Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 14
وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا١۪ وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَيَتَعَدَّ : اور بڑھ جائے حُدُوْدَهٗ : اس کی حدیں يُدْخِلْهُ : وہ اسے داخل کرے گا نَارًا : آگ خَالِدًا : ہمیشہ رہے گا فِيْھَا : اس میں وَلَهٗ : اور اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّهِيْنٌ : ذلیل کرنے والا
لیکن جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور اس کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں سے باہر نکل گیا تو وہ آگ کے عذاب میں ڈالا جائے گا ، وہ ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا اور اس کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہو گا
قانون میراث کی پابندی نہ کرتا و دنیا دونوں کا خسارہ ہے : 41: یہ احکام جو تم کو دیئے گئے ہیں یہ گویا اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدود ہیں اور حدود اللہ کی پر واہ نہ کرنے والا یقینا اپنی دنیا کو برباد کرتا ہے۔ اور آخرت کو اور پھر آخرت کا خسارہ تو ایسا ہے جو کبھی پورا ہونے والا نہیں۔ اس طرح یہ عذاب دائمی بھی ہوگا جو ان کو دیا جائے گا اور معذب کے حق میں ذلت آخریں بھی اور عذاب دو چار روز کی بات بھی نہیں بلکہ دائمی عذاب کی خبر تم کو پہنچائی جا رہی ہے۔ لیکن جس چیز کا بدلہ یا نتیجہ ہے چند روز کی چاندنی اور پھر اندھیری رات کے مترادف ہے۔ غور کیجئے کہ قرآن کریم کی یہ وعید کتنی سخت ترین وعید ہے لیکن آج مسلم معاشرہ میں اس کا کوئی اثر۔ ملکی قانون میں جو لولہا لنگڑا قانون نافذ ہے اس کی کوئی پابندی ؟ نہیں بلکہ وہ تو نافذ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ عدلیہ کا کام چلتا رہے اور لوگ مصروف کار رہیں ان کو ہوس جائیداد سے ساری زندگی فرصت ہی نہ ملے اور ان کی نسبی جائیداد کے یہ وارث جو محکمہ مال کے نام سے منسوب کئے جاتے ہیں سارا مال انہیں کے ارد گرد چکر لگاتا رہے۔ اور یہ بندر بانٹ کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ جس کی اکائی کا نام پٹواری اور مجموعہ کا نام وزیر مال ہے۔ مختصر یہ کہ وہ قانون نافذ کرانے کے متمنی عوام عوام ہوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد سب اچھی طرح کان کھول کر سن لیں کہ ” جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی اور اس کی مقرر کردہ حد بندیوں سے باہر نکل گیا تو یاد رہے کہ وہ جنت کی ابدی راحتوں کی جگہ آگ کے عذاب میں ڈالا جائے اور ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا اور اس کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا۔ “ ذرا غور کیجئے کہ ضمنی عدالتوں کا فیصلہ ہو تو جس شخص کا اس فیصلہ پر دل تسلی نہ پائے وہ اوپر کی عدالتوں کو رجوع کرتا ہے۔ لیکن اگر سپریم کورٹ سے فیصلہ صادر ہوجائے پھر ؟ تختہ دار پر لٹکنے کے سوا کوئی چارہ ہاں ! رحم کی اپیل ؟ لیکن اگر وہ بھی خارج ہوجائے۔ یہ تو ان مصنوعی عدالتوں کے فیصلوں کی صورت ہے جن میں ایک طرح کے نہیں بیسیوں طرح کے فریب اور مکاریوں سے کام لیا جاسکتا ہے لیکن عدالت الٰہی کے فیصلہ پر کوئی اپیل کی جگہ ؟ نظر ثانی کی کوئی صورت ؟ پھر خود ہی سوچ لو کہ ان مذہبی وکیلوں کی موہوم ثواب پہنچانے کی تدبیریں فصلہ الٰہی کے اور سزا یافتوں کے کام کس طرح آئیں گی ؟
Top