Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 119
لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ١ؕ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ١ۙ وَ لَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
لَيْسَ : نہ بِاَمَانِيِّكُمْ : تمہاری آرزؤوں پر وَلَآ : اور نہ اَمَانِيِّ : آرزوئیں اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مَنْ يَّعْمَلْ : جو کرے گا سُوْٓءًا : برائی يُّجْزَ بِهٖ : اس کی سزا پائے گا وَلَا يَجِدْ : اور نہ پائے گا لَهٗ : اپنے لیے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ مددگار
نہ تو تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر ، جو کوئی برائی کرے گا ضروری ہے کہ اس کا بدلہ پائے اور پھر اللہ کے سوا نہ تو اسے کوئی دوست ملے گا نہ مددگار
جنت ایک حقیقت ہے وہ خالی آرزوئوں کانا م نہیں : 202: مذاہب عالم کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ من حیث القوم دنیا میں ایک قوم بھی ایسی نہیں پائی گئی جو جنت کو نہ مانتی ہو وہ چاہے جو نام اس کا رکھے۔ پھر تعجب یہ ہے کہ ہر قوم نے وہ اپنی ہی ملکیت سمجھ رکھی ہے اس لئے وہ دوسری ساری قوموں کو اس کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتی۔ قرآن کریم انہی مفروضوں کو وہمی اور بناوٹی قرار دیتا ہے اور زور دے کر کہتا ہے کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے دین کی حقیقت تو یہ تھی کہ وہ نوع انسانی پر خدا پرستی اور نیک عملی کی راہ کھولتا تھا یعنی اللہ کے اسی قانون کا اعلان کرتا تھا کہ دنیا کی ہرچیز کی طرح انسانی افکارو اعمال کے بھی خواص و نتائج ہیں۔ اچھے فکروعمل کا نتیجہ اچھا ہے اور برے فکروعمل کا نتیجہ برا ہے لیکن لوگوں نے یہ حقیقت فراموش کردی اور دین و مذہب کو نسلوں ، قوموں ، ملکوں اور طرح طرح کی رسموں اور رواجوں کا ایک جتھا بنا لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب انسان کی نجات وسعادت کی راہ یہ نہیں سمجھی جاتی کہ کسی کا اعتقاد وعمل کیسا ہے ؟ ملکہ سارا دارومدار اس پر آکر ٹھہر گیا ہے کہ کون کس جتھے اور گروہ بندی میں داخل ہے ؟ اگر ایک آدمی کسی خاص گروہ بندی میں داخل ہے تو یقین کیا جاتا ہے کہ وہ نجات یافتہ ہے اور دین کی سچائی اسے مل گئی ہے۔ اگر داخل نہیں ہے تو یقین کیا جاسکتا ہے کہ نجات کا دروازہ اس پر بند ہوگیا اور دین کی سچائی میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ گویا دین کی سچائی آخرت کی نجات اور حق باطل کا معیار تمام تر گروہ بندی اور گروہ پرستیہو گئی گویا اعتقاد اور عمل کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر باوجودیکہ تمام مذاہب کا مقصود اصل ایک ہی ہے اور سب ایک ہی پروردگار عالم کی پرستش کرنے کے مدعی ہیں ۔ لیکن ہر گروہ یقین کرتا ہے دین کی سچائی صرف اس کے حصے میں آئی ہے باقی تمام نوع انسانی اس سے محروم ہے چناچہ ہر مذہب کے پیرو دوسرے مذہب کے خلاف نفرت و تعصب کی تعلیم دیتے ہیں اور دنیا میں خدا پرستی کی راہ سرتاسر بغض و عداوت ، نفرت اور دشمنی پر سمجھ لی گئی ہے۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے پھر بوالعجبی یہ دیکھو کہ ایک ہی دین کے ماننے والے لوگوں نے دین کے اندر گروہ بندیاں قائم کرلیں اور اس طرح دین و مذہب ایک بکھیڑا بن کر رہ گیا۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم نے جن اصولوں پر زور دیا ان میں تین اصولی باتیں سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کی نجات وسعادت کا دارومدار اعتقاد وعمل پر ہے نہ کہ کسی خاص گروہ بندی پر ، پھر صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر گروہ بندی کو شرک قرار دیتا ہے اور صاف صاف اعلان کرتا ہے کہ دین اسلام کے اندر رہ کر گروہ بندی اللہ کی رحمت سے دوری کا نتیجہ ہے۔ وہ کہتا ہے تمام نوع انسانی کے لئے دین الٰہی ایک ہی ہے اور یکساں طور پر سب کو اس کی تعلیم دی گئی ہے پس یہ جو پیروان مذاہب نے دین کی وحدت اور عالمگیر حقیقت ضائع کر کے بہت متخالف اور متخاصم جھتے باندھ لئے ہیں یہ صریح گمراہی ہے اللہ نے سب کو “ دین ہی کی ہدایت دی ہے۔ وہ کہتا ہے اصل دین توحید ہے یعنی ایک پروردگار عالم کی براہ راست پر ستش کرنا اور تمام بانیان مذاہب نے اس اصول پر انسانوں کو اکٹھا ہونے کی دعوت دی ہے اور یہ کہ وہ بانیان مذاہب کون تھے ؟ انبیائے کرام جو اللہ کے رسول یا نبی کہلائے اس کے خلاف جس قد رعقائدو اعمال اختیار کر لئے گئے وہ سب کے سب اس اصلیت سے انحراف کا نتیجہ ہیں اور پھر یہ کہ اس کا حل بھی صرف ایک ہے دوسرا کوئی نہیں وہ یہ کہ اس اصلیتکو تسلیم کرلیا جائے اور اس اصول کے ماتقدم اٹھیں جو اٹھیں۔
Top