی بہن ہوں جن کی تعداد ایک ، دو یا دو سے زیادہ خواہ کتنی ہو صرف بھائی ہوں یا بھائی بہنیں ہوں یا فقط بہنیں ہوں۔ ہر حال میں لاں کو 1/6 ملے گا 1/3 نہیں ملے گا اور اگر کوئی دوسرا وارث نہیں تو باقی 5/6 حصہ باپ کو مل جائے گا۔ اس طرح گویا بھائیوں بہنوں کی موجودگی میں ماں کا حصہ تو کم ہوگیا لیکن بھائی بہن کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ باپ بہ نسبت بھائی بہن کے قریب ہے اس سے جو بچے گا وہ باپ کو مل جائے گا۔ ” فرائض “ کی اصطلاح میں اس کی حجب نقصان کہتے ہیں اور یہ بہن بھائی جن کی وجہ سے والدہ کا حصہ کم ہوگیا ہے خواہ مرنے والے کے حقیقی ہوں۔ خواہ باپ شریک ہوں خواہ ماں شریک ہوں ہر صورت میں ان کی موجودگی میں ماں کا حصہ کم ہوجائے گا یعنی 1/6 ہوجائے گا۔ اس طرح یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ماں باپ کا حصہ 1/6 سے کم نہیں ج ہو سکتا اور ماں باپ کسی صورت میں محروم بھی نہیں ہو سکتے ہاں ماں باپ کا حصہ 1/6 سے بڑھ سکتا ہے اور بڑھنے کی صورت میں ماں کو 1/3 مل سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں اور باپ بعض اوقات سارا بھی لے سکتا ہے اور بعض اوقات 1/6 سے زیادہ بھی لیکن اس زیادتی کی کوئی حد مقرر نہیں حتیٰ کہ وہ سب بھی لے جاسکتا ہے۔ اس طرح گویا والدین کے حصہ کی حالتیں مختلف صورتوں میں بدلتی رہتی ہیں۔ میراث کے تقسیم کرنے سے پہلے مرنے والے کی وصیت اور قرض ادا کرنا ضروری ہے : 31: فرمایا کہ مرنے والے کی میراث تقسیم کرنے سے پہلے شریعت اسلامی کا اصول یہ ہے کہ میت کے مال سے شریعت کے مطابق اس کے کفن و دفن کے اخراجات پورے کئے جائیں جن میں نہ فضول خرچی ہو اور نہ کنجوسی۔ اس کے بعد اس کے قرض ادا کئے جائیں اگر کوئی ہوں۔ لیکن اگر قرض اتنے ہوں کہ اس کا سارا مال ان میں لگ جائے یا اس سے بھی زیادہ تو نہ کسی کو میراث ملے گی اور نہ کوئی وصیت پوری کی جائے گی اور تصور یہ ہوگا کہ مرنے والے نے کوئی مال نہیں چھوڑا اس لئے کہ وہ سب کا سب اس کے قرضوں میں چال گیا۔ ہاں ! اگر قرض کی ادائیگی کے بعد مال بچ رہے یا کوئی قرض موجود ہی نہ ہو تو جو اس نے وصیت کی ہے بشرطیکہ وہ وصیت کسی طرح کی معصیت میں نہ ہو تو جو مال موجود ہے اس کے تیسرے حصے پر اس کی وصیت نافذ ہوجائے گی۔ اگر کوئی شخص پورے مال کی وصیت کر جائے تو بھی تہائی مال ہی میں وصیت معتبر ہوگی۔ تہائی مال سے زیادہ میں وصیت کرنا درست ہی نہیں اور اگر کوئی کر دے تو اس کو پورا بھی نہیں کیا جاسکتا اور وارثوں کو محروم کرنے کے لئے پورے مال کی وصیت کر جانا گناہ بھی ہے۔ گویا قرض ادا کرنے کے بعد ایک تہائی میں وصیت نافذ کر کے باقی شرعی وارثوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ تفصیلات اس کی فرائض کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اس جگہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کفن وہ ہے جو میت کو شریعت کے مطابق نہلا دھلا کر پہنایا جاتا ہے اور اس کفن سے زیادہ لینا کسی صورت بھی جائز نہیں ہے جیسے کفن کے ساتھ جائے نماز وغیرہ بنانے کا رواج ہے اور اس طرح قبر کے اندر مزید اشیاء کا استعمال خواہ وہ جائے نماز ہو یا صف یا روئی یا کوئی اور چیز۔ یہ سب بدعت ہونے کے علاوہ اس لئے بھی ناجائز ہیں کہ یہ مال شرعی تجہیز و تکفین سے زائد ہونے کی وجہ سے ترکہ میں داخل ہیں جس کے احکام نہایت سخت اور اس میں احتیاط کی نہایت تاکید کی گئی ہے اور اس کی اہمیت اوپر ذکر کردی گئی ہے۔ اس طرح میت کو ایصال ثواب کے لئے یہ ترکہ میں سے جو مال خرچ کیا جاتا ہے اس میں بھی بہت بڑی قباحتیں ہیں کیونکہ مرنے والے کا مال دراصل اس کے مرنے کے ساتھ ہی لاک ہوجاتا ہے وہ کم ہو یا زیادہ۔ پھر اس میں پوری احتیاط کے ساتھ صرف بقدر شرعی تجہیز و تکفین ہی لیا جاسکتا ہے باقی پھر لاک جب تک سارے ورثاء میں ان کے حصص کے مطابق تقسیم نہ ہوجائے اس کا معمولی حصہ بھی استعمال نہیں ہو سکتا مثلاً اگر یہ لاکھوں اور کروڑوں روپے ہوں تو ان میں سے ایک پیسہ بھی نہیں استعمال کیا جاسکتا۔ پھر مرنے والے کے ورثاء میں یتیم ، مسکین بھی ہو سکتے ہیں اور ان کے مال میں سے ایک پیسہ بھی ادھر ادھر کرنا حرام بلکہ دوزخ کی آگ کے انگاروں سے کم نہیں ہے اور یہ مال جو مرنے والا چھوڑ گیا ہے کسی حال میں بھی اس کا نہیں بلکہ اس کے ورثاء کا ہے اور ورثاء میں سے کوئی بھی استعمال نہیں کرسکتا جب تک لاک نہ کھلے اور لاک تب ہی کھلے گا جب اس کی تقسیم ہوگی کیونکہ اسی غرض سے وہ لاک ہوا ہے ورنہ بظاہر اس پر کوئی تالا نہیں پڑگیا۔ یہ شریعت اسلامی کا تالا ہے اور شریعت ہی کی چابی سے کھل سکتا ہے اگر اس کے بغیر کوئی بھی اس کو کھولے گا تو وہ شرعی مجرم قرار پائے گا ایسے مجرموں کی سزا قرآن کریم نے واضح کردی ہے۔ وصیت کے متعلق تفصیلی بحث عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ آیت 180 کے تحت حاشیہ 309 میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں۔ دنیا کے سارے نادان دانشمندوں کے سوال کا الٰہی جواب : 32 : نادان دانشمند کون ہے ؟ وہی جو اپنی نادانی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا اور یہ کوشش صرف اس لئے نہیں کہ وہ اپنے آپ کو دانشمند سمجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ نادان نہیں تو اور کیا ہے ؟ پھر قانون کی خلاف ورزی کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ قانون کہ قانون سمجھتے ہوئے اس کے خلاف کرنا اور دوسرے یہ کہ کسی قانون کو قانون ہی نہ سمجھنا۔ اس طرح پہلا قانونی چور ہے اور دوسرا قانونی ڈاکو۔ یہ سب جانتے ہیں کہ چور سے ڈاکو ایسا ہی ہے جیسے بد سے بد تر پھر بد سے بد تر جتنا زیادہ برا ہوتا ہے اتنی ہی اس کی سزا بھی سخت ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے ارشاد فرمایا کہ ” دیکھو تمہارے باپ دادا بھی ہیں اور تمہاری اولاد بھی۔ تم نہیں جانتے کہ نفع رسانی کے لحاظ سے کونسا رشتہ تم سے زیادہ نزدیک تر ہے ؟ “ مطلب واضح ہے کہ اللہ نے جو حصے مقرر کئے ہیں ان میں بڑی حکمتیں ہیں اگر تمہاری رائے پر تقسیم میراث کا قصہ رکھا جاتا تو تقسیم تم لوگ نفع رساں ہونے کو بناتے لیکن نفع رساں کون ہوگا ؟ اور پھر سب سے زیادہ نفع کس سے پہنچ سکتا ہے ؟ اس کا یقینی علم حاصل کرنا تمہارے بس کی روگ نہیں ہے ؟ اس لئے علم الٰہی میں بجائے نفع و ضرر کے اقربیت کو مداد حکم بنایا ہے۔ لیکن ان نادان دانشمندوں کی اتنی قسمیں ہیں کہ ان کو گناہی نہیں جاسکتا۔ کیونکہ یہ خواہش کے بندے ہیں اور خواہشیں اتنی ہیں کہ ان کا احصا ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر آن بدلتی رہتی ہیں اور جتنی پوری ہوتی ہیں ان سے کئی گنائنی پیدا ہوجاتی ہیں۔ تا ہم ان میں کچھ ایسے ہیں کہ ان کو ان کی نادانی جس کو وہ دانش سمجھتے ہیں مجبور کرتی ہے کہ یہ لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کا حصہ کیوں ؟ یہ تو بیگانہ مال ہوتی ہیں پھر ان کو جہیز جو دے دیا جاتا ہے وہ ان کا حصہ ہی ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اس طرح یہ اپنی نادانی کے باعث لڑکوں کو اور لڑکیوں کو بیگانہ اور پھر اس نادانی کو دانش سمجھ کر سینکڑوں پاپڑ بیلتے ہیں کہ یہ جائیداد کسی نہ کسی طرح لڑکوں کے نام ہوجائے۔ گویا اللہ نے یہ فیصلہ فرما کر کوئی نہایت ہی نادانی کا حکم دے دیا ہے اور ان دانشمندوں کی دانش اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ غور کرو یہ نادان ہیں یا دانش مند ؟ ہیں تو نادان لیکن نادانی کو تسلیم نہیں کرتے اس لئے میں ان کو نادان دانشمند کہتا ہوں۔ اگر آپ ان کو شمار کرنا چاہیں تو نہیں کرسکیں گے۔ اس لئے کہ اس ملک میں جتنے چھوٹے بڑے زمیندار ہیں سب اس دانش کے مارے ہوئے ہیں۔ پھر ان میں مذہبی راہنما یعنی زمرئہ علما کے لوگ بھی ہیں پیرو پیشو بھی ہیں۔ قاضی اور مفتی بھی ہیں۔ گدی نشین اور سجادہ نشین بھی ہیں اور سیاسی لیڈر و راہنما بھی۔ ان نادان دانشمندوں میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ بیٹا اور پوتا دونوں ایک ہی اصل اور نسب سے ہیں۔ زندگی اور موت اللہ کے قبضے میں ہے۔ جب اس نے یہ اصول نہیں بنایا کہ ہر باپ پہلے مرے اور بیٹا بعد تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ ایک باپ کی موجودگی میں اگر اس کا بیٹا مر گیا تو اس متوفی بیٹے کی اولاد اپنے چچوں اور پھوپھیوں کے ساتھ اپنے دادا کی میراث میں کیوں شریک نہ ہو ؟ اس لئے اس قریب کی وجہ سے بعید پر ظلم ہوگیا لہٰذا یہ بات صحیح نہیں کہ قریب بعید کو محروم کرتا ہے گویا اللہ نے یہ نادانی کا حکم دیا ہے اور ان دانش مندوں کو دانش اس کو قبول کرنے لے لئے تیار نہیں لہٰذا قانون میں ترمیم کرو اور پوتے کو بیٹے کا قائم مقام بنا کر جائیداد میں شریک ٹھہرائو کہ یہی بات دانشمندی کی ہے۔ ان کو کان سمجھائے کہ اے نادان دانشمند ! تمہیں تو صرف ایک پوتے کا غم کھائے جاتا ہے حالانکہ اللہ اور اس کے رسول نے صرف ایک پوتے ہی کا نہیں بلکہ دوسرے کمزور اعزہ و اقرباء کا بندوست پہلے فرما دیا ہے اور جائیداد کو ہاتھ بعد میں لگانے دیا ہے ذرا آنکھیں کھولو اور اللہ کے حکم کو اپنی نادانی کی بھینٹ مت چڑھائو۔ یہ 1/3 حصہ کی حد تک جو تم کو وصیت کو حکم دیا ہے یہ کیوں دیا ہے ؟ یہ وصیت کا قاعدہ اس لئے مقرر گیا گیا ہے کہ قانون وارثت کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں سے نہیں پہنچتا ان میں سے جس کو یا جس جس کو آدمی مدد کا مستحق پاتا ہے اس کے یہ اپنے اختیار تمیزی سے حصہ مقرر کر دے مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے یا کسی ہیٹے کی بیوی مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے یا کوئی بھائی ، بہن ، بھاوج ، بھتیجا ، بھتیجی ، بھانجا ، بھانجی ، اور کوئی عزیز ایسا ہے جو سہارے کا محتاج نظر آتا ہے تو اس کے حق میں وصیت کے ذریعہ سے حصہ مقرر کیا جاسکتا ہے اللہ کے حکم پر حرف گیری کرنے کی بجائے آخر تم انسانیت سیکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے تم تو مسلمان ہو اور مسلمان تب ہی مسلمان ہوتا ہے جب وہ پہلے انسانیت کو سمجھے اور انسانیت کے دارئرہ کے اندر داخل ہو۔ تم عجبب انسان ہو کہ قانون کے ڈنڈے سے بھی گریزاں ہو اور اختیار استعمال کرنے سے بھی الرجک ہو۔ تم صرف ایک پوتے پوتے کا شور مچاتے ہو اور اللہ نے تم کو ایسے سارے غموں کا علاج مرحمت فرمایا ہے اس سے فائدہ حاصل نہیں کرتے تاکہ تمہارے سارے غموں کا مداوا ہوجائے۔ اگر تمہارے اعزہ و اقرباء میں کوئی مستحق نہیں ہے کوئی یتیم پوتا پڑ پوتا ، دوہتی دوہتا بھی نہیں ہے بھائی اور بہن بھی نہیں ہے تو مستحقین کے لئے کسی راہ عامہ کے کام میں صرف کرنے کے لئے وصیت کی جاسکتی ہے۔ مختصر یہ کہ آدمی کی کل ملکیت میں سے 2/3 یا اس سے کچھ زائد کے متعلق شریعت نے میراث کا ضابطہ مقرر فرما دیا جس میں سے شریعت کے نامزد کردہ وارثوں کو مقرر حصہ ملے گا اور 1/3 یا اس سے کچھ کم خود اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ اپنے مخصوص خاندانی حالات کے لحاظ سے جو ظاہر ہے کہ ہر آدمی کے حالات کے مطابق مختلف ہوں گے جس طرح مناسب سمجھے تقسیم کرنے کی وصیت کر دے۔ پھر اگر کوئی شخص اپنی وصیت میں ظلم کرے یا بالفاظ دیگر اپنے اختیاط تمیزی کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لئے یہ چارہ کار رکھ دیا گیا ہے کہ خاندان کے لوگ باہمی رضا مندی سے اس کی اصلاح کرلیں یا شرعی عدالت سے مداخلت کی درخواست کی جائے تاکہ وہ اس وصیت کو درست کر دے۔ اللہ نے کتنی وسعت رکھی تھی لیکن تم نے اس ساری وسعت کہ اپنی نادانی کی وجہ سے اس سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی نہ تعلیم دی تاکہ معاشرہ اسلامی کی تعمیر و ترقی ہو ان کا اللہ کے حکم کو تنقید کر نشانہ بنا کر اللہ کو نادان اور اپنے آپ کو دانش مند ثابت کرنے کی ناروا کوشش میں مصروف ہوگئے اور یاد رکھو کہ اس طرح تم کبھی دانشمند نہیں ہو سکتے۔ انسان کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والا نادان ہوتا ہے اور پھر جو اللہ کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے وہ دانشمند کیسے ہو سکتا ہے ؟ ہاں ! اس کے لئے کوئی رعایت ہو سکتی ہے تو صرف اور صرف یہی ہو سکتی ہے کہ اس کو ناندان دانشمند کہہ دیا جائے۔ کیونکہ حقیقت میں وہ نادان ہے اور اپنی نادانی کو تسلیم بھی نہیں کرتا تو جھگڑا ختم کرنے کے لئے ہی اس کو نادان دانشمند ہی کہہ سکتا ہوں۔ فرمایا کہ ” اللہ نے حصے ٹھہرا دیئے ہیں اور وہ جاننے والا اور حکمت رکھنے والا ہے۔ “ قرآن کریم کے اس حکم نے بتا دیا کہ میراث کے جو حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں وہ اس کا طے شدہ حکم ہے اس میں کسی کو رائے زنی یا کمی پیشی کا حق نہیں اور تمہیں پورے اطمینان قلب کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہئے۔ تمہارے خالق ومالک کا یہ حکم بہترین حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔ تمہارے نفع کا کوئی پہلو اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں ہے اور جو کچھ حکم وہ کرتا ہے وہ کسی حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس نے جو تقسیم میراث کا حکم دیا ہے وہ بھی ان ٹل اور ان مٹ ہے اور جو وصیت کا حکم فرمایا ہے وہ بھی اس کا فیصلہ شدہ ہے۔ یاد رکھو کہ تمہیں خود اپنے نفع و نقصان کی حقیقی پہچان نہیں ہو سکتی اگر تقسیم میراث کا مسئلہ صرف تم ہی پر چھوڑ دیا جاتا تو ضرور تم اپنی کم فہمی کی وجہ سے صحیح فیصلہ نہ کر پاتے اور میراث کی تقسیم میں ہمیشہ بےاعتدالی رہتی۔ اس نے جتنا حصہ تمہاری صوابدید پر چھوڑا ہے اس کا صحیح استعمال کرو اور جو حصہ خود حکما طے کردیا ہے اس کو اس حال پر رکھو اور اپنی نادان دانشمندی کا پیوند اس میں مت لگائو۔ اصلاح حال کے سارے پہلوئوں سے باخبر رہو کسی ایک معاملہ مین ہٹ دھرمی سے کام مت لو۔
Top