Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 149
اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا
اِنْ تُبْدُوْا : اگر تم کھلم کھلا کرو خَيْرًا : کوئی بھلائی اَوْ تُخْفُوْهُ : یا اسے چھپاؤ اَوْ تَعْفُوْا : یا معاف کردو عَنْ : سے سُوْٓءٍ : برائی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَفُوًّا : معاف کرنیوالا قَدِيْرًا : قدرت والا
تم بھلائی کی کوئی بات ظاہر طور پر کرو یا چھپا کر کرو یا کسی کی برائی سے درگزر کرو تو اللہ بھی قدرت رکھتا ہے اور درگزر کرنے والا ہے
مسلما نوں کیلئے مزید ہد ایت کہ بھلائی کی بات کو چھپا ئو یا ظا ہر کرو لیکن بدی پر پردہ ہی بہتر ہے : 237: اصول یہ یاد رہنا چا ہئے کہ انسان خطا کا پتلا ہے اس لئے علاوہ انبیاء کرام کسی کو معصوم مت سمجھوہاں ! کسی بھلائی کی بات سنو تو اس کو فوراََ بیان کرو یا خاموش رہو تمہاری مر ضی کی بات ہے لیکن کسی کی بری بات سنو تو اس کو ہر حال میں چھپا ئو اس لئے کہ برائی کی اشا عت فی نفسہ بری چیز ہے لیکن حد اعتدال سے تجا وز کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے تم کو برائی کی اشاعت سے روکا گیا ہے یہ نہیں کہ کسی کی برائی کا نام لینا ہی حرام ہے بلکہ بعض اوقات اس کا بیان ضروریات اسلام میں سے ہے اشا عت اور ضروریات لو ذہن میں رکھنا چا ہئے ۔ انسان اپنے نفس کو ٹٹولے تو اس کو نظر آئے گا کہ کسی کے سا تھ حسن سلوک کرنے یا اس پر مال خرچ کرنے سے کہیں زیادہ شا ق نفس پر یہ گزرتا ہے کہ کوئی ہمیں دکھ پہنچائے اور ہم اس سے در گزر کر جائیں اور انتقام نہ لیں اس لئے فعل خیر سے الگ اور ممتاز کر کے اس وصف چشم پو شی اور عدم انتقام کو بیان کیا ہے۔
Top