Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 13
تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
تِلْكَ
: یہ
حُدُوْدُ
: حدیں
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَنْ
: اور جو
يُّطِعِ اللّٰهَ
: اللہ کی اطاعت کرے
وَرَسُوْلَهٗ
: اور اس کا رسول
يُدْخِلْهُ
: وہ اسے داخل کرے گا
جَنّٰتٍ
: باغات
تَجْرِيْ
: بہتی ہیں
مِنْ تَحْتِھَا
: ان کے نیچے
الْاَنْھٰرُ
: نہریں
خٰلِدِيْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
فِيْھَا
: ان میں
وَ
: اور
ذٰلِكَ
: یہ
الْفَوْزُ
: کامیابی
الْعَظِيْمُ
: بڑی
یہ اللہ کی حدبندیاں ہیں پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو اللہ اسے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ، وہ اس حالت میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی ہی کامیابی ہے جو انہیں حاصل ہو گی
جدہ یعنی دادی اور نانی کی میراث کا حال : فائدہ نمبر 1: عربی میں دادی نانی دونوں کو جدہ کہتے ہیں اس لئے شریعت میں ان دونوں کی میراث کا حال بالکل یکساں اور دونوں کا ایک ہی حصہ ہے۔ فائدہ نمبر 2ــ: دادی سے صرف باپ کی ماں مراد نہیں۔ بلکہ دادا کی ماں اور دادی کی ماں (یعنی باپ کی نانی) اور پڑدادا کی ماں اور پڑدادی کی ماں وغیرہ کو بھی شرعاً دادی اور جدہ کہتے ہیں اور یہ سب ذوی الفروض میں داخل ہیں۔ اس وجہ سے ایک شخص کے کئی کئی دادیاں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص کے دادا کی مان (یعنی پڑدادی) بھی موجود ہو اور دادی کی مان بھی اور دادی کی نانی بھی زندہ ہو۔ اسی طرح کئی پشت تک سلسلہ چل سکتا ہے۔ اگر ہم چار پشت تک شمار کرنے لگیں تو ہر ایک شخص کی پندرہ دادیاں نکل سکتی ہیں اور اگر اس سے زیادہ اوپر تک پشتوں میں شمار کریں تو تعداد بہت بڑھ جائے۔ جس طرح دادی سے صرف باپ کی ماں مراد نہ تھی ، نانی سے بھی صرف ماں کی ماں مراد نہیں بلکہ ماں کی نانی اور نانی کی نانی بھی عربی میں جدہ کہلاتی ہے اور ذوی الفروض وارثوں میں داخل ہیں۔ اسی وجہ سے ایک شخص کی چند نانیاں ہو سکتی ہیں مثلاً میت کی مان کی ماں بھی موجود ہو اور ماں کی نانی بھی۔ اس طرح اگر چار پشت تک شمار کریں تو ہر شخص کی پندرہ نانیاں ہو سکتی ہیں اور اگر اوپر تک زیادہ پشتوں کی نانیوں کا حساب لگائیں تو بڑھتی چلی جائیں گی۔ لیکن اس سب دادیوں اور نانیوں کی میراث پانے اور حصہ کی مستحق ہونے میں دو قاعدوں کا لحاظ ضروری ہے۔ قاعدہ نمبر 1: دادیاں اور نانیاں دو قسم کی ہیں صحیحہ اور فاسدہ۔ فاسدہ دادیاں اور فاسدہ نانیاں ذوی الفروض میں داخل نہیں بلکہ ذوی الارحام میں داخل ہیں۔ صحیح دادی وہ ہے جس کی میت کے ساتھ قرابت فاسد دادے کے واسطے سے نہ ہو جیسے باپ کی ماں ، دادے کی ماں ، پڑدادے کی ماں وغیرہ۔ صحیح نانیاں وہ ہیں جن کے رشتہ میں مرد کا علاقہ درمیان میں نہ ہو مثلاً ماں کی ماں ، نانی کی ماں ، پڑنانی کی ماں وغیرہ۔ پس فاسد دادیاں وہ ہیں جن کی میت کے ساتھ قرابت فاسد دادے کے واسطے سے ہو جیسے باپ کی ماں کے باپ کی ماں اور دادی کی ماں کی ماں کے باپ کی ماں اور پڑدادا کی ماں کے باپ کی ماں وغیرہ۔ فاسد نانیاں وہ ہیں جن کے رشتہ میں مرد کا علاقہ درمیان میں ہو جیسے ماں کے باپ کی ماں یا ماں کے دادا کی ماں وغیرہ۔ قاعدہ نمبر 2: اگر قریب درجہ کی دادی اور نانی موجود ہو تو بعید درجہ کی دادی اور انانی کو بالکل حصہ نہیں ملتا۔ مثلاً باپ کی ماں زندہ ہو تو دادا کی ماں کو کچھ نہیں ملے گا اور اگر باپ کی ماں مر گئی ہو تو دادا کی ماں کو ملے گا اور پڑدادا کی ماں کو کچھ نہیں ملے گا۔ اسی طرح اول پشت کی نانی موجود ہے تو دوسری اور تیسری اور چوتھی پشت کی نانیاں بالکل محروم رہیں گی اور اگر پہلی پشت کی نانی مر گئی ہو تو دوسری پشت کی نانی جو زندہ ہے وہ حصہ پائے گی۔ لیکن تیسرے اور چوتھے درجہ والی نانیاں اگر زندہ ہوں گی تو محروم رہیں گی کیونکہ ان سے قریب والی زندہ اور موجود ہے۔ دادی اور نانی کی چھ حالتیں ہیں (1) میت کے ترکہ کا صرف چھٹا 1/6 حصہ ملتا ہے خواہ ایک دادی ہو یا ایک نانی ہو یا دو تین دادیاں یا نانیاں ہوں یا کچھ دادیاں اور کچھ نانیاں ہوں بشرطیکہ سب ایک ہی درجہ (ایک ہی پشت) کی ہوں۔ ورنہ قریب کے سامنے بعید کو کچھ نہیں ملتا۔ مثلاً دادی دوسری پشت کی ہے اور نانی تیسری اور چوتھی پشت کی ہے تو یہ دادی کے ساتھ شریک نہ ہوں گی اور اسی طرح نانی دوسری پشت کی ہے اور دادی تیسری یا چوتھی پشت کی تو دادی محروم رہے گی۔ کیونکہ دادیوں اور نانیوں میں جو قریب ہوتی ہے وہ حصہ پاتی ہے اور جو بعید ہوتی ہے وہ محروم رہتی ہے۔ (2) اگر میت کی ماں موجود ہو تو تمام دادیاں اور نانیاں بالکل محروم رہتی ہیں۔ (3) اگر میت کا باپ موجود ہو تو تمام دادیاں بالکل محروم رہتی ہیں (نہ نانیاں) ۔ (4) اگر میت کے دادا موجود ہو تو بھی صرف دادیاں محروم رہتی ہیں لیکن باپ کی ماں اور باپ کی نانی اور باپ کی ماں کی نانی اور باپ کی نانی وغیرہ دادا کے سامنے محروم نہیں رہتیں کیونکہ میت کے ساتھ ان کی قرابت دادا کے واسطے سے نہیں ہے۔ (5) قریب درجہ کی دادیاں اور نانیاں بعید درجہ کی دادیوں اور نانیوں کو محروم کردیتی ہیں خواہ قریب درجہ کی نانیاں اور دادیاں وارث ہوں یا محروم ہوں۔ (6) اگر کوئی دادی یا نانی ایسی ہو کہ وہ میت سے دوہرا رشتہ اور قرابت رکھتی ہو اور اسی درجہ اور اسی پشت کی کوئی دادی یا نانی صرف اکہرا رشتہ رکھتی ہو تو اس مسئلہ میں اختلافات ہے۔ عصبات کا بیان عصبات تسبیہ کی تین قسمیں ہیں (1) عصبہ بنفسہ (2) عصبہ بغیرہ (3) عصبہ مع غیرہ عصبہ بنفسہ وہ ہے جو مرد ہو اور اس کی میت کے ساتھ قرابت کسی عورت کے واسطے سے نہ ہو اور ان کے چار درجے ہیں۔ (1) میت کا جزء (یعنی اس کی نسل) جیسے بیٹا ، پوتہ ، پڑپوتہ ، سکڑپوتہ اسی طرح نیچے تک سلسلہ چل سکتا ہے۔ (2) میت کے اصل جیسے باپ ، دادا ، پردادا ، سکڑدادا ، اسی طرح اوپر تک سلسلہ چل سکتا ہے۔ (3) باپ کا جزء (یعنی باپ کی نسل) بھائی ، بھتیجے کا بیٹا (یعنی بھائی کا پوتہ) بھتیجے کا پوتہ۔ اسی طرح باپ کی نسل میں سلسلہ نیچے چلا جائے۔ (4) دادا کے جزء (دادا کی نسل) اور پھر ان کی اولاد در اولاد جیسے چچا ، چچا کا بیٹا ، چچا کا پوتہ ، چچا کا پڑپوتہ۔ پھر عصبہ بنفسہ کے ان چار درجوں میں تین امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ (1) عصبہ بنفسہ کے ان چار درجوں میں سے جب اول درجہ کے عصبات موجود ہوتے ہیں تو دوم ، سوم اور چہارم درجہ کے عصبوں کو کچھ نہیں ملتا اور درجہ دوم کی موجودگی میں درجہ سوم اور چہارم محروم رہیں گے اور درجہ سوم کے سامنے درجہ چہارم محروم ہوجائیں گے جیسے درجہ اول کے عصبات میں سے اگر کوئی ذرا سا بچہ بھی موجود ہو تو دادا عصبہ نہ رہے گا اور دادا کی موجودگی میں بھتیجے کو کچھ نہیں ملے گا اور بھتیجے کی موجودگی میں دادا کی اولاد محروم رہے گی اور جب پہلے تین درجوں میں سے کوئی نہ ہوگا تب جا کر دادا کی اولاد وارث بنے گی۔ (2) اوپر کی طرح ہر ایک درجہ کے وارثوں میں بھی باہم فرق ہے جو ان میں سے زیادہ قریب ہوگا وہی حقدار ہوگا۔ جو لوگ بنسبت اس کے بعیدد ہوں گے وہ محروم رہ جائیں گے۔ مثلاً ایک شخص کے بیٹا بھی موجود ہے پوتہ بھی تو بیٹا چونکہ سب سے قریب ہے سب مال وہی لے گا۔ پوتہ پڑپوتے محروم رہ جائیں گے۔ (3) ہر ایک درجہ کے وارثوں میں میت کے برابر قریب ہونے کے باوجود قوت قرابت سے ترجیح دی جائے گی (یعنی دو قرابت والا ایک قرابت والے سے مقدم ہے خواہ مرد ہو یا عورت) جیسے جب حقیقی بھائی موجود ہو تو علاقی بھائی اور علاقی بہنیں محروم رہیں گے۔ اور جب حقیقی بہن میت کی بیٹی کے ساتھ عصبہ ہو علاقی بھائی سے اولیٰ ہے اور حقیقی بھائی کا بیٹا علاقی بھائی کے بیٹے سے اولیٰ ہے اور اسی طرح میت کے چچوں پھر میت کے باپ کے چچوں پھر میت کے دادا کے چچوں میں حکم کیا جائے گا۔ عصبہ بغیر وہ چار عورتیں ہیں جو ذوی الفروض میں سے ہیں اور ان کو 1/2 اور 2/3 مال ملتا ہے لیکن اپنے بھائیوں کے ساتھ آنے کی وجہ سے عصبہ بن جاتی ہیں۔ ان کا بیان ذوی الفروض میں گزر چکا ہے وہ چار عورتیں یہ ہیں (1) ایک بیٹی یا ایک سے زیادہ (2) ایک پوتی یا ایک سے زیادہ (3) حقیقی بہن (4) علاتی بہن۔ فائدہ : یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عورتوں میں سے جو ذوی الفرائض سے نہیں ہے اور اس کا بھائی عصبہ ہے وہ عورت اپنے بھائی کے ساتھ مل کر عصبہ نہیں بنتی جیسے چچا اور پھوپھی۔ کل مال چچا کے لئے ہے نہ پھوپھی کے لئے۔ عصبہ مع غیرہ وہ عورت ہے جو دوسری عورت کے ساتھ مل کر عصبہ بن جائے۔ جیسے بہن بیٹی کے ساتھ عصبہ ہوتی ہے۔ اس کا بیان بھی ذوی الفروض میں گزر چکا ہے۔ باب الحجب (گزشتہ اسباق کا اعادہ) جو کچھ اوپر بیان کیا گیا اس میں تھوڑا فکر کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بعض وارث ایسے ہیں جن کو ہر حالت میں کچھ نہ کچھ میراث سے حصہ ملتا ہے۔ ایسے وارث چھ ہیں ۔ (1) بیٹا (2) باپ (3) شوہر (4) بیوی (5) بیٹی (6) ماں۔ اور بعض وارث ایسے ہیں جن کو دوسرے وارث کی وجہ سے کم حصہ ملتا ہے اگر وہ وارث نہ ہوتا تو ان کو زیادہ ملتا۔ ایسے وراث پانچ ہیں (1) شوہر (2) بیوی (3) ماں (4) پوتی (5) علاتی بہن۔ اور بعض وارث ایسے ہیں جو ایک حال میں وارث ہوتے ہیں اور دوسرے حال میں ان کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ ان کا ایک حال میں وارث ہونا اور دوسرے حال میں محروم ہونا دو قاعدوں پر مبنی ہے۔ پہلا قاعدہ : یہ ہے کہ ہر وہ شخص کہ جس کا نسب میت کی طرف کسی شخص کے واسطے پہنچنا ہے تو وہ آدمی اس شخص کے موجود ہوتے ہوئے وارث نہ ہوگا بجز اخیافی بھائی بہنوں کے۔ وہ مال کے موجود ہوتے ہوئے بھی میت کے وارث بنتے ہیں۔ کیونکہ میں کسی بھی حالت میں میت کے پورے مال کی حقدار نہیں بن سکتی۔ دوسرا قاعدہ : یہ لے کہ جب تک اوپر کے درجہ والے موجود ہون گے نیچے درجہ والے محروم رہیں گے (یعنی) قریب تروارث بعید تروارث کو میراث سے روک دیتا ہے۔ اب یہ بات خیال میں رکھنی چاہئے کہ وہ وارث جو دوسرے وارث کی موجودگی کی وجہ سے میراث سے محروم ہوجاتا ہے کیا وہ دوسرے وارث کو کچھ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے یا نہیں تو اس کی جواب یہ ہے کہ وہ دوسرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جیسے ایک شخص فوت ہوگیا اور ان نے اپنا باپ اور ماں اور دو بھائی چھوڑے تو دونوں بھائیوں کو باپ کی وجہ سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن وہ ماں کا حصہ تہائی حصہ 1/3 سے کم کر کے چھٹا حصہ 1/6 دیں گے۔ اور یہ بات بھی خیال میں رکھنی چاہئے کہ جو لوگ دوسرے وراث کی موجودگی کی وجہ سے میراث سے محروم نہیں بلکہ اپنے کردار کی وجہ سے میراث سے محروم ہیں جیسے کافر یا غلام بیٹا باپ کا وارث نہیں بن سکتا اور جس نے اپنے مورث کو قتل کیا وہ بھی اس کا وارث نہیں بن سکتا۔ ابھی یہ اشخاص ہمارے نزدیک دوسرے وارثوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے نہ دوسرے کو میراث سے بالکل محروم کرسکتے ہیں اور نہ اس کا کچھ حصہ گھٹا سکتے ہیں۔ گویا کہ وہ پیدا ہی نہیں ہوئے یا پہلے ہی مر چکے ہیں۔ لیکن عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک دوسرے وارث کا حصہ گھٹا سکتے ہیں۔ بالکل محروم نہیں کرسکتے۔ جیسے ایک مسلمان عورت فوت ہوگئی اور اس نے مسلمان شوہر اور دو مسلمان اخیافی بھائی (یعنی ماں کی جانب سے بھائی) اور ایک کافر بیٹا اور ایک چچا زاد بھائی چھوڑا تو عبداللہ بن مسعود ؓ اور دوسرے اصحاب میں اختلاف پایا جاتا ہے جس کی مثالیں کتاب میراث میں ملیں گی۔ پوتے کی میراث کا مسئلہ جو خواہ مخواہ ایک اختلافی مسئلہ بنا لیا گیا ملک عزیز میں ایک خاص طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو بظاہر پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ ساتھ احادیث سے یا توکلی طور پر بیزار ہوچکا ہے۔ یا جزوی طور پر حالانکہ احادیث سے بیزاری درحقیقت رسالت اور خصوصاً محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت سے بیزاری کے مترادف ہے جو ایک مسلمان کے شایان شان نہیں بلکہ دین اسلام سے انحراف ہی کا دوسرا نام ہے۔ بظاہر صورت اس کی یہی ہے لیکن چونکہ ان کی اکثریت ناواقفی اور عدم علم کی وجہ سے اس کی شکار ہے جس کا اصل سبب کتب احادیث کے تراجم ہیں جو بدقسمتی کی بناء پر ہمارے ہاں رواج پا چکے ہیں۔ اکثر و بیشتر تراجم بالکل غلط ہیں اور بعض جگہوں پر صحیح تفہیم کے محتاج ہیں۔ حقیقت میں یہی صورت قرآن کریم کے تراجم کے ساتھ بھی ہوئی اگرچہ وہ احادیث کی نسبت کم تھی اور یہ بھی کہ ذخیرہ احادیث قرآن کے مقابلہ میں بہت زیادہ وسیع تھا اور قرآن کریم کی طرح حتمی اور وحی جلی بھی نہیں تھا۔ اس طبقہ کے لوگ چونکہ زیادہ تر انگریزی خواں ، اردو ادب سے دلچسپی رکھتے تھے۔ اور عربی اور خصوصاً عربی محاورات ، ضرب الامثال ، استعارات اور تمثیلات سے کلی طور پر ناواقف تھے اس لئے ان کا اس غلطی کا شکار ہونا ممکن تھا۔ پھر جب ایک بار کسی چیز کی اہمیت دل سے اٹھ جاتی ہے تو اٹھتی ہی چلی جاتی ہے اور جب زبان بھی اس کے خلاف استعمال ہونا شروع ہوجائے گی اس میں درستی اور صحت کے امکانات مزید کم سے کم تر ہوجاتے ہیں اور یقینا یہاں بھی یہ سب کچھ ہوا۔ جن مسائل میں اس غلطی کی بناء پر شدت سے اختلاف ہوا ان ہی میں ایک مسئلہ پوتے کی میراث کا بھی ہے۔ جن خطوط پر اس کا تجزیہ کرنا چاہیے تھا ان خطوط پر نہیں کیا گیا اور پھر جب ایک بار ریل پٹری سے اتر جائے تو جو نتیجہ اس کا ہوتا ہے وہی کچھ یہاں بھی ہوا لیکن چونکہ ریل کا پٹری سے اتر جانا ایک مشاہدہ کی بات ہے اور یہ نظریات کا مسئلہ ہے اس لئے اس تباہی کو سمجھنا بہت حد تک مشکل امر ہے۔ یہاں فن میراث سے متعلق نظام اسلامی کے چند اجماعی اصول ذکر کئے جاتے ہیں اور خصوصاً وہی اصول جن کا مسئلہ زیر بحث کے ساتھ ایک گہرا تعلق وابسطہ ہے۔ آخر میں اس غلطی کی طرف بھی اشارہ کردیا جائے گا جس کی وجہ سے ایسا ہوا اور اس کا اسلامی حل بھی جو ہم سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک قانون بن جانے کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم ہی ہوتی ہے اور بےسوچے سمجھے جذبات میں کئے گئے فیصلے ہمیشہ غلط ہی ہوتے ہیں اور اس ملک عزیز میں آج تک جو کچھ ہوا وہ ججذبات ہی کی رو میں ہوا جس میں سوچ سمجھ کا عنصر بہت کم تھا۔ پھر تعجب تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ وہاں بھی ہوا جہاں عقل ، عقل اور پھر عقل کی گردن جاری تھی۔ اس لئے عقل بھی اس بےعقلی کی بھینٹ چڑھ گئی جس کی اکثریت پہلے ہی شکار تھی۔ اصل اول : اسلام بلکہ ہر مذہب و ملت میں میراث کی تقسیم کا معیار ضرورت و حاجت یا لیاقت یا قائم مقامی یا یتیم اور قابل رحم ہونے پر نہیں بلکہ یہ حق جس بنیاد پر قائم ہوتا ہے وہ قرابت ہے ورنہ اگر ضرورت و حاجت پر مدار ہوتا تو ہر شخص کے مرنے کے بعد اس کے مالدار بیٹے ، پوتے ، باپ ، دادا ، بیوی ، بھائی و بہن وغیرہ سب محروم رہتے اور بستی کے فقراء و مساکین اور یتیم وارث بنتے ، نیز وصی بھی قائم مقام ہونے کی وجہ سے وارث ہوتا ، یہ اصل مسلمات عقلیہ اور اجماعی و جملہ مذاہب میں متفق علیہ ہونے کے ساتھ قرآن مجید کی نصوص صریحہ سے بھی ثابت ہے۔ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاقْرَبُوْنَ اور دوسری تمام متعلقہ آیات میں اس کی تصریح ہے۔ اصل دوم : جب وارث کا مدار رشتہ و قرابت پر ہے تو ساری دنیا اولاد آدم ہونے کی وجہ سے آپس میں رشتہ و قرابت کا تعلق رکھتی ہے حالانکہ ساری دنیا کو حق وراثت کا دلانا نہ ہی عقلاً ممکن ہے اور نہ کسی مذہب میں اسے قابل عمل سمجھا گیا ہے۔ لہٰذا ” الاقرب فالا قرب “ کا قانون سامنے آتا ہے۔ یعنی درجہ قرابت میں جو لوگ مقدم ہیں وہ موخرین کو کلیتہ یا جزئً محروم کردیں گے۔ جو لوگ اصولاً وارث ہوتے ہیں ان میں درجہ قرابت کے تفاوت کی وجہ سے سہام متفاوت ہوں گے استحقاق ارث میں و قرب و بعد کا تفاوت مندرجہ ذیل دلائل سے ثابت ہے۔ (1) یہ تفاوت مسلمات جملہ مذاہب میں سے ہے۔ عقلی طریق سے اس کا واجب العمل ہونا اوپر بیان ہوچکا ہے۔ (2) مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاقْرَبُوْنَ میں ” اَقْرَبُوْنَ “ کا لفظ۔ (3) علاقہ بنوت میں زیادہ ہونے کی وجہ سے والدین کو خاص طور پر اقربون سے جد ذکر کرنا۔ (4) وَاُوْلُوْ الْاَرْحَام ِ بَعْضُھُمْ اَوْلیٰ بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللہِ ۔ (5) اجماع امت پھر قرب و بعد کے لحاظ کی دو صورتیں ہیں۔ (الف) حجب نقصان یعنی قریب کو زیادہ اور بعید کو کم حصہ ملے۔ (ب) حجب حرمان یعنی قریب کی موجودگی میں بعید بالکل محروم رہ جائے۔ ذی الفروض میں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں۔ احکم الحاکمین نے ذو الفروض کے سہام معین کرتے وقت اپنی حکمت سے قریب کی موجودگی میں بعید کو کلاً یا جزئً محروم کردیا ہے چناچہ قرب و بعد کے لحاظ سے وارثوں کو تین مراتب پر تقسیم کردیا گیا ہے۔ (1) ذوی الفروض (2) عصبات (3) ذوی الارحام اور پھر ہر مرتبہ میں قرب و بعد کے لحاظ سے تین درجات ہیں۔ (1) جزء میت (2) اصل میت (3) جزء اصل میت عصبات و ذوی الارحام کے متعلق یہ تقسیم مشہور اور کتب متداولہ میں مذکور ہے لہٰذا ہم یہاں صرف ذوی الفروض کو تین درجات پر تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا درجہ : (جزء میت) اس میں بیٹی اور پوتی اور خاوند و بیوی ہیں کیونکہ زوجین میں ولد کی وجہ سے علاقہ جزئیت پیدا ہوجاتا ہے۔ دوسرا درجہ : (اصل میت) ماں ، باپ ، دادا ، دادی اور نانی پر شامل ہے۔ تیسرا درجہ : (جزء اصل میت) بہن و بھائی خیفی ، بہن عینی اور علاتی پر حاعی ہے دوسرے درجہ میں سے ماں کا حصہ 1/2 پہلے درجہ میں سے بیوی کا حصہ سے 1/4 زائد رکھنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بیوی میں علاقہ جزئیت من کل الوجوہ نہیں ہے ، نیز ماں کا حق پرورش ملحوظ ہے اور درجہ سوم میں سے اگرچہ بہن عینی و علاتی کا حصہ 1/2 درجہ دوم میں سے ماں کے حصہ 1/3 اور جدہ کے حصہ 1/6 سے زیادہ ہے مگر یہاں ماں اور دادی و نانی کے قرب کا اس طرح لحاظ رکھا گیا ہے کہ بہت سے وارث بہنوں کو بالکل محروم رک دیتے ہیں۔ ماں اور جدہ کو محروم نہیں کرتے۔ ماں کسی حالت میں بھی محروم نہیں اور نانی صرف ماں کی موجودگی میں اور دادی ماں یا باپ کی موجودگی میں محروم ہوتی ہے۔ اس صورت کے علاوہ دوسری کسی حالت میں بھی جدہ محروم نہیں۔ علاوہ ازیں ماں کا حصہ 1/6 سے کبھی بھی کم نہیں ہوتا اور اخوات جب زیادہ ہوں تو ہر ایک کا حصہ 1/6 سے کم بھی ہو سکتا ہے۔ نیز ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ کسی خاص جزئی میں کوئی پیچیدگی پیدا ہوجانے کی وجہ سے قانون کو چھوڑ دینا نادانی ہے۔ غرضیکہ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان تینوں درجات میں اور اسی طرح ہر ایک درجہ وارثوں میں قدرت نے قرب و بعد کا لحاظ رکھا ہے۔ ممکن تھا کہ انسان کی نظر قاصر کسی خاص صورت کو اس کے خلاف سمجھنے لگے۔ لہٰذا ارشاد ہوا اٰبِاؤکُمْ وَاَبْنَائُکُمْ لَا تَدْرُؤنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعاً حاصل یہ کہ ذوی الفروض میں سے قریب بعید کو کلاً یا جزئً محروم کردیتا ہے۔ اول کو حجب حرمان اور دوم کو حجب نقصان کہا جاتا ہے۔ عصبات میں صرف حجب حرمان ہوتا ہے۔ حجب نقصان ممکن نہیں کیونکہ عصبات کا کوئی حصہ معین نہیں کہ قریب کی وجہ سے بعید کا حصہ ناقص ہوجائے۔ عصبات کا حصہ معین نہ ہونے پر مندرجہ ذیل دلائل ہیں۔ (1) قرآن یا حدیث میں عصبات کا کوئی حصہ معینہ مذکور نہیں۔ حالانکہ قرآن میں ذوی الفروض کے حصص نہایت وضاحت اور بسط کے ساتھ مفصل بیان کئے گئے ہیں۔ (2) یوصیکم اللہ فی الولا دکم للذکر مثل حظ الانیثیین۔ (3) فان الم یکن الہ ولاد وورثہ ابواہ فلا مہ الثلث میں باپ کا حصہ معین نہ کرنا۔ (4) ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدان والاقربون۔ حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد (رح) ، اور قتادہ (رح) ، سے روایت ہے کہ یہاں موالی سے عصبات مراد ہیں۔ (احکام القرآن للبحصاص ج :2 ص : 223) (5) حدیث من ھات و ترک مالا فمالہ للموالیٰ لعصبۃ (احکام القرآن جلد : 2 صفحہ ، 224) (6) عن اب عباس ؓ عن النبی ﷺ قال الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فھولا ولی رجل ذکر (بخاری کتاب الفرائض) (7) ما احرزا الوالد والولد فھو لعصبتہ من کان ۔ (8) فایکا مومن ترک مالا فلیرثہ عصبتہ من کانوا (بخاری کتاب التفسیر) (9) واجعلوا الا خوات مع البنات عصبۃ (بخاری) (10) اجماع امت غرضیکہ عصبات میں قرب و بعد کا لحاظ اس طرح ہو سکتا ہے کہ قریب کی موجودگی میں بعید بالکل محروم ہے۔ بخاری کی روایت مذکورہ ” الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فھولا ولی رجل نکر بھی صراحتہً اس کی مثبت ہے حقیقی عصبہ صرف مرد ہی ہیں بہن اپنے بھائی کے ساتھ ضمناً عصبہ بن جاتی ہے۔ لقولہ تعالیٰ للذکر مثل حظ الانثیین اور بیٹی کے ساتھ بہن کا عصبہ ہونا صرف حدیث پر مبنی ہے۔ عصبات کی طرح ذوی الارحام کا بھی کوئی حصہ معین نہیں۔ بلکہ ذیل کے دلائی سے بلحاظ قرب و بعد مطلقاًً استحقاق ثابت ہے۔ (1) واولاو الارحام بعضھم اولی ببعضٍ فی کتاب اللہ۔ (2) للرجال نصیب مما ترک الوالد ان والا قربون و للنساء نصیب مما ترک الوالدان والا قربون لفظ اقربون میں قرابت کا ہر درجہ داخل ہے خصوصا لفظ للنساء سے ذوی الارحام کے استحقاق کی زیادہ وضاحت ہوگئی۔ (3) الخال وارث من لا وارث لہ (بخاری) (4) التمسوا لہ وارثا اوذارحم (ابوداؤد) اصل سوم : کوئی شخص کسی شخص کی زندگی میں اس کا وارث نہیں ہو سکتا بلکہ مرنے کے بعد استحقاق وراثت ہوتا ہے۔ یہ اصل مندرجہ ذیل دلائل سے ثابت ہے۔ (1) عقل سلیم چناچہ جملہ ادیان کا اس اصل پر اتفاق ہے۔ (2) قانون وارثت سے متعلق نصوص قرآنیہ میں مما ترک مما ترکن مما ترکتم کے الفاظ بار بار وارد ہیں یعنی قانون وراثت کی بحث کا موضوع ہی تقسیم ترکہ ہے نہ کوئی مال کسی کی زندگی میں ترکہ ہو سکتا ہے اور نہ اس مال میں بحثیت وارث کسی کا حق پیدا ہو سکتا ہے۔ (3) ان امرو ھلک لیس لہ ولد اخت ( سورة نساء) اس میں پوری وضاحت ہے کہ قرباء کے استحقاق وراثت کا سوال مورث کے مرنے پر ہی پیدا ہوتا ہے زندگی میں نہیں غرضیکہ یہ اصل بھی قطعی ہے کہ کسی کی زندگی میں کوئی دوسرا اس کا وارث قرار نہیں پا سکتا بلکہ اس کے مرنے کے بعد وراثت کا حق پیدا ہوتا ہے۔ برطانوی قانون وراثت میں بھی یہ اصول اس طرح زیر عمل ہے۔ اصل چہارم : ترکہ میں حق وراثت صرف زندہ وارثوں کا ہوتا ہے۔ مورث سے پہلے مر جانے والے ورثاء کو سرے سے محسوب ہی نہیں کیا جاتا۔ غور کیجئے کہ قانون میراث سے متعلق آیات میں یہ الفاظ ہیں لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ ۔ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ ۔ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ۔ فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ ۔ وَ اِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً ۔ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۔ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ ۔ فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ ۔ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ ۔ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌوَّ لَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ ۔ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَہٗٓ اُخْتٌ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہَا وَلَدٌ فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَھُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ۔ وَ اِنْ کَانُوْآ اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآئً ۔ کیا یہ الفاظ مردہ اور زندہ سب لوگوں کو شامل ہیں ؟ کیا یہ بات صرف زندہ وارثوں کی ہے یا کہ مردوں کی بھی ؟ مذکورہ آیات کے ٹکڑوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیجئے کہ ” اگر فلاں رشتہ دار ہو “ سے یہ مدعا نکالا جاسکتا ہے کہ کبھی پہلے موجود رہا ہو یا ” فلاں رشتہ دار نہ ہو۔ “ سے یہ مفہوم بھی پیدا کی جاسکتا ہے کہ اس قسم کا رشتہ دار سرے سے پیدا ہی نہ ہوا ہو ؟ اگر کوئی اس کا مدعی ہو تو ہم اسے عربی زبان و ادب سیکھنے پر توجہ دلائیں گے۔ آج تک کوئی ایک فرد بھی دور نبوی ﷺ سے لے کر ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے اس انوکھے اجتہادی مفہوم کی گنجائش کہیں ڈھونڈ نکالی ہو۔ اگر اس پر بھی نشہ اجتہاد نہ اترے تو ہم ذیل کی نصوص سامنے رکھ کر پوچھیں گے کہ ان پر آپ کا مفہوم کس طرح منطبق ہو سکے گا۔ (1) وان کان رجل یورث کلالتہ او امراۃ ولہ اخ اواخت کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا نہ باپ زندہ ہو نہ بیٹا۔ تو کیا یہاں یہ تصور کیا جاسکتا ہے۔ کہ کوئی شخص بےباپ کے پیدا ہوا ہو۔ ظاہر ہے کہ باپ تھا اور مر گیا لہٰذا اس کے وارث ہونے کا سوال خارج از بحث ہے۔ (2) وان لم یکن لہ ولد وورثہ ابواہ فلامہ الثلث کیا والدین مردہ ہونے کی صورت میں بھی وارث ہوں گے اور مردہ ماں بھی حصہ حاصل کرے گی ؟ (3) حدیث ” الخال وارث من لا وارث لہ “ (ابو داؤد) کیا ” من لا وارث لہ “ سے یہ مراد ہے کہ سرے سے اس کا کوئی وارث پیدا ہی نہ ہوا ہو یا یہ مطلب ہے کہ ماموں کے سوا کوئی دوسرا وارث زندہ نہ ہو ؟ نیز کیا خال سے مراد ایسا خال بھی لیا جاسکتا ہے جو مورث سے پہلے فوت ہوگیا ہو۔ (4) عن بریدہ ؓ ان النبی ﷺ جعل اللجدہ السدس اذا لم تکن دونھا ام (ابوداؤد) کیا ” ان الم تکن دونھا ام “ سے یہ مراد لیا جاسکتا ہے کہ سرے سے ماں ہی نہیں ؟ یا کہ صاف صاف یہ مطلب ہوگا کہ ماں تو تھی لیکن مورث سے پہلے مر گئی۔ (5) اگر قریبی رشتہ دار کو مرے کے بعد بھی مستحق وارثت سمجھا جائے تو چاہیے کہ دنیا میں کوئی شخص بھی کسی کا وارث نہ ہو۔ کیونکہ مرنے کے بعد مورث کا نفس اس کی طرف سے سب سے زیادہ اقرب ہے لہٰذا مورث خود اپنے مال کا مستحق ہوگا۔ پس اس معاملہ میں پوری امت متفق ہے کہ وارثت کے حق کی بحث کا تعلق صرف ان ورثاء سے ہے جو مورث کی موت کے وقت زندہ ہوں۔ مورث سے پہلے مرنے والوں کا کسی قسم کا استحقاق شریعت اسلامی کے نظام قانون میں نہیں پایا جاتا۔ اس طرح کے غیر عقلی استحقاق کی مثال صرف ہندوانہ رواجی قانون میں ہے۔ اب اگر کسی کو یہ ہندوانہ قانون پسند ہو تو سرے سے شریعت کو چھوڑ کر اسے اختاکر کرسکتا ہے لیکن اس ہنداوانہ رواجی قانون کے اجزاء کو لا کر شریعت کے قانون میں پیدند نہیں دے سکتا۔ مندرجہ بالا اصول دلائل عقلیہ اور نصوص قرآنیہ و احادیث صریحہ اور اجماع امت سے ثابت ہونے کی وجہ سے قطعی ٹھوس و اٹل ہیں کہ ان میں ذرہ برابر بھی اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا ہر ایسا اجتہاد جو مذکورہ اصول میں سے کسی اصل سے ٹکراتا ہو اباطل اور ناجائز ہے۔ پس اب ہم ان صورتوں کا تجزیہ کرتے ہیں جو یتیم پوتے کو حصہ دلوانے کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔ صورت اول : پوتا زیادہ صاحب ضرورت اور حاجت مندو قابل رحم ہے اور بعض وفعہ چچا کی بہ نسبت زیادہ خدمت گزار یا لائق ہوتا ہے۔ یہ صورت اصل اول سے ٹکراتی ہے۔ یعنی وارثت کا استحقاق ضرورت ، حاجت اور قابل رحم ہونے یا خدمت و لیاقت پر مبنی نہیں بلکہ اس کا معیار قرابت و رشتہ داری پر ہے۔ پوتے کی میراث کے قائل شاذو نادر کسی خاص صورت میں جزبہ رحم کی وجہ سے قرآن کے قطعی اصل کو ٹھکرا دینا چاہتے ہیں۔ تفصیلی جزئیات میں بہت سے مواقع رحم پائے جاتے ہیں۔ مثلا زوجہ مفقود عدۃ ممتدۃ الطہر ، منکوحہ صغیر ، مطلقہ ثلث وغیرہ صورتوں میں بعضض دفعہ عورت غریب و مسکین ہوتی ہے اور اس کا کوئی حصہ دار یا کفیل بھی موجود نہیں ہوتا۔ خود میراث میں بھی اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جن کی وجہ سے اگر معاذ اللہ حدیث اور اجماع کا انکار بھی کردیا جائے تو قرآنی قانون میں بھی ایسی صورتوں سے نجات نہیں۔ مثلاً اولاد نرینہ (خواہ پڑپوتا ہی ہو) کی وجہ سے بہن عینیہ محروم ہوجاتی ہے۔ خصوصاً ججب کہ یہ بہن بیوہ ہو۔ عیال رکھتی ہو۔ اس کے خاوند نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہو۔ ایسے ہی وہ نواسی جس کی والدہ اپنے والد کی زندگی میں فوت ہوگئی ہو۔ ایسی صورتوں میں بھی آپ کا جذبہ رحم ابھر آئے گا۔ اور آپ کہیں گے کہ خدا کا قانون ایسا بےمہر نہیں ہو سکتا۔ حضور اکرم ﷺ بیواؤں اور رانڈوں کے ملجا و ماویٰ تھے غرضیکہ نہ صرف میراث میں بلکہ نکاح ، طلاق ، رضاعت ، کفالت وغیرہ میں بھی آپ کو کئی جزئیات مواقع رحم نظر آئی گی۔ پس اگر آپ کے جذبہ رحم کو کھلی اجازت دے دی جائے تو یہ جذبہ قطعی اصول کو توڑ پھوڑ کر سارے نظام اسلامی کو درہم برہم اور قانون کے ڈھانچہ کو پاش پاش کر دے گا۔ منکرین حدیث یہ نہیں سوچتے کہ اولاً یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ فیصدی کتنی صورتوں میں پیش آتا ہے اور پھر کتنی صورتوں میں پوتا خود بالغ اور کاروبار میں مستقل آمدنی کا مالک ہوتا ہے یا اپنے والد سے ملا ہوا کافی ترکہ رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں دادا اپنی زندگی میں جس قدر چاہے یتیم پوتے کو دے سکتا ہے بلکہ قرآن و حدیث نے جا بجا اس کی ترگیب دی ہے اور ساتھ اہی خاندانی قرابت کے جذبات بھی اس کے موید کی نظر رحم صرف یتیم پوتے پر ہی مرکز ہے۔ اس طرف قطعاً توجہ نہیں جاتی کہ انتقال اراضی کے وقت بھائی اپنی بہنوں سے اور بیٹے اپنی والدہ تک سے دستبرداری کے بیان دلا دیتے ہیں اور رشوت خور افسر موقع غنیمت سمجھ کر سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ اگر آپ میں ایسا ہی جذبہ رحم موجزن ہے تو ایسی باچاری ماؤں اور بہنوں کے متعلق کیوں قانون پاس نہیں کرواتے ؟ حالانکہ مستورات کے حقوق کی حفاظت کے متعلق ارشاد ہے للنسا نصیب مما تراک الوادلد ان والاقربون قرآن کریم میں ہر جگہ مردوں کے احکام میں ہی ضمناً عورتوں کو بھی داخل کردیا گیا ہے۔ مگر یہاں اہتمام کے لئے عورتوں کا حکم مستقل بیان فرمایا اور پھر مزید تاکید کے لئے نصیب منہ کی بجائے نصیب مما ترک الوالد ان والا قربون کو مکرر لایا گیا پھر نصیبا مفروضا سے واضح کردیا کہ مستحق کو اس کا حصہ معینہ بکمالہا دینا فرض ہے۔ نیز اس میں اس پر بھی دلیل ہے کہ وارث اگر اپنا حصہ نہ لے یا بری کر دے تبھی اس کا حق ساقط نہیں ہوتا مذکورہ آیت کی علی الاعلان خلاف ورزی کی جاتی ہے مگر اس کے متعلق جناب کی رگ حمیت نہیں پھڑکتی حالانکہ ان کی گودوں میں بسا اوقات یتیم ہوتے ہیں۔ ان اللذین یاکلون اموال الیتمیٰ ظلما انما یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا خود یتیم پوتے کی بھی ہمدردی یہ ہے کہ قرآن کے ٹھوس اور اٹل قانون کو ٹھکرانے کی بجائے مستورات کے حقوق کی حفافظت کی جائے۔ یتیم پوتے کی والدہ کو جب کئی طرف سے حصہ ملے گا تو وہ خوش حال ہوگا اس کسی کا دست نگر نہ رہے گا۔ علاوہ ازیں اگر یتیم پوتا محتاج ہو تو جب تک وہ نابالغ ہے یا اپاہج ہو تو اس کے مصارف شرعاً اس کے چچا پر واجب ہیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی صورت بھی نہ ہو سکے تو بیت المال جملہ مساکین اور محتاجوں کے مصارف کا کفیل ہوگا۔ اسلامی قانون کو مکمل طور پر جاری نہ کرنے کی وجہ سے اگر ملک کے ییما بچے آفت میں مبتلا ہوں تو ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری قانون اسلامی کی بجائے اس قانون ساز مجلس پر ہے جس کے ہاتھ میں اس کا نفاذ ہے پس آپ کو اگر واقعی یتیم پوتے پر شفقت ہے تو اسلامی قانون پاس کروائیے۔ مندرجہ بالا صورتوں سے معلوم ہوگیا کہ منکرین حدیث کا یہ سوال کہ یتیم پوتے کے معاش کی کیا صورت ہوگی ؟ بالکل باطل ہے۔ قانون وراثت ہی پر رکھا جائے تو کروڑوں انسان ایسے ہیں جن کے مورث کچھ بھی ترکہ نہیں چھوڑتے۔ سو جو انتظام ان کے معاش کا ہوگا وہی یتیم پوتوں کے معاش کا بھی ہوجائے گا۔ صورت دوم : شریعت کے قانون میراث میں تقدم و تاخر کا پورا سسٹم ہی ختم کردیا جائے تو یتیم پوتا بیٹوں کے ساتھ شامل ہو کر میراث پا لے گا۔ یہ صورت اصل دوم یعنی ” الا قرب فالا قرب “ کے قانون سے ٹکراتی ہے۔ ہمارے اس اجتہادی اقدام کا اثر سارے ہی نظام قانون کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یعنی اب ایک میت کے مرنے سے اس کے تمام زندہ رشتہ دار بیک دم وارث ہوں گے۔ خواہ درجہ قرابت میں کتنا ہی تفاوت ہو اس صورت کے اختیار کرنے میں اجماع تو کیا خود نصوص پر پانی پھرجائے گا۔ صورت سوم : ” یو صیکم اللہ فی اولادکم “ لفظ اولاد کے تحت بیٹوں ، پوتوں ، پڑپوتوں سب کو جمع کردیا جائے اور سب کو ایک ہی درجہ میں لا کر ان پر علی السویہ تقسیم کی جائے۔ یہ اجتہادی تجویز بھی اصل دوم یعنی ” الاقرب فالا قرب “ کے قاعدہ کلیہ پر ہاتھ صاف کردیتی ہے۔ لفظ اولاد عربی لغت و محاورہ میں حقیقتہ بلاواسطہ اولاد کے لئے بولا جاتا ہے اگر کبھی تو سعاً اولاد کی اولاد پر بھی اطلاق کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ” ان لم یکن لھن ولد “ میں لفظ ولد عام ہے (روح المعانی) یوصیکم اللہ فی اولاد کم میں لفظ اولاد کو عامل لینا نہ اصولی طور پر معقول ہے کہ قریب و بعدف کو یکساں حصہ ملے اور نہ ہی عہد رسالت اور خافائے راشدین و ما بعد میں کہیں ایسا عمل ہوا اور نہ پوری امت محمدیہ میں کوئی اس کا قائل ہے۔ آپ جب یہ اصول تسلیم کرتے ہیں کہ والدہ کی موجودگی میں پوتا اپنے دادا کا وارث نہیں ہے۔ کیونکہ اقرب الی المیت اس پوتے کا والد ہے لہٰذا وہی اصلی وارث ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ پوتے کی ولد کے وسیع مفہوم میں داخل کرنا مجاز ہے اور حقیقت کی موجودگی میں مجاز کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا۔ اگر ولد کے مفہوم میں پوتا حقیقتاً داخل ہے تو باپ کی موجودگی میں بھی پوتے کو ضررور حصہ لینا چاہیے۔ صورت چہارم : ذوی الفروضض کی طرح بیٹے اور پوتے میں بھی قرب و بعد کا لحاظ رکھتے ہوئے بیٹے کو زیادہ حصہ دیا جائے اور پوتے کو کم۔ یہ صورت بھی اصل دوم سے ٹکراتی ہے اصل دوم میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ عصبات میں حجب نقصان ممکن نہیں بلکہ ان کا حصہ معین نہ ہونے کی وجہ سے ان میں ” الا قرب فالا قربُ ‘ کا قانون جاری کرنے کی صرف یہ صورت ہے کہ قریب کی موجودگی میں بعید بالکل محروم رہے۔ اگر آپ بلحاظ قرب و بعد کے بیٹے اور پوتے کو کم و بیش حصہ دینا چاہتے ہیں تو اس کمی بیشی کا معیار کیا ہوگا اگر اپنی طرف سے کوئی معیار مقرر کرلیا جائے مثلا بیٹے کو 2/3 اور پوتے کو 1/3 دیا جائے تو کیا۔ قرآن پر زیادتی نہ ہوگی ؟ کیا نشہ اجتہاد میں عصبات کے متعلق للذکر مثل حظ الانثیین میں بیان کردو غیر معین حصص کو معین کرنے اور قرآن کے اٹل قانون کے مخالفت کرنے کی گنجائش ہے ؟ پھر ہم یتیم پوتے کو ظلم سے بچانے کے مدعیوں سے پوچھتے ہیں کہ بعید کو اگر قریب کے حصہ میں شریک کردیا جائے تو کیا اس میں قریب پر ظلم نہیں کہ یتیم پوتے کو تو حصہ دیا گیا۔ مگر زندہ بیٹے کی اولاد کو محروم کردیا گیا جو درجہ میں یتیم پوتے کے مساوی ہے اور ان کے باپ کو جو کچھ ملا ہے وہ حقیقت میں ان کو نہیں ملا اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ آئندہ بھی وہ ان کو نہ ملے اور ملکا بھی تو اپنے والد کے ترکہ کی حیثیت سے ملے گا جس سے یتیم پوتا بھی محروم نہیں۔ الغرض یتیم پوتے پر رحم کھا کر قانون شرعی میں ترمیم کرنا بہت سے لوگوں پر بےرحمی کا سبب بنے گا اور سب سے بڑا ظلم اپنے نفس پر ہوگا کہ احکم الحاکمین اور اس کے رسول امین ﷺ کے اٹل قانون میں دست اندازی کرتے ہیں۔ صورت پنجم : نظریہ قائم مقامی یعنی جو تعلق بالواسطہ ہونے کی وجہ سے مرتبہ ثانی پر ہوتا ہے وہ واسطہ کے بیچ میں سے ہٹ جانے پر مرتبہ اول پر آجاتا ہے کہ متقدمین نے خود قائم مقامی کا نظریہ اختیار کیا ہے۔ جیسے ابوبکر ؓ کے قول ” الجداب “ کے تحت باپ کا حصہ دادا کی طرف منتقل ہوجاتا ہے جب باپ کی خالی جگہ کو دادا پر کرسکتا ہے تو بیٹے کی خالی جگہ کو پوتا کیوں پر نہیں کرسکتا۔ یہ صورت بھی اصل دوم سے ٹکراتی ہے اور پوتے کو دادے پر قیاس کرنا باطل ہے۔ چچا کی موجودگی میں پوتے کو بیٹے کے قائم مقام کر کے چچا کے بربر کردینے سے ” الا قرب فالا قرب “ کا قانون ٹوٹ جاتا ہے اور دادے کو باپ کے قائم مقام کرنا اس قانون کے مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص کے بیٹے متعدد ہو سکتے ہیں مگر باپ متعدد نہیں ہو سکتے تاکہ یہ سوال پیدا نہ ہوتا کہ متعدد باپوں میں سے ایک باپ کے مرنے پر اس کا باپ اس کا قائم مقام ہو کر دوسرے باپوں کے ساتھ شریک ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ ” الا قرب فالا قرب “ کے قانون کا حاصل یہ ہے کہ درجہ اول میں سے جب تک کوئی فرد بھی موجود ہو درجہ دوم کا کوئی شخص بھی وارث نہ ہوگا۔ درجہ اول میں سے اگر کوئی موجود نہیں تو درجہ دوم کے افراد درجہ اول کے قائم مقام ہوں گے یہی قانون اصول اور فروع میں دونوں طرف جاری ہوتا ہے لہٰذا جب تک کوئی بیٹا موجود ہوگا پوتا وارث نہ ہو سکے گا چناچہ اصول میں بھی جب دادی فوت ہوگئی ہو اور اس کی ماں زندہ ہو اور نانی بھی موجود ہو تو دادی کی ماں کے قائم مقام کر کے نانی کے ساتھ سدس میں شریک نہیں کیا جاتا اور باپ چونکہ ایک ہی ہو سکتا ہے اس لئے اس کی عدم موجودگی میں درجہ اول خالی ہونے کی وجہ سے درجہ دوم میں سے دادا کو اس کو قائم مقام کر کے میراث دلائی جاتی ہے۔ غرضیکہ باپ کے مرنے پر دادا جو اس کا قائم مقام اس لئے کیا جاتا ہے کہ درجہ اول خالی ہے اور چچا کی موجودگی میں پوتے کو بیٹے کا قائم مقام اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ درجہ اول خالی نہیں بلکہ اس میں چچا (میت کا بیٹا) موجود ہے اگر چچا نہ ہو تو پوتا بھی بیٹے کا قائم مقام ہوگا۔ قائلین نے یہ عجیب ضابطہ ایجاد کیا ہے کہ وہ ابعد وارث جو میت کی طرف بالواسطہ منسوب ہو واسطہ کے فوت ہوجانے پر اصل واسطہ کے مقام ہو کر میت کا اقرب بن جاتا ہے۔ ع بریں عقل و دانش بباید گریست ! تمام اہل عقل کے نزدیک جس رشتہ دار کی قرابت میت سے بلاواسطہ ہو وہ اقرب کہلاتا ہے اور جس کا تعلق کسی واسطہ سے ہو وہ ابعد۔ خواہ یہ واسطہ زندہ ہو یا مردہ۔ کیونکہ واسطہ کی زندگی اور موت کا رشتہ کی نوعیت اور اس کے قرب و بعد سے کوئی تعلق نہیں۔ جو شخص میت سے قرابت بالواسطہ رکھنے کی وجہ سے ابعد ہے وہ جس طرح واسطہ کی زندگی میں ابعد ہے اسی طرح واسطہ کے مر جانے کے بعد بھی ابعد ہی رہتا ہے۔ اس کے رشتہ و قرابت کی نوعیت نہیں بدل جاتی وہ اب بھی ابعد ہی ہے۔ ہاں اقرب کے موجود نہ ہونے پر ابعد ہونے کے باوجود اس کو وارث تسلیم کیا جاتا ہے اور پھر تعجب ہے کہ یہ لوگ چچا کی موجودگی میں پوتے کو یتیم ہونے کے باعث میراث دلاتے ہیں۔ پس جب پوتے کو یتیم کہا جاتا ہے۔ تو یہ دعویٰ باطل ہوگیا کہ بیٹے کے مرنے پر وہ یتیم بیٹے کے قائم مقام ہوگیا اور اس ابن ہونے کا درجہ مل گیا جب پوتے کو بیٹا سمجھا جاتا ہے تو اسے یتیم کیوں کہتے ہیں ؟ غرضیکہ اہل عقل کا اجماع ہے کہ واسطہ مر جانے سے ابعد اقرب نہیں ہوجاتا۔ حضور کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیٹی کو نصف ، پوتی کو سدس اور باقی ہمشیرہ کو دیا جائے (بخاری ص : 998) اس سے معلوم ہوا کہ بیٹی کی موجودگی میں پوتی وارث ہے تو بیٹے کی موجودگی میں پوتا کیوں نہ وارث ہوگا ؟ یہ قیاس چند وجوہ سے باطل ہے۔ (1) رسول اللہ ﷺ نے بیٹا کو 1/2 اور پوتی کو 1/6 حصہ دلایا اور آپ بیٹے و پوتے کو برابر رکھتے ہیں۔ (1) اگر بیٹے کو بیٹی پر قیاس کیا جائے تو جس طرح رسول اللہ ﷺ نے بیٹی کو موجودگی میں بہن کو بھی وارث بنایا اسی طرح آپ کو چہایے کہ بیٹے کی موجودگی میں بہن کو محروم نہ کریں۔ (1) مونث اولاد کا حصہ 2/3 ہے۔ ایک بیٹی چونکہ 1/2 کی مستحق ہے لہٰذا باقی 1/6 پوتی کو مل جاتا ہے۔ تاکہ 2/3 حصہ پورا ہوجائے۔ جب زیادہ بیٹیاں ہوں تو چونکہ کل 2/3 ان میں تقسیم ہوجاتا ہے اس لئے پوتی محروم رہ جاتی ہے۔ بیٹا چونکہ کل مال کا مستحق ہے اس لئے اس سے کچھ بچتا ہی نہیں تاکہ باقی پوتے کو دیا جائے۔ (4) ایک بیٹا دو بیٹیوں کی بجائے ہے۔ پس جب دو بیٹیوں کی موجودگی میں پوتی وارث نہیں ہوتی حالانکہ بیٹیاں کل مال کی مستحق نہیں تو بیٹا جو کل مال کا مستحق ہے بطریق اولیٰ پوتے کی محروم کو دے گا۔ (5) بیٹی اور پوتی ذوی الفروض میں سے ہیں اس لئے ان میں حجب نقصان جاری ہو سکتا ہے۔ بیٹا اور پوتا عصبات میں سے ہیں ان میں ” الا قرب فالا قرب “ کا قانون صرف حجب حرمان کی صورت میں ہی جاری ہوتا ہے۔ حجب نقصان ممکن نہیں۔ صورت ششم : قائلین کے نظریہ قائم مقامی کا وہ دوسرا تصور اختیار کیا جائے جو ہندو رواجی قانون سے ماخوذ ہے اور جو اخباری بحثوں میں زیادہ تر پیش کیا جاتا ہے۔ نیز اس پر محمد اقبال چیمہ کا ترمیمی مسودہ قانون مبنی ہے جو انہوں نے پنجاب اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ یعنی یہ تصور کہ ییما پوتا اگرچہ بذات خود وارث نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنے باپ کا حصہ دادا سے لینے کا حق دار ہے۔ یہ صورت اصل سوم اور اصل چہارم سے ٹکراتی ہے یعنی اس تصور کو قبول کرنے کے لئے ہمیں شریعت کا یہ بنیادی اصول ختم کرنا پڑے گا کہ کسی شخص کی زندگی میں اس کے مال پر کسی کا حق میراث نہیں لگ سکتا اور یہ اصول بھی ختم کرنا ہوگا کہ تقسیم ترکہ کے وقت زندہ وارثوں کے ساتھ کسی مردہ وارث کو مستحق نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر ان دو اصولوں سے آزاد رہ کر قانون سازی کی جائے تو صرف پوتے کے لئے ہی اس کے مردہ باپ کو زندہ نہ رکھنا ہوگا بلکہ ہر ترکہ کے تقسیم کرتے وقت جملہ ممکن وارثوں کو زندہ فرض کرنا پڑے گا اور اس طریق سے جو رشتہ دار بھی فوت ہوگیا ہو ہر ایک کو حصہ دینا ہوگا۔ قرآن اور حدیث و اجماع اور عقل سلیم کے خلاف اگر اس اجتہاد کو زیر عمل لایا جائے تو تقسیم ترکہ ممکن ہی نہیں۔ جملہ وارثوں پر تقسیم کرنا تو درکنار صرف دو رشتہ داروں کا مال آپس میں قیامت تک تقسیم نہ ہو سکے گا۔ فرض کیجئے کہ زید کا بیٹا بکر جو صاحب اولاد ہے زید سے پہلے فوت ہوگیا۔ اس لئے بکر کے مال سے 1/6 زید کو دیا گیا۔ پھر زید فوت ہوا تو یہی مال اس کے مردہ بیٹے بکر کو ملے گا۔ پھر بکر کا ترکہ تقسیم کرتے وقت اس سے 1/6 بکر کیمردہ باپ زید کو دیا جائے گا اور زید سے پھر مردہ بیٹے بکر کو اس طرح اوپر سے نیچے کو اور نیچے سے اوپر کو یہ تسلسل ختم ہی نہ ہوگا اور مال تقسیم ہوتے ہوتے اجزائے لا تجزی اور ایٹموں تک پہنچ جائے گا۔ آخر یہ دور ایٹم کے کرشموں کا دور ہے پھر تو تمام دنیا میں اس اجتہاد کے ڈنکے بج جائیں گے اسلامی قانون کی بڑی قدر و قیمت ہوگی اور ملاؤں کی حماقتوں کی اصلاح کرنے والے مسٹروں کو دماغوں کو سونے میں تولا جائے گا۔ مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہوگیا کہ یتیم پوتے کی وراثت کے متعلق جو بھی صورتیں اختیار کی جا رہی ہیں سب کی سب نظام اسلامی کے کلیات کے خلاف ہیں اور قرآن ، حدیث ، اجماع اور عقل سے ثابت شدہ قطعی اصول کے ڈھانچہ کو پاش پاش کردیتی ہیں لہٰذا ان صورتوں میں سے کسی صورت کو اختیار کرنا نظام اسلامی کو یکسر ٹھکرا دینا ہے۔ اسی طرح ایک مرنے والے کو جو اس کی وراثت میں تیسرے حصہ تک وصیت کا اختیار دیا گیا تھا اس کا وہ صحیح استعمال کر کے وارثوں سے باہر جو اس کے قریبی تھے ان میں تقسیم کرسکتا تھا۔ مثلاً اس کے پوتا ، پوتی ، دوہتا ، دوہتی ، بھائی ، بھانجا ، بھتیجا وغیرہ اس طرح وہ خلا پورا ہو سکتا تھا کہ وہ ان کے حصص تقسیم کرتے وقت اس خلا کو پر کردیتی۔ اس طرح حکومت کو خاص قانون نافذ کرنے کا حق تھا وہ محفوظ ہوتا اور حکومت کی اس مداخلت کی وجہ سے عوام خودبخود اپنے گھریلو مسائل کو گھر کی حد تک ختم کرنے کی کوشش کرتے اور اس طرح معاشرہ اسلامی میں امن ، صلح اور آشتی کا دور دورہ ہوتا لوگ باوقار زندگی بسر کرتے اور اس گھریلو فیصلہ سے میری مراد ہے۔ کہ بعض اوقات تیرے حصے کی وصیت سے کم میں اگر معاملہ طے پا جاتا تو وہ اصلاح کی ایک ایسی صورت تھی جس پر وہ بہت جلد متفق ہو سکتے کیونکہ وہ اتفاق رائے سے نہ پہنچ پاتے تو تیسرے حصے تک حکومت اس کو وصیت کی شرعی اجازت کے اندر رہتے ہوئے مداخلت کرسکتی تھی۔ جس چیز کو معاشرتی ناانصافی قرار دیا گیا ہے۔ سوائے اس کے کہ لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر قانون الٰہی میں بےجا مداخلت کی گئی یہی وجہ ہے کہ اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوا اور جذبات کے تحت اس طرح کے فیصلے ہمیشہ غلط ہی ہوتے ہیں اور ان کے نتائج بھی دور رس نہیں ہوتے لیکن بد قسمتی سے آج تک اس ملک میں اسلام کے نام پر جتنے فیصلے کئے گئے سب اس قسم کے ہیں جن سے لوگ مزید اسلام سے دور ہوگئے ہیں۔ اور طرح طرح کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئی ہیں اور آئندہ ہوتی رہیں گی اور حکومت کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ فیصلے اس طرح کے ہوں اور چند پیٹ کے پجاریوں کو ساتھ ملا کر ایسے فیصلے طے کرا لئے جائیں جس سے مزید پیچیدگیاں بڑھیں اور بےچینی پیدا ہوتا کہ کاروبار حکومت چلتا رہے۔ اس طرح کے آج تک جو فیصلے قرار پائے ان میں چند ایک سرفہرست ہیں اور اگر صرف انہیں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ مثلاً عائلی قوانین کا فیصلہ۔ عشرو زکوٰۃ کے نفاز کا فیصلہ۔ جمعہ کی چھٹی کا فیصلہ۔ ایک نوے سال پرانے جھگڑے کا فیصلہ جس کو احمد یوں کا فیصلہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی حد و تعزیرات کے نفاذ کا فیصلہ۔ مسئلہ میراث کا فیصلہ بنک کاری کا فیصلہ۔ قتل کی دیت کا فیصلہ۔ اسلامی اوقاف کا فیصلہ۔ ان میں سے ہر ایک فیصلہ سے اسلامی روح خارج کر کے غیر اسلامی روح داخل کردی گئی۔ نام وہی استعمال کئے گئے اور کام کو مزید الجھا دیا گیا اور اس طرح دوسری قوموں کے سامنے اسلام کو اسلام نہیں بلکہ موم کی ناک بنا کر رکھ دیا گیا اور مسلمان عوام کو جو اسلام سے ایک طرح کی محبت رکھتے تھے۔ خواہ وہ نام تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ بڑی ترتیب اور نہایت ہی آہستگی کے ساتھ نا محسوس طریقے سے ختم کرنے کی سازش کی گئی جو اب تک جاری ہے۔ اس جگہ مسئلہ میراث کی بات ہو رہی تھی۔ اس میں جو ترمیم کی گئی اس میں سرے فہرست پوتے کی میراث ہے جس کو انصاف کا تقاضجا کہہ کر ‘ ناانصافی کی انتہاء کردی گئی۔ ان انصاف پسندوں کے سامنے ایک ایسی مثال پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں جو فرضی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور بالکل اس زمانہ سے اس کا تعلق ہے جس کے افراد ابھی زندہ حیات موجود ہیں جو وفات شدہ ہیں ان کو زمانہ جاتا ہے اور بچہ بچہ کی زبان پر ان کے نام اب بھی موجود ہیں اور یہ واقعہ بالکل میرے قریب ہے پھر اس طرح کے سینکڑوں واقعات پیش کئے جاسکتے ہیں یہ کوئی شاذ مثال بھی نہیں۔ ایک دریافت طلب مسئلہ جو فرضی نہیں بلکہ حقیقی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ” ع “ ستر سال کی عمر میں وفات پا گیا جو 32 بھی کہ زمین اور ایک مکان تقریباً ایک لاکھ مالیتی چھوڑ کر مرا اس کی بیوی اور ماں باپ موجود نہیں تھے۔ اور اس کی دس اولادوں میں سے آٹھ زندہ تھی اور دو وفات پا چکی تھیں۔ وفات پانے والوں میں اس کا ایک لڑکا ” ظ “ اور ایک لڑکی ” ر “ وفات پا چکے تھے۔ اس کے لڑکے ” ظ “ کی جب وفات ہوئی تو اس وقت وہ باپ سے الگ ہو کر 40 بھیگہ زمین اور تین کو ٹھیوں کا مالک تھا جب کہ اس ” ظ “ کا بڑا لڑکا ” ک “ بھی وفات پا گیا تھا اور اس ” ک “ نے باپ سے الگ ہو کر 50 بھیگہ زمین اور ایک رہائشی کو ٹھی الگ اپنے نام سے بنا لی تھی اس میں اس کے والد نے اس کی کتنی مدد کی تھی اس کا صحیح علم موجود نہیں۔ اس ” ک “ کے دو بچے اور بیوہ موجود ہیں۔ ” ع “ کی اپنی اولاد میں بھی ابھی تین بچے نا بالغ تھے جن میں سے ایک 15 سال کا اور ایک لڑکی 9 سال کی اور ایک لڑکا 5 سال کا تھا اس کی جائیداد کو اب تقسیم ہونا ہے ” ع “ نے کوئی وصیت نہیں کی اور کوئی قرض نہیں چھوڑا۔ اس کے 5 بچے ہیں جن میں سے 3 لڑکیاں ہیں اور 2 بچے ابھی غیر شادی شدہ ہیں اس کی میراث کو ذرا انصاف کے ساتھ تقسیم کر کے دکھائیں تاکہ تمہارے انصاف کی وضاحت ہوجائے۔ الٰہی قانون میں جو انصاف کیا گیا ہے۔ جب کہ اسلامی حکومت کو اس کے وصیت نہ کرنے کی صورت میں حق تھا کہ اس سقم کو پورا کرنے کی ایک حد تک کوشش کرتی پھر ان دونوں تقسیموں کو ملا کر دیکھیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی تم نے اللہ کے قانون میں ناجائز مداخلت کر کے انصاف کے نام سے کتنا ظلم کیا ہے۔ میراث کے متعلق جو احکام تم کو دیئے گئے ہیں ان کی پابندی دینی اور دنیاوی زندگی کیلئے مفید ہے : 40: جو احکام میراث کے متعلق تم کو دیئے گئے ہیں ان کو یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ دنیا کا معاملہ ہے ان کی پرواہ نہ کر کے خود اپنے آپ کو خدائی عدالت میں مجرم نہ بناؤ ۔ ” تلک “ کے لفظ سے ان تمام احکام کی طرف اشارہ کردیا جو یتیموں کے متعلق تقسیم ترکہ کے متعلق وصیتوں کے متعلق اور ادائیگی کے متعلق بیان فرمائے۔ ان طرح ان کی اہمیت کو واضح کردیا کہ یاد رکھو یہ حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی۔ اس لئے ان کی پابندی دوسرے سارے احکام سے بڑھ کر ہے جو صرف حقوق اللہ میں آتے ہیں یا صرف حقوق العباد میں۔ اس لئے فرمایا ان کی اطاعت کامل پر بہت بڑی کامیابی تم کو حاصل ہوگی جو دین و دنیا دونوں میں تم کو سرخرو کر دے گی یعنی قانون میراث کی پابندی کو معمولی بات نہ سمجھو بلکہ اس پر تمہاری دنیاوی اور دینی دونوں کامیابیوں کا انحصار ہے۔
Top