Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 120
یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْ١ؕ وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا
يَعِدُھُمْ : وہ ان کو وعدہ دیتا ہے وَيُمَنِّيْهِمْ : اور انہیں امید دلاتا ہے وَمَا يَعِدُھُمُ : اور انہیں وعدے نہیں دیتا الشَّيْطٰنُ : شیطان اِلَّا : مگر غُرُوْرًا : صرف فریب
شیطان ان سے وعدہ کرتا ہے اور آرزوؤں میں ڈالتا ہے اور شیطان ان سے جو کچھ وعدہ کرتا ہے وہ فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتا
خلقت الٰہی میں ردوبدل کردینے کی شیطانی چال : 196: شیطان کی یہ حکم کہ وہ اللہ کی خلقت میں ضرور ردوبدل کریں گے کہ اللہ کی ساخت کو بدل کر رکھ گے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کے بدلنے سے اصلا مراد اس فطرت اللہ کو بدلنا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا کیا جس طرح توحید دین فطرت ہے لیکن شیطان اور اس کے چیلوں نے اس کو شرک سے بدل دیا سورة الروم میں ارشاد الٰہی ہوا کہ ” اللہ کی دی ہوئی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی پیدائش میں کوئی تبدیلی نہیں یہ مضبوط دین ہے۔ “ (الروم 30 : 30) اس طرح خلق اللہ کی تبدیلی سے مراد دین الٰہی کی تبدیلی ہے اور یہی معنی حسن ضحاک ارور مجاہد وغیرہ آئمہ تفسیر سے اس کے نقل کئے گئے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام کی گئی چیزوں کو حلال کرنا بھی مخلوق کی تبدیلی کے مرادف ہے۔ یہ دونوں کام پہلے ہی ہوتے آئے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ کسی کا سر چھوٹا ہے تو یہ شاہ دولہ ولی نے دیا ہے اور کسی کا کان ڈوڈا ہے تو وہ ڈوڈے شاہ نے دیا ہوگا اور اس طرح کی ساری چیزیں علاقائی شرک سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہر علاقہ میں کوئی نہ کوئی جگہ ایسی ضرور بنا رکھی ہے جس کے ذمہ اس طرح کی باتیں لگائی گئی ہیں حالانکہ ان کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا یہ سارے وہمی مفروضے ہیں جو ایک جیسی ذہنیت کے تراشیدہ ہیں۔ اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا مدد گار بنانے والا ایسے گڑھے میں جا گرا جہاں سے نکلنا ممکن نہیں : ایک طرف اللہ کی خداوندی کا اقرار کرنا اور دوسری طرف اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کے احکام پر چلنا اور ان کے مقرر کئے ہوئے طریقوں کی پابندی کرنا شیطان کو اپنا رفیق و مدد گار بنانا ہے اور یہی اصلاً شرک بھی ہے۔ توحید تو یہ ہے کہ زندگی سراسر اللہ کی اطاعت میں بسر ہو اللہ کے ساتھ اگر دوسروں کو اعتقاداً مستقل بالذات مطاع مان لیا جائے تو یہ اعتقادی شرک ہے اور اگر عملاً ایسے لوگوں کی اطاعت کی جائے جو اللہ کی ہدایت سے بےنیاز ہو کر خود امرو نہی کے مختار بن گئے ہیں تو یہ یقینا عملی شرک ہے اور پھر جو شخص اس گڑھے میں جا گرا اس کے نکلنے کو کوئی صورت اور کیسے ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس گڑھے میں گرنے والوں کو زندہ نہیں کہا بلکہ فرمایا کہ وہ مردہ ہیں اور ان کی اس موت سے مراد جہالت اور بےشعوری کی حالت ہے اور زندگی سے مراد علم و ادراک اور حقیقت شناسی کی حالت ہے۔ جس شخص کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں اور جسے معلوم نہیں کہ راہ راست کیا ہے ؟ وہ طبیعات کے نقطہ نظر سے چاہے ذی حیات ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو انسانیت کی زندگی میسر نہیں ہے۔ ہاں ! وہ زندہ حیوان تو ضرور ہے شکل و صورت سے بھی وہ انسان نظر آتا ہے مگر وہ انسان نہیں۔ ایک زندہ انسان تو صرف وہی شخص ہے جسے حق اور باطل ، نیکی اور بدی ، راستی اور ناراستی کا شعور حاصل ہے۔ شیطان کا وعدہ ایک فریب ہے اس کے سوا کچھ نہیں اور اس کو بھی اس کا اقرار ہے : شیطان مکار ضرور ہے لیکن کوئی بات سچ بھی کہہ جاتا ہے اس قبیل سے اس کی یہ بات ہوگی کہ وہ کہے گا کہ تمہارے سارے گلے شکوے اس حد تک تو صحیح ہیں کہ اللہ سچا ہے اور میں جھوٹا۔ اس واقعہ سے مجھے ہرگز انکار نہیں ہے۔ اللہ کے وعدہ اور اس کی وعیدیں تم دیکھ ہی رہے ہو کہ ان میں سے ہر ایک بات جوں کی توں سچی نکلی اور میں خود مانتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دلائے ، جن فائدوں کے لالچ تم کو دیئے جن خوشنما توقعات کے جال میں میں نے تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ یقین جو تمہیں دلایا کہ اول تو آخرت کچھ ہے ہی نہین بلکہ صرف ایک ڈھکوسلہ ہے اور اگر ہوئی بھی تو فلاں صاحب کے تصدق سے تم صاف بچ نکلو گے۔ بس ان کی خدمت اقدس میں نزر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو اور پھر جو چاہو کرتے پھرو ، بس نجات کا ذمہ ان کا ہوگیا۔ یہ ساری باتیں مع شے زائد جو میں تم سے کہتا رہا اور اپنے چیلوں چانٹوں کے ذریعہ سے کہلواتا رہا یہ سب کا سب محض دھوکا تھا۔ وہ ضرور کہے کہ میرے دوستو ! ایسا کوئی ثبوت رکھتے ہو کہ آپ کود راہ راست پر چلنا چاہتے تھے اور میں زبردستی آپ کا ہاتھ پکڑ کر غلط راستے پر کھینچ لایا تھا تو ضرور اس کو پیش کرو جو چور کی سزا سو میری۔ لیکن آپ خود مانیں گے کہ واقعہ یہ نہیں ہے۔ میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا کہ دعوت حق کے مقابلہ میں اپنی دعوت باطل آپ کے سامنے پیش کی۔ سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ کی طرف آپ کو بلایا۔ نیکی کے مقابلہ میں بدی کی طرف آپ کو پکارا ، ماننے اور نہ ماننے کے جملہ اختیارات آپ ہی حضرات کو حاصل تھے۔ میرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہ تھی۔ اب اپنی اس دعوت کا ذمہ دار تو بلاشبہ میں خود ہوں اور اس کی سزا بھی پا رہا ہون اور پائوں گا مگر آپ نے خود اس پر لبیک کہا اس کی ذمہ داری آپ مجھ پر ڈالنے چلے ہیں ، اپنے غلط انتخاب اور اپنے اختیار کے غلط استعمال کی ذمہ داری تو آپ کو خود ہی اٹھائی چاہئے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ ” اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کئے ان میں سے کوئی بھی پورانہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں۔ میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کہا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا ، اب مجھے ملامت نہ کرو ، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہون اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا ، میں اس سے بری الذمہ ہوں ایسے ظالموں کے لئے تو دردناک سزا یقینی ہے۔ “ (ابراہیم :22:14) مزید دیکھنا ہو تو عروۃ الوثقی جلد اول سورة البقرہ 248:2: ملاحظہ فرمائیں۔
Top