Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 142
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ١ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى١ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ : بیشک منافق يُخٰدِعُوْنَ : دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَھُوَ : اور وہ خَادِعُھُمْ : انہیں دھوکہ دے گا وَاِذَا : اور جب قَامُوْٓا : کھڑے ہوں اِلَى : طرف (کو) الصَّلٰوةِ : نماز قَامُوْا كُسَالٰى : کھڑے ہوں سستی سے يُرَآءُوْنَ : وہ دکھاتے ہیں النَّاسَ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے اللّٰهَ : اللہ اِلَّا قَلِيْلًا : مگر بہت کم
منافق ، اللہ کو دھوکا دے رہے ہیں اور اللہ نے ان کے دھوکا کو ضائع کردیا ہے اور جب یہ نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ، محض لوگوں کو دکھانے کیلئے نماز پڑھتے ہیں اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر برائے نام
اس طرح کی چالیں چل کر کیا منافقین اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ؟ 229: ان کی اس دوغلی پالیسی سے نقصان کس کا ہوگا ؟ خود انہی کا تو ہوگا کیونکہ یہ اس راز سے واقف نہیں کہ دھوکہ دینے ولا تو ہمیشہ خود ہی دھوکہ میں ہوتا ہے کیوں ؟ اس لئے وہ دھوکہ میں جو کچھ کرتا ہے خود اپنی جان اور ذات پر کر رہا ہوتا ہے اور یہ بات ان کو سمجھ میں نہیں آتی اس لئے کہ وہ اس قانون الٰہی سے انجان ہیں۔ پھر جو کسی دوسرے انسان کو دھوکہ دے جب وہ دھوکہ میں ہوتا ہے ، اس کے برعکس جو اللہ کو دھوکہ دے رہا ہو اس سے بڑھ کر بھی کوئی بیوقوف ہوگا کہ بھلا اللہ بھی کبھی دھوکاکھاسکتا ہے ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اس طرح کی حرکت کرکے دھوکہ خود کھا رہا ہوتا ہے اور اپنی ناسمجھی سے وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ اللہ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ لیکن جب اس کا نتیجہ ظاہر ہوگا تو یہ ہاتھ ملتاہی رہ جائے گا کہ اس نے آسمان پر تھوک کر دراصل اپنے ہی منہ پر تھوکا ہے۔ اور جو منہ اس نے دیکھا ہے وہ دراصل اس کا اپنا ہی تھا کیونکہ اس کی نظر میں منہ تو تھا لیکن شیشہ اس کو نظر نہیں آیا۔ یہ لوگ اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟ غور کرو کہ دھوکہ دینے کا عمل کون کر رہا ہے ؟ ان کو یہ معلوم نہیں کہ ہر عمل کا نتیجہ لازم ہے کیا دھوکہ دینے کا عمل یہ کریں اور اس کا نتیجہ کوئی دوسرا بھگتے گا نہیں نہیں ہرگز نہیں ” وہو خادعھم “ وہ ان کو دھوکہ دینے کے عمل کا نتیجہ انہی کی طرف لوٹائے چلاجا رہا ہے کیونکہ اس مہلت پر مہلت دیئے جارہا ہے اور یہ ایسے بیوقوف ہیں کہ اپنے جہل و غرور سے اس کو اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ وہ مہلت پر مہلت کیوں دیتا ہے ؟ اس لئے کہ اس کو پکڑتے کوئی دیر نہیں لگتی۔ یہ لوگ نمازوں میں شریک ہوتے ہیں تو ایسے جیسے کوئی مار ، باندھ کر ان کو لے آیا ہے : 230: جس کام کو جی نہچا ہے لیکن انکار بھی ممکن ہو تو کیا ہوتا ہے ؟ یہی کہ آدمی شریک ہوتا ہے لیکن بےدلی کے باعث اس کا دل اچاٹ اچاٹ سا رہنے لگتا ہے۔ ان کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے کہ نماز پڑھی تو پڑھی اور نہ پڑھی تو خیر ہے۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں درحقیقت نماز کوئی چیز نہیں بلکہ ایک قومی نشان ہے اگر وہ اس میں کبھی کبھار بھی شریک نہ ہوں تو قوم کیا کہے گی ؟ پھر شریک ہوتے ہیں تو اس طرح کہ وقت ٹالتے رہتے ہیں اور باربار اظہار کرتے ہیں کہ یار ابھی تو نماز بھی پڑھنا اور اس طرح کا تذکرہ کرتے کرتے نہیں تھکتے اگر وہ وقت پر نماز ادا کرلیں تو اس طرح تذکرہ کیسے کریں گے ؟ وقت ٹالتے ٹالتے جب بالکل قریب چلا گیا تو اٹھیں گے اور بھاگیں گے اور دوچار الٹی سیدھی ٹکریں ماریں گے۔ پوری نماز میں نہ ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں اور نہ یہ خیال رہتا ہے کہ انہوں نے کیا پڑھا ہے ؟ نماز میں جی بالکل نہیں لگتا ہاں ! کسی مجلس میں پھنس گئے جہاں لوگ نماز پڑھنے والے ہیں تو بہت جلدی کریں گے باربار وقت دیکھیں گے اور باربار وہی تذکرہ نماز کریں گے۔ کبھی اتنے سست کہ موذن اذان پکارتا ہے تو ان کے کان پر کبھی جوں بھی نہیں رینگتی اور کبھی اتنے پابند کہ وقت سے پہلے ہی گویا ان کا وقت نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کو دکھاوے کی ضرورت ہے وہ لوگوں کو یہ محسوس کرانا چاہتے ہیں کہ وہ نمازی ہیں اور پھر ان سے داد بھیلیناچاہتے ہیں اور وہ اس طرح ان کو نہیں ملتی جب تک وہ اس طرح کا دکھاوانہ کریں۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ اس کو اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے کہ ” ولا یاتون الصلوۃ الا وھم کسالیٰ ولا ینفقون الا وھم کرٰھون “ وہ نمازوں کے لئے نہیں آتے مگر کسمساتے ہوئے اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے مگر بادل نخواستہ “ (التوبہ 9:94) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” یہ منافق کی نماز ہے ، یہ منافق کی نماز ہے ، یہ منافق کی نماز ہے۔ عصر کے وقت بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے یعنی اس کے غروب کا وقت قریب ہوجاتا ہے تو اٹھ کر دو چار ٹھونگیں مار لیتا ہے جس میں اللہ کریم کو کم ہی یاد کرتا ہے۔ “ (بخاری ، مسلم و مسند احمد) حضرت مصعب بن سعد ؓ اپنے والد ماجد یعنی سعد بن ابی وقاص سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسے لوگوں کے متعلق پوچھا تھا جو نماز سے غفلتبرتتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے ٹال کر پڑھتے ہیں اور یہ حدیث ابن جریر ، ابو یعلیٰ ، ابن المنذر ، ابن ابی حاتم ، طبرانی فی الاوسط ، ابن مردویہ اور بیہقی نے سنن میں بیان کی ہے اور اس بات کا ذکر زیر نظر آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ” جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ ہوتے ہیں محض لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھتے ہیں اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر برائے نام۔ “
Top