Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 133
اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّهَا النَّاسُ وَ یَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى ذٰلِكَ قَدِیْرًا
اِنْ يَّشَاْ : اگر وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے اَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو وَيَاْتِ : اور لے آئے بِاٰخَرِيْنَ : دوسروں کو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي ذٰلِكَ : اس پر قَدِيْرًا : قادر
لوگو ! اگر وہ چاہے تو تمہیں ہٹا دے اور دوسروں کو لے آئے وہ بلاشبہ ایسا کرنے پر قادر ہے
لوگو ! غافل نہ ہو تم کو لے جا کر دوسروں کو لا بسانے کا قانون بھی اس کے ہاں موجود ہے : 217: غور کرو گے تو اپنے گھر ہی سے تم کو اس کی شہادت میسر آجائے گی دور جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس گھر میں جس میں آج تم بس رہے ہو اگر تم کو یہ ورثہ میں ملا ہے تو آخر کیو نکر ملا ہے۔ یہ وہی گھر ہے جو تمہارے باپ دادا نے بنایا تھا لیکن آج ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا اور آج تم اس کے مالک ہو۔ تم کو یقین نہیں آتا کہ کل تم نہیں ہو گے تو یہ گھر یہیں رہے گا لیکن اس کے مکین بدل چکے ہوں گے۔ یہی حال قوم زندگی کا ہے۔ انسان اپنی تاریخ کو غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کا سارا کارخانہ اندھا دھند چل رہا ہو بلکہ اس پر ایک سمیع وبصیر خدا فرمانروائی کر رہا ہے جو شکر کی راہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ایک معاملہ کرتا ہے اور ناشکری و کافر نعمتی کی راہ چلنے والوں کے ساتھ بالکل ہی ایک دوسرا معاملہ فرماتا ہے۔ کوئی سبق لینا چاہے تو اس تاریخ سے یہ سبق لے سکتا ہے کہ جس رب کریم کی سلطنت کا یہ مزاج ہے اس کی خدائی میں نیکی کا پورا پورا اور بدی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ قرآن کریم نے اس مضمون کو بار بار دہرایا ہے اور گزشتہ قوموں کا ذکر فرما کر مسلمانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ وہ غور فکر سے کام لیں اور اپنے انجام سے غافل نہ رہیں چناچہ ایک جگہ ارشادالٰہی اس طرح ہے کہ ” قوم سبا کے لئے ان کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی۔ دو باغ دائیں اور بائیں۔ فرمایا اپنے رب کا رزق کھائو اور اس کا شکر بجا لائو۔ دیکھو یہ کتنا عمدہ اور پاکیزہ ملک ہے اور رب کریم ہے بخشش عنایتفرمانے والا۔ مگر وہ منہ موڑگئے۔ آخر کار ہم نے ان پر بند توڑسیلاب بھیج دیا اور ان کے دائیں بائیں والے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دئے جن میں کڑوے کسیلے پھل اور جھائو کے درختوں کے سوا کچھ نہ تھا سوائے ان بیریوں کے۔ یہ گویا ان کے کر ہی کا بدلہ تھا جو ہم نے ان کو چکھایا اور ناشکرے انسانوں کے سوا ایسا بدلہ ہم اور کسی کو نہیں دیتے۔ “ (سباء 34:17) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سر کشی دکھائو گے۔ آخرکار جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا تو اے بنی اسرائیل ہم نے تمہارے مقابلے پر ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسیپورا ہو کر رہنا تھا۔ اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔ دیکھو ! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لئے بھلائی تھی اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لئے برائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہاے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد بیت المقدس میں اس طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسی تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کر کے رکھ دیں۔ “ (بنی اسرائیل 17:3 تا 7) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” مسلمانو ! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کے پھرجانے سے دین حق کو کچھ نقصان پہنچے گا قریب ہے کہ اللہ ایک ایسا گروہ سچے مومنوں کا پیدا کردے جنہیں اللہ دوست رکھتا ہو اور وہ بھی اللہ کو دوست رکھنے والے ہوں۔ مومنوں کے مقابلہ میں نہایت نرم اور جھکے ہوئے لیکن دشمنوں کے مقابلہ میں نہایت سخت۔ اللہ کی راہ میں جان لڑا دیں گے اور وہ کسی کی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جس گروہ کو چاہے عطا فرما دے اور وہ اپنے فضل میں بڑی ہی وسعت رکھنے والا اور سب کا حال جاننے والا ہے۔ “ (المائدہ 5 :54) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں ملک میں اس کا جانشین بنائے پھر دیکھے اس جانشین کے بعد تمہارے کام کیسے ہوتے ہیں ؟ “ (الاعراف 7:129) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : ” اگر تم قدم نہ اٹھائو گے تو یاد رکھو کہ وہ تمہیں ایک ایسے عذاب میں ڈالے گا جو درد ناک ہوگا اور تمہاری جگہ کسی دوسرے گروہ کو لا کھڑا کرے گا اور تم دفاع سے غافل ہو کر اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکو گے اپنا ہی نقصان کرو گا اور اللہ تو ہر بات پر قدرت رکھنے والا ہے۔ “ (التوبہ 9 :29) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” پھر اگر تم نے روگردانی کی تو جس بات کے لئے میں بھیجا گیا تھا وہ میں نے پہنچا دی اس سے زیادہ میرے اختیار میں کچھ نہیں اور مجھے تو نظر آرہا ہے کہ میرا پروردگار کسی دوسرے گروہ کو تمہاری جگہ دے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔ یقینا میرا پروردگار ہرچیز کا نگران حال ہے۔ “ (ھود 11 :57) ایک جگہ فرمایا : ” انسان کے آگے اور پیچھے ایک کے بعد ایک آنے والی قوتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ اللہ کبھی اس حالت کو نہیں بدلتا جو کسی گروہ کو حاصل ہوتی ہے جب تک کہ وہ خود ہی اپنی صلاحیت نہ بدل ڈالے اور پھر جب اللہ چاہتا ہے کسی گروہ کو اس کی تغیر صلاحیت کی پاداش میں مصیبت پہنچے تو مصیبت پہنچ کر ہی رہتی ہے وہ کسی کیٹالے ٹل نہیں سکتی اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس کا کارساز ہو۔ “ (الرعد 13:111) اگر مزید دیکنے کا شوق ہو تو مندرجہ ذیل مقامات کا قرآن کریم میں سے مطالعہ کریں ( سورة الکہف 18:32 ، 44) (68:17 تا 33) (78:28) (70:40 ، 41) (52:20 ، 21) (35:15 تا 17) (ابراہیم 14:19 ، 20) (24:55 ، 56) (الحج 22:39 ، 41) (محمد 47:38)
Top