Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
اللہ کو پسند نہیں کہ تم برائی پکارتے پھرو ، ہاں یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے
اللہ کے نزدیک منہ کھول کر کسی کی برائی پسندیدہ نہیں ہے ہاں ! مظلوم کا حق محفوظ ہے : 236: جماعتی زندگی کے اہم مسائل میں سے ایک یہ مسئلہ بھی ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی برائی جنم لے چکی ہوتی ہے اور جڑ پکڑچ کی ہوتی ہے تو اس کا تدارک بلاشبہ ضروری ہوتا ہے اور اس تدارک کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس تدارک کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس برائی کی قباحت و شناعت ، اس کے نتائج بد اور اس کے مرتکین کا انجام قوم کے سامنے اس طرح کھول کر اور واضح طور پر رکھا جائے کہ جماعت کے افراد اس شر سے محفوظ رہیں لیکن اس کا انداز بیان ایسا ہو کہ جماعت کے عام افراد بعض افراد کو اپنے اندازہ اور اندیشہ سے نشانہ و ہدف نہ بنالیں کیونکہ اس سے بجائے فائدہ کے بعض اوقات نقصان کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ کلام الٰہی کا کمال یہ ہے کہ جب وہ قوم کی کسی ایسی بیماری کی وضاحت کرتا ہے تو ساتھ خاص ہدایات بھی دے دیتا ہے تاکہ اس کے مضرات سے بچا جاسکے۔ زیر نظر آیت میں بھی مسلمانوں کو تنبیہہ کی جارہی ہے اور پیچھے بہت سی آیات میں منافقین کا مسلسل ذکر چلا آرہا ہے اور منافقت قومی بیماریوں میں سب سے زیادہ مہلک اور بڑی بیماری ہے اس لئے اس کی وضاحت فرما دی کہ جوش میں آکر مسلمان منافقین سے الجھائو ہی نہ شروع کردیں۔ ان کو جو سزا ملے گی وہ عنداللہ ہے لیکن جب وہ اسلام کا نام لے کر اس کے ساتھ وابیتگہ کا اعلان کرچکے ہیں اگرچہ ان میں عملی کمزوریاں موجود ہیں لہذا ان کی کمزوریوں کا مجمل یا مفصل بیان تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان افراد کو نام بنا م کوئی ایسی بات نہیں کہی جاسکتی کیونکہ اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہو سکتے۔ اس سے ضد بڑھتی ہے اور اسلام کا کام ضد بڑھانا نہیں بلکہ تفہیم کرانا ہے اور تفہیم کا طریقہ ہی یہ ہے کہ کسی انسان کو نشانہ بنایاجائے بلکہ اس کو سمجھنے کا موقع دیا جائے۔ چونکہ پیچھے بہت سی آیات میں منافقوں کا حال کھول کر بیان کیا گیا ، کچھ ان کی چھپی ہوئی بدیاں اور کمزوریاں تھیں ان کو ظاہر کیا اب ان کا ذکرختم کرتے ہوئے یہ بھی سمجھا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خفیہ بدیوں کا یوں اعلان کیا تو یہ محض اس لئے کہ انہوں نے مسلمانوں کو اپنی شرارتوں کا نشانہ بنایا چونکہ وہ مسلمانوں پر کھلا ظلم کر رہے تھے اور ان کو تباہ کرنے کی سازش کے مرتکب ہوئے تھے چونکہ مسلمان اس لحاظ سے مظلوم تھے پھر ان کی زبان سے یہ باتیں بیان کی گئیں تو یہ محض اس لئے کہ وہ مظلوم تھے اور مظلوم کو حق ہے کہ وہ ظالموں کا نام لے کر اور ان کی پوری پوری نشاندہی کرا کر بات کو واضح کرائے ۔ ابھی تک انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا بلکہ ان کی عام حرکات کا ذکر کیا کہ وہ اس اس طرح کرتے ہیں اس طرح دوسری طرف ان کو یہ بات بھی بتا دی کہ اگر تم نے اس کا غصہ ناجائز طریقہ سے نکالا تو تمہاری حالت کو مزید بھی ظاہر کیا جاسکتا ہے بہتر ہے کہ آپ اپنی اصلاح کرلیں اور مسلمانوں کی برائی سوچنے کی بجائے اپنی بھلائی کا خیال رکھیں۔ اصلاح کا پہلو اس میں ہے نہ کہ مظلومین کے ناطقہ بند کرنے میں۔ اس کو کہتے ہیں کہ ” ایک پنتھ دو کاج “ کہ بات ایک ہی ہے لیکن ایسی کہ دونوں طرف کے لوگوں کی اصلاح ہوجائے اور انتشار نہ ہو بلکہ امن قائم ہو اور یہ اعتدال ہی کی راہ سے ممکن ہے۔ زیر نظر آیت میں ” الجھر بالسوء “ کے الفاظ قرآن کریم میں بیان ہوئے اس لئے سمجھ لینا چاہئے کہ ” جھر “ کسی چیز کے ظہور کو کہا جاتا ہے وہ حاسہ بینائی کی افراط سے ہو یا شنوائی سے اور قرآن کریم میں ان دونوں ہی صورتوں میں اس کا استعمال ہوا ہے پہلی کی مثال اس طرح ہے کہ قرآن کریم میں ہے ” حتی نری اللہ جھرۃ “ (2:55) اور ایک جگہ ارشای ہوا ” ارنا اللہ جھرۃ “ (4:153) اور دوسرے معنوں میں فرمایا ” من استر َا لقو لَ وَمَن جَھرَبِہ “ (10:13) اور ” یَعُلَمُ الجَھرَمِنَالقَولِ “ (5:3) اور ” وَلَا تَجھَر بِصَوتِکَ وَلَا تُخَافِت بِھَا “ (110:17) اور وَلَا تَجھَرُ واَلہ بِا لقَولِ کَجَھرِ بَعضِکُم لِبَعضِِ “ (الحجر ات 2:49) اور اس جگہ ” اَلجَھرَبِالسُّو ئِ “ دوسرے معنوں ہی میں استعمال ہوا ہے اور انہی آیات میں غور کرنے والوں کو ” وَلَا تَجھَر بِصَلو تِکَ وَلَا تُخَا فِت بِھَا “ کا مفہوم وا ضح ہوجائے گا کہ نماز میں کس ” جر “ اور کو کس ” خفی “ سے منع کیا گیا ہے پھر ” وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا “ کے جملہ نے سا ری کسر نکال دی ہے اور اس طرح شنوائی کے ” جھر “ میں جو اسباق پو شیدہ ہیں ان پر بھی نظر فر ما لیں ۔
Top