Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 124
وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا
وَمَنْ : اور جو يَّعْمَلْ : کرے گا مِنَ : سے الصّٰلِحٰتِ : اچھے کام مِنْ : سے ذَكَرٍ : مرد اَوْ اُنْثٰى : یا عورت وَھُوَ : بشرطیکہ وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَاُولٰٓئِكَ : تو ایسے لوگ يَدْخُلُوْنَ : داخل ہوں گے الْجَنَّةَ : جنت وَلَا : اور نہ يُظْلَمُوْنَ : ان پر ظلم ہوگا نَقِيْرًا : تل برابر
اور جو کوئی اچھے کام کرے گا خواہ مرد ہو خواہ عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہوگا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور رائی برابر بھی ان کے ساتھ بےانصافی ہونے والی نہیں
اچھے عمل کا بدلہ اچھا ہوتا ہے اور اچھا عمل وہی ہے جو ایمان کے ساتھ ہو : 203: یہاں اس بات کو واضح کردیا کہ اعمال صالحہ کی قبولیت کے لئے ایمان کا ہونا شرط اولین ہے۔ آپ خود دیکھئے کہ ایک آدمی ایک قطعہ زمین کو ہموار کرتا ہے۔ اس سے جڑی بوٹی اکھاڑکر باہر پھینکتا ہے ، پھر اس کی آبپاشی کرتا ہے اور پھر عین وقت پر اس میں ہل چلا دیتا ہے اور رات دن اس کی نگرانی میں مصروف رہتا ہے لیکن اس میں وقت پر بیج نہیں ڈالتا تو کیا اس کی طویل محنت ومشقت کا کوئی نتیجہ برامد ہوگا ؟ جب بیج ہی نہیں تو ساری محنت رائیگاں جائے گی اس طرح اگر ایمان کا تخم نہیں تو دنیا جہان کی ساری نیکیاں برباد ہوجائیں گی اس لئے کہ ان میں با آورہونے والی چیز موجود نہیں اور اگر ذرادقت نظر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ عمل صالح ہو ہی نہیں سکتا جب تک عامل میں صفت ایمان موجود نہ ہو کیونکہ ایمان کے بغیر ہر عمل کے پیچھے کوئی پست جذبہ کار فرما ہو گا مثلا دنیاوی منفعت ، شہرت اور ذکر دوام وغیرو وغیرو تو پھر جس عمل کا محرک ایسی پست چیز ہو وہ عمل صالح کہلا ہی نہیں سکتا صرف ایمان ہی وہ قوت ہے جو ہر عمل کا رخ صرف اللہ وحدئہ لا شریک لہ ‘ کی طرف موڑ دیتی ہے اور اسی نسبت کی برکت سے انسان کا ہر عمل سے صالح بن جاتا ہے اور اس پر جو نتائج مرتب ہوتے ہیں ان سے عامل کی زندگی کو بھی چارچاند لگ جاتے ہیں اور اس کی قوم اور ملک کو بھی عزت و ناموری حاصل ہے۔ غور کرو کہ مومن کون ہوا ؟ وہی جس کے دل میں ایمان کا بیج موجود ہے۔ وہ ایمان کا بیج کیا ہے ؟ رضائے الٰہی اور اس کے متعلقات خاص۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ایمان کسی قوم ، ملت اور گروہ کی میراث نہیں کہ اس قوم ملت یا گروہ میں داخل ہوگئے تو ایمان مل گیا اور یہی بات آج تسلیم کرنا مشکل ہوگیا ہے اس لئے کہ نجات کا سارا دارومدار قوم وملت اور گروہ بندی پر آکر ٹھہر گیا۔ گویا وہ چیز جو ایمان کے منافی تھی وہی عین ایمان قرار پائی۔ وہی جو زہر تھا تریاق مان لیا گیا۔ آپ کیا کریں ؟ وہی جو اللہ نے کرنے کا حکم دیا فرمایا ” جو کوئی اچھے کام کرے گا خواہ مرد ہو خواہ عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہوگا تو ایسے ہی لوگ جو جنت میں داخل ہوں گے اور رائی برابر بھی ان کے ساتھ بےانصافیہونے والی نہیں۔ “ چناچہ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہوہ مومن بھی ہو اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔ “ (النحل 16 : 90) اس آیت سے سارے گروہوں کے ان تمام کم نظر اور بےصبر لوگوں کی غلط فہمی دور ہوجانی چاہئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچائی ، دیانت اور پرہیزگاری کی روش اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت چاہے بن جاتی ہو مگر اس کی دنیا ضرور بگڑجاتی ہے ۔ جو لوگ حقیقت میں ایماندار اور پاکباز اور معاملہ کے کھرے ہوتے ہیں ان کی دنیوی زندگی بھی بےایمان ، بد عمل لوگوں کے مقابلہ میں صریحا بہتر رہتی ہے جو ساکھ اور سچی عزت اپنی بےداغ سیرت کی وجہ سے انہیں نصیب ہوتی ہے۔ جو ستھری اور پاکیزہ کامیابیاں ان کے حصے میں آتی وہ ان لوگوں کو میسر نہیں آتیں جن کی ہر کامیابی گندے اور گنھائونے طریقوں کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ وہ بوریا نشین ہو کر بھی قلب کے جس اطمینان اور ضمیر کی جس ٹھنڈک سے بہرہ مند ہوتے ہیں اس کا کوئی ادنیٰ سا حصہ بھی محلوں میں رہنے والے فساق وفجار نہیں پاسکتے دنیا کی ریل پیل ان کو خواہ کتنی ہی میسرآچ کی ہو لیکن بد اطمینانی کا شکار رہنا ان کا مقدر بن جاتا ہے جو ان کی ساری فراوانیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ مزید تشریح کے لئے سورة آل عمران 195 کی تفسیر دیکھیں جو اس جلد کی پچھلی سورت ہے۔ 204 نیک عمل کی دو صورتیں گئی ہیں ایک یہ انسان خود نیک عمل کرے اور دوسری یہ کہ نیک عمل کی دوسروں کو دعوت دے۔ یہ وہی کام ہے جو انبیاء (علیہم السلام) سر انجام دیتے رہے اور آج یہی وہ کام ہے جو خصوصا محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کے ذمہ لگایا گیا ۔ کیوں ؟ اس لئے نبوت کا وہ عہدہ خاص بند کردیا گیا ہے جس کے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا اور وہی زمہ داری اس امت وسطیٰ کے ذمہ ڈال دی گئی ۔ اس لئے ان کو اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ آگے کا درجہ جس سے زیادہ بلند کوئی درجہ انسان کے لئے نہیں ہے یہ ہے کہ تم خود نیک عمل کرو اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلائو اور شدید مخالفت کے ماحول میں بھی جہاں اسلام کا اعلان و اظہار کرنا اپنے اوپر مصائب کو دعوت دینا ہے ڈٹ کر کہو کہ میں مسلمان ہوں اس ارشاد کی پوری اہمیت سمجھنے کے لئے اس ماحول کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی تھی۔ وہ وتا وہ تھا کہ جو شخص بھی مسلمان ہونے کا اظہار کرتا تھا اسے یکا یک یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا اس نے درندوں کے جنگل میں قدم رکھ دیا ہے جہا ہو ایک اس کو پھاڑکھانے کو دوڑرہا ہے اور اس سے آگے بڑھ رکر جس نے اسلام کی تبلیغ کے لئے زبان کھو لی اس نے تو گویا درندوں کو پکار دیا کہ آئو اور مجھے پھاڑ کھائو اس لئے فرمایا گیا کہ بتائو اس سے بہتر کون ہے جس نے اپنے آپ کو صرف اللہ کا مطیع اور فرمانبردار ثابت کرنے کے لئے احسان کا درجہ کرلیا کہ خود بھی نیک عمل ہوا اور دوسروں کو بھی نیک عمل کی دعوت دی اور اس طرح اس نے وہی کچھ کیا جو اس کے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کا اسوئہ حسنہ تھا اور اس نے اسی ملت کے ساتھ وابستگی کا ثبوت دیا جو ملت ابراہیمی کہلاتی ہے اور ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہوا : ” اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس شخص کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور اعلان کیا کہ میں مسلمان ہوں۔ “ (حم السجدہ 14:33)
Top