Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ
: اور اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا
: کہ نہ
تُقْسِطُوْا
: انصاف کرسکوگے
فِي
: میں
الْيَتٰمٰى
: یتیموں
فَانْكِحُوْا
: تو نکاح کرلو
مَا
: جو
طَابَ
: پسند ہو
لَكُمْ
: تمہیں
مِّنَ
: سے
النِّسَآءِ
: عورتیں
مَثْنٰى
: دو ، دو
وَثُلٰثَ
: اور تین تین
وَرُبٰعَ
: اور چار، چار
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تمہیں اندیشہ ہو
اَلَّا
: کہ نہ
تَعْدِلُوْا
: انصاف کرسکو گے
فَوَاحِدَةً
: تو ایک ہی
اَوْ مَا
: یا جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: لونڈی جس کے تم مالک ہو
ذٰلِكَ
: یہ
اَدْنٰٓى
: قریب تر
اَلَّا
: کہ نہ
تَعُوْلُوْا
: جھک پڑو
اور دیکھو اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے معاملہ میں انصاف نہ کرسکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں نکاح کرلو دو ، تین ، چار تک کرسکتے ہو ، اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر چاہیے کہ ایک بیوی سے زیادہ نہ کرو پھر جو عورتیں تمہارے ہاتھ آگئی ہیں (ان سے نکاح کرلو) بےانصافی سے بچنے کے لیے ایسا کرنا زیادہ قرین صواب ہے
یتیم لڑکیوں کا مخصوص حکم کہ ان کے معاملہ میں بھی انصاف سے کام لو : 8: مال کھانے کے معامہ میں یتیم لڑکے ہوں یا لڑ کیا ، دونوں ہی کے لئے ایک جیسا حکم ہے اور کوئی فرق نہیں لیکن یتیم لڑکیوں کے لئے تم کو ایک مخصوص حکم بھی دیا جاتا ہے تاکہ اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرلو۔ وہ حکم یہ ہے کہ ان یتیم لڑکیوں کو جو تمہای کفالت میں آجائیں اس لئے اپنے گھروں میں مت ڈال لیا کرو کہ ان کا مال اس طریقہ سے تم کو حاصل ہوجائے گا یا ان کی ماؤں کے ساتھ اس غرض سے نکاح کرو کہ ان کے ساتھ نکاح کرنے سے وہ مال بھی اور یتیم بچے بھی تمہاری ملک میں آجائیں گے اور تم اپنی من مانی کرسکو گے۔ اگر اس بات کا ذرا بھی خیال ہو کہ اس طرح نکاح کرلینے سے ان یتیم بچیوں کے معاملہ میں تم انصاف نہ کرسکو تے تو ان کو چھوڑ کر باقی عورتوں سے نکاح کرو ان کے ساتھ ہرگز نکاح نہ کرو اس لئے کہ اس طرح سے جائیداد کا لالچ تمہاری آخرت برباد کر دے گا اور دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے اگر آخرت براد ہوگئی تو یہ سودا نہایت خسارے کا ہوا۔ سورا الانعام میں یہودیوں کی ظاہری شریعت نوازی اور جانوروں کی حلت و حرمت میں بےمعنی جزئیات پرستی اور روحانی گناہوں سے بےپروائی دکھا کر روحانی اور اخلاقی تعلیمات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان میں ایک یہ ہے کہ ” وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغُ اَشُدَّہٗ (الانعام : 152:6) ” اور بہتری کے سوا مال یتیم کے پاس ہرگز نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی طاقت کی عمر کو پہنچ جائے۔ “ سورة اسراء کے آٹھ اخلاقی اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سوائے بہتری کی نیت کے اور اصلاح کے صاحب جائیداد یتیموں کی جائیداد کے پاس بھی کسی اور غرض سے نہ بھٹکنا چاہیے اور دیانتداری کے ساتھ ہمیشہ اپنے دامن بچائے رکھنا چاہیے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جو یتیم لڑکیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں۔ ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا تو ہے نہیں۔ جس طرح ہم چاہیں گے ان کو دبا کر رکھیں گے وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد الٰہی ہوا کہ تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتیں موجود ہیں ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں یعنی تم شادی کرنا چاہو تو کرلو اور ان یتیم بچیوں کو اپنے گھروں میں مت ڈالو۔ خود شادی کرنے کا مطلب بھی واضح ہے کہ صرف یہی نہیں کہ کفیل اپنے ساتھ ہی شادی کرے تو اس کی ممانعت ہے نہیں بلکہ عام زبان اور رواج کے مطابق اگر کوئی اپنے بیٹے ، بھائی یا کسی قریبی رشتہ دار سے شادی کرے اور نیت میں یہی ہو تو بھی اس کے ضمن میں وہ آئے گا۔ اس طرح یہ بھی نہیں کہ ضرور ان یتیم بچیوں ہی کا معاملہ ہے نہیں اگر ان کی ماؤں کے ساتھ اگر وہ ہیں اس غرض سے شادی ہوگی تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ قرآن کریم کا یہ حکم کتنا صاف اور واضح ہے لیکن ہمارے ہاں کا جو رواج ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے لوگ اپنی بھاوجوں کو اپنے نکاح میں اور اپنی بھتیجیوں ، بھانجیوں کو اپنے بچوح کے ساتھ محض اس لئے نکاح میں دیتے ہیں تاکہ ان کی جائیداد کہیں دوسری جگہ منتقل نہ ہو۔ گویا وہ ان کی وراثت کو اپنی جائیداد اور اپنا حصہ سمجھتے ہیں اور ہر ممکن ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کی پتی میں کوئی دوسرا شریک کیوں ہو ؟ اور ہمارے معاشرے میں اس فعل کو آج کوئی بھی بری نگاہ سے دیکھنے ولا نہیں بلکہ ہر ایک اس کو پسند کرتا ہے کہ بہت اچھا عمل اس نے کیا ہے اپنے باپ دادا کی جائیداد کو سنبھال لیا ہے اور باہر نہیں جانے دیا۔ گویا یتیم بچے اور ان کی مائیں ان کی جائیداد ہی وہ انسان نہیں۔ ضرورت ہو تو تم مرد ایک سے زیادہ چار کی حد تک سے نکاح کرسکتے ہو : 9: یہ ایک مستقل حکم ہے جو اس ضمن میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر مرد کو ضرورت ہو اور وہ اس کا متحمل ہو تو ایک سے زیادہ بیویاں وہ بیک وقت رکھ سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنی غرض وغایت کے لئے ان یتیم بچیوں یا ان کی ماؤں کو محض اس لئے اپنے گھر میں ڈال لے کہ اس جائیداد کو سمیٹنے کا اس کے پاس اور کوئی طریقہ نہیں۔ فرمایا کہ اگر تم حاجت مند بھی ہو تو بھی اپنی حاجت کو جائز طریقہ سے پورا کرو ناجائز طریقہ سے نہیں اور مال کا لالچھ تم کو راہ راست سے نہ ہٹا دے۔ مرد اور عورت کو دوس بدوش چلتا دیکھنے والے اس حکم کو نہایت بری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کو طعن وتشنیع کرتے وہئے شرم نہیں آتی کہ آخر یہ حکم الٰہی ہے کسی دنیوی مقننہ کا نہیں اور ہم اپنی زبان کو بےلگام کرنے کی بجائے اس حکم پر غور کریں کہ ہمیں کیا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ اس میں ازروئے عقل و فکر کوئی قباھت نہیں بلکہ عقل اور فطرت کے مطابق یہ بات ہے۔ ان کو کیوں بری لگی ہے اس لئے کہ دراصل وہ حکم الٰہی کو سمجھنے دے عاری ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنی عقل و فکر کا ماتم کریں وہ سب اسلام پر لب کشائی کرتے ہیں تاکہ کوئی تاویل اس کی کی جاسکے کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی میم صاحبہ اس حکم کو سن کر سیخ پا ہو رہی ہیں اور ان کی خوشنودی ان کے ایمان کا جز ہی نہیں بلکہ اصل ایمان ہے۔ کوئی پوچھے کہ صاحب تمہاری صاحبہ اگر وہ صحت مند ہیں تو ہر ماہ میں سات آٹھ روز کے لئے اذیت میں ہیں کیا تم ان کی اس اذیت میں ان کا ہاتھ بٹا سکے ہو۔ پھر ہر سال ہر دوسرے سال تو تمہاری صاحبہ پانچ چھ ماہ کے لئے بند ہیں تم کیا کرتے ہو ؟ ذرا اپنے اندر جھانک کر دتو دیکھو۔ پھر اگر تمہاری صاحبہ اپنے دل میں کوئی مامتا کا پیار بھی رکھتی ہیں انہوں نے اگر اس پیار کا گلا نہیں گھونٹ دیا تو مزید دو سال کے لئے تمہاری نسل کو چھاتی سے لگائے ہوئے ہیں اور تم کس حال میں ہو ؟ ان سای حرام کاریوں اور مکاریوں سے بچانے کے لئے جو تم اپنے ہی گھر میں یا کسی دوسرے کے گھر میں کر رہے ہو ان سے بچانے کے لئے اللہ نے اپنی آخری کتاب ہدایت میں تمہای رعایت رکھتے ہوئے ایک حکم دیا ہے تم چاہو اس رعایت سے فائدہ اٹھاؤ چاہو بالکل نہ اٹھاؤ ۔ بلاشبہ اگر تمہارے پاس کوئی اس کا جائز حل ہے تو وہ استعمال کرو۔ تم پر کوئی پابندی تو نہیں لگائی گئی دو تین یا چار شادیاں کرو لیکن یہ رعایت ہر حال میں بھی مفید ہے اور تمہاری زندگی کے ساتھی کے لئے بھی اس پر جرح و قدح مت کرو بلکہ اپنی اصلاح کرو اور جن جن افعال کے تم مرتکب ہوتے ہو ان پر نگاہ رکھو اللہ کے دین کو مذاق کا نشانہ نہ بناؤ ۔ یاد رکھو کہ اذیت کے دنوں میں تم پر پابند ہو۔ دوران حمل خصوصاً جب بچہ میں حرکت آچکی ہو تم پابند ہو اور دودھ پلانے کی مدت مییں تم بیوی سے دودھ پلوا رہے ہو تم پابند ہو۔ ان پابندیوں کے لئے تمہیں رعایت دی گئی ہے۔ تم اپن پابندیوں کو پورا کرو اور رعایت سے مطلق فائدہ حاصل نہ کرو تم پر کوئی گناہ نہیں بلکہ تم تعریف کے قابل ہو لیکن یاد رکھو کہ یہ جھوٹ موٹ کی تعریف دنیا والوں سے تو تم کرا سکتے ہو لیکن اللہ تعالیٰ تو تمہارے تمہارے رازوں سے واقف اور تمہاری ساری حرکیتوں سے آگاہ اور تمہاری یہ خواہش کیوں ہو کہ جب تم کو ایک رعایت کی ضرورت نہیں تو آخر کوئی دوسرا اس رعایت سے فائدہ کیوں اٹھائے ؟ ہاں ! اگر تمہاری فکر میں ایسی بات ہے تو یہ بھی کوئی قابل تعریف نہیں بلکہ باعث مذمت ہے کہ تم دوسروں کے حق پر جو ان کو اس رعایت کا حاصل ہے خوہ مخواہ جزبر ہو۔ ایک سے زیادہ بیویوں کی جو اجازت تم کو دی گئی ہے وہ پابندیوں کے ساتھ ہے : 10: ایک مرد کے لئے متعدد بیویاں رکھنا اسلام سے پہلے بھی تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں جائز سمجھا جاتا تھا۔ عرب ، ہندوستان ، ایران ، مصر اور بابل وغیرہ تمام ممالک کی ہر قوم میں کثرت ازواج کی رسم جائی تھی۔ اور اس کی فطری ضرورتوں سے آج بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ آض کا یورپ میں جو مہم چلی ہے بلکہ ایک عرصہ سے چل رہی ہے اس کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ قلم میں ہمت نہیں کہ بیان کئے جاسکیں۔ مختصر یہ کہ ان کوششوں کا نتیجہ بےنکاح داشتاؤں کی صورت میں برآمد ہوا اور یہی کچھ احتیاط کے ساتھ کہا جاسکتا ہے۔ اور اس کے رد عمل میں بھی اب آوازیں اٹھ رہی ہیں اس لئے کہ فطری چیزوں سے انکار ہمیشہ ذلت کا باعث ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔ ہاں ! اچھی فصل میں ناکارہ پودے بھی ہوتے ہیں۔ یہ ایک دوسری بات ہے۔ یہ مسٹر دیوں پورٹ ہیں جو ایک مشہور عیسائی فاضل ہیں اور تعدد ازواج کی حمایت میں اس طرح رقمطراز ہی انا جیل سے وہ کچھ عبارات اس حق میں نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ” ان آیتوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ تعدد ازواج صرف پسندیدہ ہی نہیں بلکہ خدا نے اس میں خاص برکت دی ہے۔ “ پادری نکسن اور جان ملتنی اور ایزک ٹیلہ نے پر زور الفاظ میں اس کی تائید کی ہے کہ تعدد ازواج بعض اوقات ضروریات انسانی کی ایک اہم ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام سے پہلے یہ رسم بغیر کسی تحدید کے رائج تھی۔ ممالک اور مذاہب کی تاریخ سے جہاں تک معلوم ہوتا ہے کسی مذہب اور کسی قانون نے اس پر کوئی حد نہ لگائی تھی یہود و نصاری ٰ نے ، نہ ہندوؤں نے ، نہ آریوں نے اور نہ پارسیوں نے ۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی یہ رسم جو کی توں قائم رہی لیکن اس غیر محدود کثرت ازواج کا نتیجہ بھی نہایت ہی برا تھا کیوں ؟ اس لئے کہ لوگ رسماً نکاح تو کرلیتے لیکن بعد میں عورتیں ان کے نکاح میں ایک قیدی کی حیثیت سے زیادہ کچھ نہ ہوتیں اور پھر عدل و انصاف کا کہیں کبھی تذکرہ ہی موجود نہ تھا۔ اسلام نے عدل و انصاف بین النساء پر بہت زور دیا لیکن علماء نے تفہیم صحیح نہ کرائی : اس آیت میں دو الفاظ پر زیادہ غور و فکر کرنا ضروری ہے ایک لفظ ” اَنْ خِفْتُمْ “ اور دوسرا ” عدل “ اور پورا جملہ اس طرح ہے کہ ” فَاِنْ خِفْتُمْ اَلّاَ لُوْا فَوَاحِدْ ۃً “ ” یعنی اگر تم کو ڈر ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی نکاح پر اکتفا کرو۔ “ قرآن کریم نے اس بات پر سارا زور لگا دیا کہ اگر عدل نہ کرسکنے کا معمولی ثانیہ بھی ہو تو دوسرا نکاح مت کرو لیکن علمائے اسلام نے عدل کو صرف رہنے سہنے ، نان و نفقہ دینے اور باری باندھنے کے ساتھ خاص کردیا اور میل قلبی یعنی محبت و موانست اور اس امر میں جو ووظیفہ زوجیت سے متعلق ہے اس عدل سے مستثنیٰ کردیا اور پھر انہوں نے اس کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے باندھ دیا کہ یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں ہن نہیں کہتے بکہ اللہ انہوں نے اس کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے باندھ دیا کہ یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں ہم نہیں کہتے بلکہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے۔ اس طرح اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ساری تاکید جو قرآن و سنت سے اس کے متعلق بیان ہوئی تھی۔ وہ کلیتہ ختم ہو کر رہ گئی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس سے جو نکاح کا مقصد ہے وہ بالکل باطل ہوگیا اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کے ذمہ وہ بات لگا دی جو آپ نے قطعاً نہیں فرمائی تھی اور یہ اس سے بہت بڑا گناہ ہے جو اس سادگی میں قبول کرلیا گیا۔ علمائے اسلام کی اکثریت نے یہ مطلب جس حدیث سے اسنباط کیا وہ حدیث اس طرح ہے کہ : ” ان النبی ﷺ کان یقسم بین نسائہ فیعدل و یقول اللھم ھذا قسمی فیما املک فلا تلمنی فیما تملک ولا املک “ یعنی رسول اللہ ﷺ باری باندھتے تھے۔ اور اپنی بیویوں میں عدل کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے۔ کہ اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جس حد تک میں مالک ہوں پھر تو مجھ کو مت ملامت کر اس میں جس میں تو مالک ہے اور میں مالک نہیں ہوں “ امام ترمذی (رح) نے کہا کہ بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ ان اخیر لفظوں سے محبت و مودت مراد ہے اور ہاں ! امام کا مقام بلاشبہ بہت بلند ہے تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ حق ہے کہ امام نہ معصوم عن الخطا ہیں اور انہ رسول اللہ ﷺ سے ان الفاظ کی تائید ہوتی ہے۔ اول تو اس حدیث کی صحیت قابل بحث ہے اس حدیث کے دو سلسلے ہیں ایک حماد بن سلمہ (رح) سے اور ایک حماد بن زید سے اور دوسرے لوگوں سے۔ حماد بن سلمہ ؓ نے اپنے سلسلہ کو سیدہ عائشہ ؓ پر ملا دیا ہے اور حماد بن زید اور دوسرے لوگوں نے صرف ابی قلابہ پر چھوڑ دیا ہے یعنی ان کی حدیث مرسل ہے۔ امام ترمذی (رح) نے پہلے سلسلے کو کافی اعتبار کے لائق نہیں سمجھا اور کہا کہ دوسرا سلسلہ حماد بن زید کا زیادہ صحیح ہے لیکن جب کہ وہ خود مرسل ہے تو کانی اعتبار کے لائق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ الفاظ ” فلاتلمنی فیما تملک ولا املک “ کس امر کی طرف کنایہ ہے کیونکہ اس کو میل قلبی یعنی محبت و موانست پر مخصوص و متعین کرلینے اور بالتخصیص کس امر سے بھی متعلق کردینے کی جو خاص زوجیت سے متعلق ہے کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ انبیائے کرام کی عظمت و شان اور ان کی پاک طینت اور پاکیزگی طبیعت کے بالکل برخلاف ہے۔ پھر نبی اعظم و آخر ﷺ کی شان تو سارے انبیاء کراما سے بھی ارفع و اعلیٰ ہے کیا وہ کہیں گے کہ ” اے اللہ ! جس پر میرا دل آجائے تو اس میں تو مجھ کو معاف فرما جس کے ساتھ میں وہ امر نہ کروں جو خاص زوجیت سے متعلق ہو تو تو مجھ کو ملامت مت فرما۔ “ افسوس ہے کہ بعض اوقات اکابر بھی قدرو منزلت نفوس قدسیہ انبیاء کو شاید بھول جاتے ہیں اور اپنے نفوس پر قیاس کر کے وہی خفیف و گھٹیا اور نازیبا باتیں جو خود ان کے نفوس میں ہیں نفوس قدسیہ انبیاء (علیہم السلام) کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ وشان انبیاء اعلیٰ واجل وارفع مما یظنون۔ اگر اس حدیث کو بالکل صحیح تسلیم کرلیا جائے اور یہ الفاظ جو قابل بحث ہیں وہ بھی خود نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس سے نکلے ہوئے مان لئے جائیں جس کا ماننا بلاشبہ مشکل ہے تو بھی ان الفاظ کا یہ مفہوم جو بیان کیا گیا ہے تسلیم کرنا بغیر دلیل کے ہے۔ کیونکہ الفاظ میں کوئی ایسی بات موجود نہیں جو مجبور کرے کہ ان الفاظ کا یہی مطلب ہے کیونکہ ان کا اشارہ ان امور کی طرف تسلیم کیا جاسکتا ہے جو قضا و قدر الٰہی سے واقع ہوتے ہیں جن میں انسان کا کچھ اختیار نہیں مثلاً امراض میں سے کسی مرض کا لاحق ہوجانا یا ایک کا ذی ولد اور دوسری کا لا ولد ہونا وغیرہ ذلک۔ نہ ان امور کی طرف جو خواہش نفسانی سے علاقہ رکھتے ہیں کیونکہ انبیاء کرام کی قدر و منزلت کا ادنیٰ درجہ ان کی خواہش کے تابع نہیں تھا بلکہ نفسانی خواہشیں ان کے تابع فرمان ہوتی تھیں اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ کی شان رسالت تو دوسرے رسولوں کے مقابلہ میں بھی ارفع و اعلیٰ ہے لہٰذا اس بات کو کیسے مان لیا جائے۔ فَافْھَمْ فَتَدَبَّر۔ تیسرے یہ کہ باری کی اور نان و نفقہ کی تقسیم میں مساوات جس کو ایک حریص علی الازواج کرسکتا ہے۔ کوئی ایسا مشکل امر اور مہتمم بالشان نہ تھا۔ جس کی نسبت ” وَاِنْ خِفْتُمْ “ کا قرآنی لفظ استعمال ہوتا۔ ہر لفظ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے کوئی ایس امر عطیم الشان مراد ہے کہ جس کی بجا آوری بجز ان نفوس قدسیہ کے جو فی الحقیقت نفسانی خواہشوں کے مطیع نہیں تھے باقی لوگوں سے بمقتضائے فطرت انسانی کو خواہش ان پر غالب آہی جاتی ہے نہایت مشکل ہے۔ اس لئے کہا جا رہا ہے کہ اس معمالہ میں ڈرتے رہو۔ چوتھے یہ کہ ” عدل “ کے لفظ میں میل قلبی کو داخل نہ سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہے اتنی بڑی کہ اس سے حکم الٰہی کا ایک مذاق ہونا ثابت ہوتا ہے اس لئے کہ نکاح کے مفہوم میں جو تعلقات کہ باہم زن و شوہر کے ہیں ان میں میل قلبی سب سے مقدم ہے۔ جس نکاح میں میل قلبی نہیں وہ نکاح ہی کیوں ہے ؟ وہ تو سراسر ازالہ خواہش نفسانی ہے۔ اگرچہ وہ بھی وقتی میل قلبی کے علاوہ ممکن نہیں۔ اس لئے ایسا تصور کرنا کہ عدل میں میلان قلبی داخل نہیں لفظ عقد یا نکاح کے سر پانی ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس لئے لفظ ” عدل “ بدرجہ اتم اس امر مقدم یعنی میل قلبی ہی کے متعلق ہے کیونکہ زن و شوہر کے تعلقات حقیقی میں اس کو اولیت حاصل ہے۔ جس طرح آنکھ کے لئے دیکھنا ضروری ہے بالکل اسی طرح نکاح کے لئے میل قلبی ضروری ہے۔ اس لئے یہ ” عدل “ سے باہر نہیں رہ سکتا بلکہ اس کے لئے عدل کی قید الٰہی ہے۔ لہٰذا حدیث مذکورہ بالا کے الفاظ ” لاتلمنی فیما تملک ولا املک “ سے میل قلبی کی طرف اشارہ سمجھنا سرا سر غلطی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موانست و محبت کو تعلقات زن و شوہر میں امر مقدم قرار دیا ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ ” وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (الروم : 21:30) “ ” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم کو قیبو سکون حاصل ہو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہی ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ “ اس نظام کو بنانے والا کون ہے ؟ وہی اللہ جس نے کائنات کا سار کار خانہ بنا کر چلایا ہوا ہے۔ اور جس کا وہ خود ہی نگران ہے۔ پھر بنانے والے نے بالا رادہ اس غرض کے لئے یہ انتظام کیا ہے کہ مرد انہ فطرت کے تقاضے عورت کے پاس اور عورت کے پاس اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کے پاس پائے اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہو کر ہی سکون و اطمینان حاصل کریں۔ یہی وہ حکیمانہ تدبیر ہے جسے خالق نے ایک طرف نسل انسانی کے برقرار رہنے کا اور دوسری طرف انسانی تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اگر یہ دونوں صنعتیں محض الگ ڈیزائنوں کے ساتھ پیدا کردی جاتیں اور ان میں وہ اضطراب نہ رکھ دیا جاتا جس کو میلان قلبی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو ان کے باہمی اتصال و وابستگی کے بغیر مبدل سکون نہیں ہو سکتا تو ممکن ہے۔ کہ بھیڑ بکریوں کی طرح نسل انسانی کا سلسلہ تو چل جاتا لیکن کسی تہذیب و تمدن کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ تمام نوع حیوانی کے برعکس نوع انسانی میں تہذیب و تمدن کے رونما ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ خالق نے اپنی حکمت سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لئے وہ مانگ ، وہ پیاس ، وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دی جسے سکون میسر نہیں آتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ کر نہ رہیں۔ یہی سکون کی طلب ہے جس نے انہیں مل کر گھر بنانے پر مجبور کیا۔ اس کی بدولت خاندان اور قبیلے وجود میں آئے اور اسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدن کا نشو و نما ہوا۔ اس نشو و نما میں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگار ضرور ہوتی ہیں مگر وہ اس کی اصل محرک نہیں ہیں۔ اصل محرک وہی اضطراب ہے یعنی میلان قلبی جسے مرد و عورت کے وجود میں ودیعت کر کے انہیں ” گھر “ کی تاسیس پر مجبور کردیا گیا۔ کون صاحب عقل یہ سوچ سکتا ہے کہ دانائی کا یہ شاہکار فطرت کی اندھی طاقتوں سے محض اتفاقاً سرزد ہوگیا ہے ؟ اور کون یہ کہتا ہے کہ اس میں عدل کی ضرورت نہیں ہے کہ اس میں عدل ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ اگر کہیں یہ میلان قلبی پیدا نہ ہو سکے اور انسان انسانیت سے پیچھے ہٹ کر حیوانیت میں داخل ہوجائے تو اس وقت سریعت اسلامی کا مسئلہ یہی ہے کہ ان دونوں کے جوڑ کو یک قلم توڑ دیا جائے۔ اگر مرد کی طرف سے کوئی ایسی صورت واقع ہوجائے تو طلاق ہے اور عورت کی طرف سے پہل ہو تو خلع۔ اس حدیث کو پیش نظر رکھو جس میں نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک عورت نے شکایت پیش کی تھی۔ کہ یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے خاوند کے متعلق کوئی شکایت نہیں رکھتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرا دل اس کو نہیں چاہتا۔ آپ ﷺ نے اس سے بار برا یہ سوال فرمایا کہ کوئی وجہ بتاؤ لیکن وہ ہر بار یہی کہتی رہی۔ کتنی سچی تھی۔ وہ اللہ کی نیک بندی کہ میلان قلبی نہ ہونے کے باوجود کوئی حرف شکایت لب پر نہ لائیں اور ہر بار یہی جواب بےدھڑک سنایا کہ میں اس کے دین و اخلاق میں کوئی نقص نہیں دیکھتی لیکن میرا دل اس کو نہیں چاہتا۔ پھر آپ ﷺ نے کیا کیا ؟ اس کے خاوند کو طلب کیا اس سے حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش فرمائی۔ اللہ کا بندہ بھی باربار یہی کہتا رہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں تو اس کو دل سے چاہتا ہوں اگر میری کوئی شکایت ہے تو مکھ سے کہی جائے۔ لیکن اس کا نتیجہ رسول اللہ ﷺ نے کیا نکالا ؟ عورت سے پوچھا کہ جو باغ تجھے کو حق مہر میں دیا گیا تھا کیا تو اس کو واپس کرتی ہے ؟ اس نے ہاں میں جواب دیا اور پھر آپ ﷺ نے اس کے خاوند سے فرمایا کہ اپنا باغ واپس لے لے اور نکاح تمہارا فسخ ہوچکا۔ اس لئے کہ نکاح کا مقصد یہاں سے حاصل نہیں ہوا اور انسانوں کے فیصلہ الٰہی غالب آگیا۔ بالکل اسی طرح کا ایک نکاح خود رسول اللہ ﷺ نے بحکم الٰہی کرا دیا لیکن اس کا نتیجہ بھی طلاق کی صورت میں منصہ شہود میں آیا جس کے متعلق اعلان الٰہی آج بھی قرآن کریم میں موجود ہے کہ یہ نکاح ہم نے خود کرایا تھا۔ اور ہم نے خود اس کو توڑ دیا ہے تاکہ لوگوں پر یہ بات واضح ہوجائے کہ نکاح جس مقصد کے لئے ہوتا ہے اگر کہیں وہ مقصد پورا ہوتا نظر نہ آئے تو بےجھجھک اس کو ختم کرا دو تاکہ انسان کی انسانیت بحال رہے۔ ہاں ! اس جگہ کوئی سر پھرا یہ کہہ سکتا ہے کہ دیکھو نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) دونوں اللہ کے نبی تھے۔ اور دونوں ہی کو سکون قلبی یا میلان قلبی میسر نہ آیا اور دونوں کی بیویاں جہنم واصل ہوگئیں۔ بات بالکل غلط ہے کس نے کہا کہ دونوں کو میلان قلبی میسر نہ آیا۔ ہرگز نہیں بلکہ دونوں نبیوں کو سکون قلبی حاصل تھا۔ اسی طرح ان کی بیویوں کو بھی میلان قلبی اپنے خاوندوں سے حاصل تھا اور دونوں صحیح معنوں میں شریک زندگی تھیں۔ طرفین میں میلان قلبی موجود تھا جس کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ طرفین کو اس سلسلہ میں کبھی ایک دوسرے سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ ہاں ! ان دونوں انبیاء کرام کی بیویوں نے اپنے خاوندوں کو خاوند تو تسلیم کیا تھا۔ لیکن ان کی نبوت کو انہوں نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ جس پاداش میں وہ جہنم واصل کردی گئیں اور دونوں انبیاء کرام اپنے میلان قلبی کے باوجود ان کو دوزخ کے عذاب سے نہ بچا سکے۔ یعنی ان کو بحیثیت میاں بیوی ایک دوسرے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ اور طرفین میں وہ میلان قلبی بدرجہ اتم موجود تھا۔ لیکن ان دونوں عورتوں کو اپنے خاوندوں کی نبوت پر یقین نہ تھا۔ جس میں ہماری زندگی کے بیشمار سبق موجود ہیں لیکن ہم کوئی سبق سیکھنا ہی نہ چاہیں تو اس کا حل کیا ؟ پھر غور کرو کہ اس حدیث سے جو مراد لی گئی ہے۔ اس کی کوئی گنجائش وہاں موجود ہے ہرگز نہیں۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی (رح) سے ہمیں دلی محبت ہے ان کی دینی خدمت کے بھی معترف ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ اور کریں گے لیکن ان کی بات کو رسول اللہ ﷺ کی بات نہیں کہہ سکتے۔ اس جرم میں ہمیں جو سزا دی جائے قبول ہے۔ مختصر یہ کہ جو امر تعلقات زن و شو سے مخصوص ہے وہ کیونکہ لفظ ” عدل “ سے جو ایسے موقع پر بولا گیا ہے ۔ میلان قلبی یا سکون قلبی ہی وہ شے ہے جو ان دونوں کو ایک دوسرے کا زوج بنائے ہوئے ہے اس لئے اس کو عدل سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ اور ایسا کہنا پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق وہ بات لگانا ہے جو آپ ﷺ نے یقینا ارشاد نہیں فرمائی اور پھر جس سلسلہ میں عدل ممکن نہیں اس کی خود قرآن کریم نے دوسری جگہ و ضاحت فرما دی ہے اس لئے کہ ان معاملات میں عدل کا لفظ صادق ہی نہیں آتا اس کو عدل کہا ہی نہیں جاتا۔ پانچویں بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس یہ حکم آنے سے پہلے متعدد بیویاں تھیں ان کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حکم بیان کرتے ہوئے خود ارشاد فرمایا ہے کہ : وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِ وَ اِنْ تُصْلِحُوْا وَ تَتَّقُوْافَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء : 129:4) ” اور دیکھو اس بات کے تم کتنے ہی خواہش مند کیوں نہ ہو لیکن تم عورتوں کے درمیان بعض باتوں میں عدل کر ہی نہ سکو گے تاہم یاد رکھو کہ قلبی میلان کو ایک طرف مت کر دو کہ ایک طرف مت کر دع کہ ایک تو تمہاری بیوی معلوم ہو لیکن دوسری درمیان میں اٹک کر رہ جائے اور یاد رکھو کہ اگر تم راہ راست پر رہو اور بےانصافی سے بچتے رہو تو اللہ بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے۔ “ یعنی جن باتوں میں انصاف ضروری ہے عدل ضروری نہیں ان میں اگر تم انصاف پر قائم رہے اور عدل نہ کرسکے تو تم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ اس آیت نے اس بات کی مزید وضاحت فرما دی میلان قلبی میں تو عدل ضروری ہے کیونکہ ایک فرف میلان قلبی رکھنے سے روکا گیا اور فرمایا کہ جن باتوں میں عدل ممکن ہی نہیں ان میں عدل نہیں ہوگا تو بات قابل گرفت نہ ہوگی بلکہ قابل گرفت بات وہی ہے جس میں عدل ممکن ہے پھر جس میں عدل ممکن ہے۔ اس میں عدل لازم و ضروری ہے ہاں ! میلان قلبی میں چونکہ عدل ضروری ہے اس لئے فرمایا کہ یہ ایسی بات نہیں کہ اس کو عدل نہ ہو سکنے کا بہانہ بناؤ یہ معاملہ ایسا نہیں کہ جس میں عدل ممکن نہیں۔ رہی یہ بات کہ وہ باتیں یا چیزیں کیا ہیں جن میں عدل ممکن نہیں تو اس کی تشریح اور عدل و انصاف کا فرق انشاء اللہ اس سورة مبارکہ کی زیر نظر آیت کے اپنے مقام پر ہوگا وہاں ملاحظ فرمائیں۔ قرآن کریم نے عام معاشرہ کے ظلم عظیم کو روکا ، تعداد ازواج پر پابندی لگائی اور چار سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام قرار دیا اور جو عورتیں ایک ہی وقت میں نکاح کے اندر ہیں ان میں مساوات حقوق کا نہایت موکد حکم اور اس کے خلاف پر وعید شدید سنائی۔ سب سے پہلے ” ماطاب “ کے الفاظ سے یہ بیان کیا کہ جو عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں ان سے تم نکاح کرسکتے ہو اور پھر اسی آیت میں چار کی پابندی لگائی گئی کہ اس سے اوپر ایک وقت میں حرام ہیں۔ پر ان میں عدل و انصاف کو لازمی اور ضروری قرار دیا گیا اور سب کے نان ونفقہ اور رہائش و مکان کے مسئلہ کو الگ الگ رکھنا ضروری قرار دیا گیا۔ آپ نے خود عملاً یہ ساری کام کر کے دکھا دیا کہ عدل بین الازواج اس طرح ہوتا ہے اور ان ساری باتوں کی اس کثرت سے بیان کیا گیا کہ کسی کو اس میں کوئی شبہ باقی نہ رہا اور پھر ارشاد فرمایا کہ جو شخص ان پابندیوں کو پورا نہ کرسکے وہ ایک سے زیادہ بیویاں نہ کرے بلکہ ایک وقت میں ایک ہی کفایت کرے اس کے تمام حقوق کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ کسی طرح کی زیادتی کا مرتکب نہ ہو۔ ” ماطاب لکم “ سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ شادی سے پہلے فریقین ایک دوسرے کو دیکھ لیں اور علاوہ ازیں بھی مطالب پھوٹتے ہیں لیکن تفصیل کسی دوسرے مقام پر انشاء اللہ۔ رہی یہ بات کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات ایک وقت میں چار سے زیادہ تھیں آخر کیوں ؟ اس لئے کہ ہر نبی کی کچھ خصوصیات ایسی تسلیم ہیں جو اس کی ذات کے ساتھ خاص ہیں۔ اس طرح یہ بھی رسول کے منصب کے لئے مخصوص بات تھی جو بغیر وجہ نہیں تھی۔ اور پھر یہ بھی کہ یہ حکم آنے سے پہلے ہی ان سے اکثر نکاح ہوچکے تھے نبی کی بیوی ام المومنین ہے جس سے دوسرے لوگوں کا نکاح حرام ہے اگر ان کو اس بندھن سے آزاد کیا جاتا تو ان کا سہارا کون ہوتا ؟ اور پھر جس طرح ہر خصوصاکت کے لئے کوئی ضروری بات ہے جس کی وجہ سے وہ خصوصیت رکھی گئی بعنیہ اس کی بھی خاص ضرورت تھی اس لئے اس کو آپ کی خصوصیت قرار دیا گیا۔ برابری کی ہمت نہ ہو اور ضرورت کا احساس بھی ہو تو دوسری جگہ ملک یمین سے نکاح کرلو : 11: عورت اور مرد ایک ہی جنس کی دو اصناف ہیں اور جنس کا جنس کی طرف میلان فطری امر ہے جس سے کوئی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا۔ ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری بیوی کی ضرورت پیش آجانا یہ بھی ایک فطری بات ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ دین اسلام کی طرف سے عدل و انصاف اور خصوصاً برابری تقسیم اوقات بھی لازمی اور ضروری چیز قرار دی گئی گویا کسی وقت ضرورت اور برابری کے درمیان بھی تقابل ممکن ہے کہ ایک طرف ضرورت کی شدت ہو اور دوسری طرف برابری کے حکم کا ڈنڈا۔ تو ڈنڈے کا ڈر بھی ایک فطری چیز ہے اور دو فطری چیزوں کے تقابل میں ایک کو قبول اور دوسری کو رد کرنا لازم و ضروری ہے۔ تو اس میں انسان کے لئے آسانی اس طرح پیدا کی گئی کہ ایک آزاد عورت سے شادی کرلی پھر دوسری شادی کی ضرورت کا احساس ہے اور عدل و برابری نہ کرسکنے کا خوف و ڈرتو ایسی صورت میں اگر ملک یمین عورت میسر آئے تو اس سے شادی کرسکتے ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ جو دو آزاد عورتوں کی برابری کے حقوق ہیں اس کے مقابلہ میں ایک آزاد اور دوسری ملک یمین کے حقوق برابر نہیں ہوں گے۔ اس لئے کہ جس طرح دو آزاد عورتوں کا عدل و انصاف اور برابری میں حق ہے اسی طرح دو ملک یمین کے عدل و انصاف اور برابری میں حق تو تسلیم ہے لیکن ایک آزاد اور دوسری ملک یمین میں ہر لحاظ سے برابری اور عدل و انصاف تو ویسے ہی عدل و انصاف کے خلاف ہے کیونکہ دونوں کے حقوق الگ الگ ہیں ایک جیسے نہیں۔ بالکل اس طرح جس طرح ایک بیٹا اور دوسرا غلام ہو تو دونوں کے حقوق برابر نہیں۔ ہاں ! جس طرح دو بیٹوں کے درمیان عدل و انصاف ضروری ہے بالکل اسی طرح دو غلاموں میں بھی لیکن یہ کوئی عقلمند تسلیم نہیں کرسکتا کہ ہر معاملہ میں بیٹے اور غلام کے درمیان عدل و انصاف اور برابری کے حقوق ہیں اور حقوق دونوں کے الگ الگ ہیں۔ جب تک حقوق ایک جیسے نہ ہوں تو عدل و انصاف یہی ہے کہ دونوں کو اپنے اپنے حق کے مطابق حق دیا جائے نہ کہ دونوں کو ایک جیسا کیونکہ یہ عدل و انصاف نہیں بلکہ ظلم عظیم ہے۔ اسے ایک اور مثال سے سمجھ لو یہ بات معلوم ہے کہ شریعت نے وراثت میں لڑکے کو دو لڑکیوں کو برابر حق دیا ہے یا لڑکی کو لڑکے کے مقابلہ میں آدھا حصہ دیا ہے ۔ اب کسی کے ایک لڑکی اور ایک ہی لڑکا ہے تو عدل و انصاف کیا ہوا ؟ یہی کہ لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کو دو گناہ ملے اور اگر اس طرح کیا جائے کہ لڑکے اور لڑکی میں برابر تقسیم کردیا جائے تو یہ عدل و انصاف کے خلاف ہوگا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ دونوں کا حق یا حصہ برابر برابر نہیں۔ اس کے باوجود دونوں کو برابر برابر دیا جائے گا تو ایک کی حق تلفی ہوگی جو عدل نہیں بلکہ ظلم ہے۔ اب زیر نظر آیت کا ترجمہ پڑھو ارشاد ہو رہا ہے کہ ” جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے کسی کو بیوی بنا لو یعنی نکاح کرلو۔ “ اس لئے کہ آزاد عورتوں کے لڑائی میں قید ہو کر آنے والی عورتوں کے حقوق برابر نہیں ہیں۔ ہاں ! ان کے ملک یمین رکھتے ہوئے جب تم نکاح کرلو گے تو زنا شوئی کا مزید تعلق تمہارا ان سے قائم ہوجائے گا۔ اس طرح اب وہ تمہاری خادمہ بھی ہیں اور بیوی بھی اس لئے اس سے خادمہ کا سا سلوک بھی کرسکو گے اور بیوی کا سا سلوک بھی اس طرح اس کے خادمہ ہونے کے حقوق بھی ادا کرنے ہو گے اور بیوی ہونے کے حقوق بھی۔ اس لئے ان دونوں حقوق کی نوعیت ایک جیسی نہیں ہوگی ایک بیوی ہے اور دوسری بیوی بھی اور خادمہ یعنی نوکرانی بھی۔ لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں نے ملک یمین کو ایسی ستم ظریفی کا نشانہ بنایا کہ نام لیتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ اس کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا کہ لڑائی میں قبضہ میں آجانے والی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ بغیر نکاح کے ہی استعمال کی جاسکتی ہیں ؟ گویا یہ انسان ہی نہیں رہی کہ اس کی مرضی اور خواہش کا بھی کوئی احترام ہو اور اس طرح مکافات عمل کا احساس بھی نہ پیدا ہوا کہ اگر کفار کی عورتیں ہمارے قبضہ میں آسکتی ہیں تو ہماری بھی ان کے قبضہ میں جاسکتی ہیں ؟ اس طرح ملک یمین میں جس طرح عورت آسکتی ہے بالکل اسی طرح مرد بھی پھر جس طرح ایک عورت کسی مرد کے حصے میں آسکتی ہے۔ اسی طرح کوئی مرد بھی کسی عورت کے حصہ میں جاسکتا ہے۔ پھر ان کی خریدو فروخت کے وقت جس طرح ایک آزاد مرد قید میں آئی ہوئی عورت کو خرید سکتا ہے۔ اسی طرح ایک آزاد عورت ایک قید میں آئے ہوئے مرد کو بھی خرید سکتی ہے۔ سارے پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد کہو جو کچھ کہتے ہو اور خصوصاً قرآن کریم کے الفاظ پر غور کرو اور اس ترتیب کو دیکھو جس ترتیب کے ساتھ اس کو بیان کیا گیا ہے۔ صرف اتنی بات کہ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا بلکہ اس کو اس طرح سمجھا گیا ہے اور یہ نئی صورت کہاں سے نکالی گئی ہے ؟ مطلق نہیں کوئی نئی صورت نہیں نکالی گئی بلکہ وہی کچھ کہا ہے جو قرآن کریم کے الفاظ کا تقاضا ہے اور جو بات سنت سے واضح ہوتی ہے۔ ہاں ! اس معاملہ میں کوئی صریح ثبوت موجود ہے جو صحیح بھی ہو اور اس کا یہی مطلب بیان کیا جاسکے کہ ملک یمین سے نکاح کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا ملک یمین ہونا ہی نکاح ہے تو اس کی دلیل میں وہ حدیث پیش کرنا چاہیے حالانکہ یہ ممکن نہیں تو ” ہَا تُوْ ابُرْہَا نَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن۔ “ ہاں ! اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ایک آزاد عورت بھی میسر نہ آئے تو کسی ملک یمین ہی سے نکاح کرسکتے ہو۔ یہ طریقہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو۔ ملک یمین کے ساتھ نکاح کرنے سے تم اس گناہ سے بچ سکتے ہو جس کا اس جگہ احتمال ہے : 12: دو عورتوں کے درمیان برابری اور انصاف نہ کرسکنے کی زد سے بچنے کے لئے ایک طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس طرح اس ملک یمین کی خواہشات کا احترام بھی بحال ہو سکتا ہے کیونکہ کسی کے لونڈی غلام ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ اب انسانی خواہشات سے مستثنیٰ ہوگئے ہیں نہیں بلکہ وہ انسان ہی ہیں اور ان میں بھی وہ ساری خواہشات موجود ہیں جو تم میں ہیں۔ یہ حالات کا تقاجا ہے جنہوں نے ان لوگوں کو تمہارے زبردست کردیا ہے۔ فرمایا : ذٰلِکَ اَدْنیٰ اَلَّا تَعُوْلُوْا “ بےانصافی سے بچنے کے لئے ایسا کرنا زیادہ قرین صواب ہے۔ “ ذلک کا اشارہ کس طرف ہے ؟ فواحدۃ کی طرف ہے یعنی ایک بی بی سے ہی ایک مرد کا نکاح ہونا زیادہ مناسب ہے تاکہ انسان ناانصافی سے بچا رہے۔ اس طرح گیویا پھر دوسری بار ” فَوَ احِدَۃً “ کے اصول پر زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ عامل لوگوں کے لئے جو اعلیٰ درجہ کا ضبط اور انصاف نہیں رکھتے یا ان کو انصاف قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہے تو وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کریں اور یہ بھی کہ اس طرح وہ کثرت عیالداری کی مصیبت کے نیچے دب جانے سے بھی بچیں گے کہ ایک ہی بی بی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ یہ ایک سے زیادہ اور چار کلی حد تک جو تم کو اجازت دی گئ ہے کہ تم نکاح کرسکتے ہو تو بعض ناگزیر حالات کے تحت ہے اگر تم برداشت کرتے ہوئے ایک ہی بیوی پر صبر کرو اور اس کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کرنے کے لئے تیار رہو تو یہ اس لئے بھی بہتر ہے کہ تم اس زد ہی میں نہ آؤ جہان دو متقابل چیزوں میں عدل و انصاف اور برادری کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ ملک یمین کیا ہے ؟ ملک یمین اسلام کی لائی ہوئی چیز ہے یا پہلے موجود تھی ؟ اسلام نے اس کے متعلق کیا کیا احکام دیئے ؟ اور ان کا نتیجہ کیا رہا ؟ ان کا جواب ابھی باقی ہے۔ ملک یمین کے موضوع پر ایک مختصر مگر جامع نوٹ : محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے عربوں میں کئی طرح کے نکاح موجود تھے یعنی ان کے رواج میں آچکے تھے۔ اور رواج پا جانے والی بات اس وقت بھی اور آج بھی کسی قوم کو بری محسوس نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ اس کے کرنے والے بہت سے لوگ ہوتے ہیں لہٰذا کون کس کو کہے گا کہ یہ صحیح نہیں جب کہ باب دادا سے من حث القوم سب ہی لوگ کرتے چلے جا رہے ہوں رواج کا خلاف اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ رواج صحیح بخاری ، سنن ابو داؤد ، مستخرج ابو نعیم ، اسماعیل جو زی اور دار قطی میں ان نکاحوں کی تفصیل موجود ہے جن کو اس طرح بیان کیا جا ستا ہے۔ عقیدۃ النکاح ، حلالۃ النکاح ، متعۃ النکاح ، بدل ازواج ، استبضاع جس کو ہندی میں نیوگ کا نام دیا گیا ہے اور ملک یمین۔ ملک یمین کیا ہے ؟ کیا یہ اسلام کی لائی ہوئی چیز ہے ؟ اس جگہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ملک یمین کیا ہے ؟ ملک یمین کفر و اسلام کی باقاعدہ جنگ ہونے کے بعد جو مرد یا عورتیں کفار کی طرف سے قید ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آجائیں وہ سب ملک یمین ہیں اور پھر ان کو بعض اوقات لوگون میں تقسیم کردیا جاتا تھا تاکہ وہ اس کو اپنے ساتھ شریک کار کرلیں اور ان کے مکمل کفیل و ذمہ دار ہوں۔ اس طرح جو جس کی ملکیت میں دے دیا جاتا وہ اس کا ” ملک یمین “ ہوتا۔ اسلام نے اس رسم کو مٹانے کے لئے بہت بڑا کام کیا اور کئی طریقے اس کے لئے بنائے گئے اور انجام کار اس کو پوری دنیا سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسلام آیا تو اس نے پہلے نکاح یعنی عقدۃ النکاح کو جائز اور باقی سب کو تدریجا مکروہ سمجھتے ہوئے آہستہ آہستہ حرام قرار دے دیا اور اب سوائے ایک کے یعنی اس پہلی صورت کے باقی سب حرام ہیں اگرچہ تفہیم نہ ہونے کی وجہ سے یا ضد وعناد کی بناء پر باقی صورتیں بھی کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہیں ان میں سے متعۃ النکاح اور ملک یمین اور کسی حد تک حلالہ پر تو آج تک عملدر آمد ہوتا آیا ہے۔ متعۃ النکاح شعیہ دوستوں نے اور اہل سنہ ہو کر ” ملک یمین “ کے استعمال سے روک نہیں سکتا بلکہ بعض صورتوں میں شیعوں کے ہاں تو ” متعۃ النکاح “ ضروریات دین میں داخل ہے۔ ہاں ! ملک یمین کا معاملہ اللہ نے اپنے قانون کے مطابق اور اسلام کی مساعی جمیلہ کے تحت اور محمد رسول اللہ ﷺ کی خصوصاً اسوہ حسنہ کی مثالوں کے پیش نظر بالکل ختم کر کے رکھ دیا اور آج سے نہیں بلکہ ایک مدت سے سوائے ایک دو موقع کے جو درمیان میں معرض وجود میں آگئے بیخ بن سے اکھاڑ کر رکھ دیا۔ اس لئے اس کی زیادہ تشریح کی ضرورت نہ تھی تاہم نظریاتی طور پر جب ایک نظریہ موجود ہو اور پھر اس کو اسلام کا نظریہ بھی سمجھا جائے تو زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی طریقہ سے اس کے ساتھ سابقہ پڑ ہی سکتا ہے۔ اس لئے اس کی زیادہ تشریح کی ضرورت نہ تھی تاہم نظریاتی طور پر جب ایک نظریہ موجود ہو اور پھر اس کو اسلام کا نظریہ بھی سمجھا جائے تو زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی طریقہ سے اس کے ساتھ سابقہ پڑ ہی سکتا ہے۔ اس لیے اتنا کہنا اب بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ بتا دیا جائے کہ اسلام نے اس کو پسند نہیں کیا بلکہ حرام ٹھہرایا اور جس چیز کی اجازت دی وہ صرف اور صرف نکاح کی تھی۔ اور بدستور اب بھی ہے جب بھی ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور علاوہ نکاح کے کنیزوں سے نکاح کا کام لینا بہرحال حرام ہے۔ لیکن چونکہ بدقسمتی سے من حیث القوم اکثریت نے بغیر نکاح استعمال بیوی جائز سمجھا ہے اس لیے اب گویا یہ قومی نظریہ کے طور پر مانا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ نظریہ صحیح نہیں ہے اور نہ ہی سوائے رواج کے اس کی کوئی سند قرآن و سنت سے واضح طور پر ملتی ہے اور جس بنیاد پر ایسا سمجھا گیا ہے وہ بنیاد بہرحال درست نہیں اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ اس کے متعلق کچھ عرض کردیا جائے۔ ہاں ! پہلے ان سارے طریقوں کا مختصر تعارف کرا دینا بھی خالی از فائدہ نہ ہوگا۔ 1۔ عقدۃ النکاح : جو اسلام نے جائز رکھا اس کی صورت تو عام ہے کہ اگر کسی کنواری عورت سے نکاح کرنا ہے تو اس کے ولی کی اجازت ضروری ہے۔ دو گواہوں کا ہونا بھی شرائط نکاح میں سے ہے جو عادل اور نیک ہوں اور مسلمان بھی ہوں اور حق مہر بھی لازم ہے وہ معجل ہو یا موجل لیکن اس کا مقرر کرلینا زیادہ صحیح ہے اور ادائیگی ہر حال میں لازم ہے۔ الا یہ کہ عورت مہر کا کوئی حصہ یا پورا مہر خاوند کو وصول کرنے کے بعد واپس کر دے یا معاف کر دے اور آخر میں ایجاب و قبول بھی شرائط نکاح سے ایک شرط ہے خواہ وہ زبان سے ہو اور خواہ اشارہ سے اگر کوئی شخص بول نہ سکتا ہو۔ 2۔ حلالۃ النکاح : وہی ہے جس کو آج بھی ” حلالہ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی شکل یہ تھی کہ جب کسی مرد نے تین طلاقیں دے دیں اور اب اس کو رجوع کا حق نہ رہا تو وہ اپنی بیوی کسی دوسرے کو اس شرط پر دے دے کہ آج نکاح کر کے اس کے ساتھ عمل زوجیت کرے اور ازیں بعد وہ طلاق دے دے تاکہ اس کا پہلا خاوند اس سے نکاح کرسکے جس کو اسلام نے کھلے الفاظ میں حرام کردیا لیکن اس کے باوجود بعض مکاتب فکر اس سے فائدہ اٹھا کر عورت کو پہلے خاوند کی ملکیت میں دینے کے لیے بطور حیلہ کرتے ہیں اس طرح اس حرام چیز کو حلال کی صورت میں تبدیل کر کے پیسے کمانے کا کاروبار کرتے ہیں اور اس کا رواج آج بھی دور جاہلیت کی طرح کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔ 3۔ بدل ازواج : وہ نکاح ہے کہ دو مرد شادی شدہ اپنی بیویوں کو ایک وقت کے لیے ایک دوسرے سے بدل لیں کہ آج کے لیے ایسا طے ہے چناچہ اس طرح کرلینے سے ایک دوسرے کی بیوی کو اپنی زوجیت میں رکھ کر اس سے اپنی خواہش نفسانی پوری کرسکنے کی اجازت کا نام ہے۔ جس کی برائی محتاج بیان نہیں تاہم یہ صورت عربوں میں اس وقت موجود تھی لیکن اسلام نے اس کو حرام قرار دیا۔ ہاں ! یہ کہ ایک مرد کسی عورت کو اپنی زوجیت سے نکال دے یعنی طلاق دے دے تو وہ عدت گزرنے کے بعد دوسرے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے لیکن اس کو اس صورت سے کوئی تعلق نہیں جو استبدال زوج میں بیان کی گئی ہے۔ 4۔ استبضاع : جس کو ہندوؤں کے ہاں نیوگ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یہ بھی تقریباً ازواج کے بدلنے ہی کی ایک صورت ہے تاہم اس کی تعریف جو ہندوؤں کے ہاں ہے وہی عربوں کے ہاں اس وقت تھی اور وہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ” جب خاوند اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تب وہ اپنی عورت کو اجازت دے دے کہ اے نیک بخت اولاد کی خواہش کرنے والی عورت تو مجھ سے علاوہ دوسرے خاوند کی خواہش کر کیونکہ اب مجھ سے تو اولاد نہیں ہو سکے گی۔ تب عورت دوسرے کے ساتھ تعلق قائم کر کے اولاد پیدا کرے لیکن اس طرح جو اولاد ہوگی وہ اس خاوند کی ہوگی جس کی وہ مستقل بیوی ہے اور جس نے اس کو نیوگ کی اجازت دی ہے اور جس طرح اعلانیہ بیان ہے اسی طرح اعلانیہ نیوگ ہے۔ ہاں ! نیوگ کرنے والی عورت مستقل اپنے پہلے خاوند کے گھر رہے گی دوسرے مرد سے صرف نیوگ کرے گی تا آنکہ اولاد ہوجائے جو اس نیوگ کرنے والے مرد کی نہیں بلکہ اس خاوند کی قرار پائے گی جس کی یہ منکوحہ بیوی ہے۔ 5۔ ملک یمین : ملک یمین کے متعلق یہ ہے کہ جب کوئی کنیز کسی کی طے پا گئی تو اب گویا وہ اس کی ملکیت پا جانے کے ساتھ حلال ہوگئی۔ ہاں ! کنیز کسی دوسرے کی ہوگی تو پھر نکاح کرنا ضروری ہے اس کے متعلق اکثریت مسلمانوں کی اسی طرح جانتی ہے اور سمجھتی ہے۔ چناچہ تحریر ہے کہ : (1) ” نکاح اپنی کنیز سے نہیں ہوتا وہ بغیر نکاح ہی مولیٰ کے لیے حلال ہے۔ “ (مولوی نعیم الدین مراد آبادی (رح) ترجمہ : احمد رضا خاں سورة النساء) ” مملوکات ملک یمین خواہ خریدے سے ملک یمین میں آئی ہوں یا ہبہ سے یا وراثت سے یا وصیت سے وہ سب حلال ہیں۔ “ (مراد آبادی (رح) (2) ” اور ان میں سے جو عورتیں ہوں ان سے ہم بستری کا حق بھی حاصل ہے۔ اس کا قیدی ہو کر آنا یہ خود اعلان نکاح کے قائم مقام ہے اور اس کے ہوتے ہوئے کسی مزید ایجاب و قبول اور شاہدین کی ضرورت نہیں۔ “ (مولانا عبدالماجد دریابادی (رح) (3) ” مملوکہ سے نکاح نہیں ہو سکتا وہ بدوں نکاح روا ہے۔ “ (مولانا سید امیر علی صاحب مواہب الرحمن) (4) کافروں کی ملک سے جو دارالحرب ہو عورتیں قید ہو کر آویں وہ لونڈیاں ہوجاتی ہیں یعنی مسمانوں کی ملک تو ان سے مالک کو صحبت کرنا درست ہے اگرچہ ان کے خاوند دارالحرب میں زندہ اور سلامت ہوں۔ دوسرے یہ کہ لونڈی بیچی جائے تو جس نے خریدا وہ اس سے صحبت کرسکتا ہے اگرچہ اس کا خاوند موجود ہو کیونکہ بیچنے سے وہ نکاح فسخ ہوگیا جو اس کے اگلے مالک نے کسی سے کرایا تھا۔ “ (مولانا وحید الزمان صاحب ترجمۃ القرآن) (5) ” جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کے لیے اس سے بہتر حل اور کیا ہو سکتا ہے کہ جو عورت حکومت کی طرف سے جس شخص کی ملکیت میں دی جائے اس کے ساتھ اس شخص کو جنسی تعلقات قائم کرنے کا قانونی حق دے دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ عورتیں ملک میں بداخلاقی پھیلاانے کا مستقل ذریعہ بن جائیں۔ “ (سید ابوالاعلیٰ مودودی (رح) تفہیم القرآن حصہ دوم ، ص : 323) ” شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم سے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے ایک ازواج دوسری ملکیت ایمانہم۔ ازواج کا اطلاق عربی زبان کے معروف استعمال کی رو سے بھی اور خود قرآن کی تصریحات کے مطابق بھی صرف ان عورتوں پر ہوتا ہے جن سے باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو اور یہی اس کے ہم معنی اردو لفظ بیوی کا مفہوم ہے۔ رہا لفظ ما ملکت ایمانہم تو عربی زبان کے محاورہ اور قرآن کے استعارات دونوں اس پر شاہد ہیں کہ اس کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے یعنی وہ عورت جو آدمی کی ملک میں ہو۔ اس طرح یہ آیت صاف تصریح کردیتی ہے کہ منکوحہ کی بیوی کی طرح مملوکہ لونڈی سے بھی صنفی تعلق جائز ہے اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ ملک ہے اگر اس سے بھی نکاح شرط ہوتا تو اسے ازواج سے الگ بیان کرنے کی حاجت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ ازواج میں داخل ہوتی۔ “ ” ملک یمین “ کا چونکہ اس جگہ بیان کرنا مقصود ہے اس لیے اس کا تعارف ذرا مفصل طور پر آپ کو کرا دیا گیا تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکے کہ ہمارے علمائے کرام نے اس کے متعلق جو بیان کیا ہے اس کے متعلق کوئی بات مبہم نہ رہ جائے۔ اس سے پہلے کہ ہم ” ملک یمین “ کے متعلق اظہار خیال کریں اور جو کچھ قرآن و سنت سے سمجھا ہے اس کو پیش کریں پہلے اتنی بات آپ اچھی طرح سمجھ لیں کہ تاریخ اور احادیث میں اس طرح کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ : 1۔ ایک کنیز ایک آدمی کی ملکیت میں تھی پھر وہ اس کے بیٹے کی ملکیت میں آگئی اور پھر وہ اس کے پوتے کی ملکیت میں چلی گئی اور اس طرح اس سے جو کچھ ثابت ہوا وہ کیا ہے ذرا غور فرما لیں۔ 2۔ اس کی مثالیں بھی تاریخ اور احادیث دونوں میں موجود ہیں اور ایک دو نہیں زیادہ ہیں کہ ایک ہی مرد کی ملک میں دو بہنیں اکٹھی یا دو ماں بیٹی اکٹھی اور پھوپھی بھتیجی اکٹھی آئیں بلکہ خود رسول اللہ ﷺ نے تقسیم فرما کردیں۔ اس طرح ملک یمین سے جب نکاح نہیں ہے تو ان سب کو ایک کی ملک میں دینے سے جو کچھ لازم آتا ہے اس پر بھی غور فرما لیں۔ 3۔ ایک عورت کسی ایک مرد کی ملکیت میں آگئی اور اس نے اپنے بیٹے یا بھائی سے اس کا نکاح کردیا کیونکہ وہ ابھی اس کے بیٹے کی ملکیت میں نہ ہے لہٰذا باپ ملک ہونے کے ناطے اور بیٹا منکوحہ ہونے کے ناطے اس سے ازدواجی تعلق قائم کرسکیں گے لہٰذا اس پر بھی فکر کرنا ہوگا۔ 4۔ ایک عورت کسی ایک مرد کی ملکیت میں آگئی اور اس نے کسی دوسرے غیر رشتہ دار کو نکاح کردی اب پہلا مرد جس کی وہ ملکیت ہے وہ بدستور مالک ہے لیکن دوسرے کی زوجیت میں ہے اس طرح دونوں اس سے تعلق خاص پیدا کرنے کے حق دار ٹھہریں گے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیسے ؟ اگر ٹھہریں گے تو ایک ہی وقت میں ایک عورت کو دو مردوں سے حق زوجیت مل گیا تو پھر کیا خیال ہے ؟ اگر اس کے ہاں اولاد ہوگی تو وہ کس کی قرار پائے گی ؟ 5۔ مولاناؤں نے بیان فرمایا کہ ” ممو کہ سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ “ نکاح اپنی کنیز سے نہیں ہوتا۔ (قرآن کریم کہتا ہے کہ ” تم میں جو کوئی اس کا مقدر نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان بیبیوں سے نکاح کرے تو ان عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے جو تمہارے قبضے میں آئی ہیں اور مومن ہیں۔ “ (النساء : 25:4) بات کس کی مانیں ؟ اللہ کی یا مولاناؤں کی ؟ 6۔ ملک یمین مرد بھی ہوتا ہے اور عورت بھی۔ یہ کہنا کہ صرف عورت ہی ملک یمین ہوتی ہے بالکل صحیح نہیں۔ اس کا اطلاق عورت پر بھی ہوتا ہے اور مرد پر بھی اور عورت اور مرد دونوں کو ملا کر بھی۔ چناچہ خود مولانا مودودی صاحب (رح) ارشاد فرماتے ہیں کہ : ” جمہور مفسرین و قفہاء کے نزدیک اس سے مراد لونڈیاں اور غلام دونوں ہیں کیونکہ لفظ عام استعمال کیا گیا ہے۔ “ ( سورة النور) 7۔ پھر جس طرح عورت کسی مرد کے ملک یمین میں آسکتی ہے کسی عورت کو ملک یمین مرد بھی حصے میں آسکتا۔ ہبہ کر کے دیا جاسکتا۔ وصیت سے دیا جاسکتا اور کوئی آزاد عورت اس کو خرید بھی سکتی ہے پھر ان صورتوں میں وہ اس عورت کا ملک یمین ہوگیا تو آخر وہ آزاد عورت جس نے غلام خرید لیا یا اس کو ہبہ میں دے دیا گیا ہے یا وصیۃً مل گیا تو پھر کیا ہوگا ؟ 8۔ ” حسن “ نے اپنی باندی کو اجازت دی کہ وہ جس سے چاہے نکاح کرلے اس نے مالک کی اجازت سے ” حسین “ کے ساتھ نکاح کرلیا اور اس سے نکاح کے بعد ” حسن “ نے اس باندی کو کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کردیا۔ اب ” حسین “ کے نکاح کا کیا ہوا ؟ نکاح باقی رہا یا اس کا بکنا ہی طلاق ہوگیا ؟ نکاح باقی رکھنے میں کتنے مفاسد ہوئے معلوم ہیں ؟ اور نکاح باقی نہ رکھنے میں کیا ہوا ؟ ذرا غور کریں ! ! چنانچہ اس کی مثالیں بھی کثرت سے احادیث و تاریخ میں موجود ہیں کہ عورتوں نے غلام خریدے اور ان سے کام کاج بھی لیا اور پھر کچھ دیر کے بعد ان کو آزاد بھی کردیا کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ان عورتوں کو خریدتے ہی ان غلاموں سے ازدواجی تعلقات کی اجازت تھی ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس کے لیے کوئی ممانعت کی شرعی دلیل کیا ہے ؟ اور وہ اس حکم سے پہلے بیان ہوئی یا بعد۔ علاوہ ازیں بھی اس کے متعلق بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے لیکن تفہیم کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے۔ ہم قارئین سے امید رکھتے ہیں کہ وہ قلت و کثرت کی پٹی اتار کر براہ راست قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پر غور کریں گے کیونکہ یہ ہر ایک انسان کا فرض ہے کہ وہ کلام اللہ اور کلام رسول اللہ ﷺ پر انحصار کرتے ہوئے صحابہ کرام ؓ اور بزرگان دین کے اقوال سے استفادہ کرے نہ کہ لکیر کا فقیر ہو کیونکہ استفادہ کرنا اندھی تقلید کا نام نہیں۔ قرآن کریم میں اس ملک یمین کا ذکر تقریباً پندرہ مقامات میں کیا گیا ہے جن میں سے بعض جگہ اس سے مراد صرف عورتیں ہیں جو کہ کسی لڑائی میں تقسیم ہو کردی گئی ہوں ، کسی جگہ اس طرح کے مرد اور عورتیں دونوں مراد ہیں اور کسی جگہ صرف مرد مراد ہیں جو اس طریقہ سے حاصل ہوئے ہوں۔ چناچہ سورة النساء کی آیت 36 میں جو لفظ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ آیا ہے اس کا ترجمہ سارے مترجمین نے لونڈی غلام دونوں سے کیا ہے جیسے کہ مولانا مودودی (رح) نے بھی دونوں ہی کو مراد لیا ہے فرماتے ہیں ” اور لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں۔ “ اور اس سورة کی آیت 25 میں جو لفظ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ آیا ہے اس سے مراد سب نے باندیاں ہی مراد لی ہیں جیسا کہ مولانا مودودی صاحب بھی فرماتے ہیں کہ ” تماہری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلے جو تمہارے قبضے میں ہوں۔ “ سورة النور آیت 31 اور سورة الاحزاب کی آیت 55 میں یہ لفظ اس طرح آیا ہے کہ ما ملکت ایمانھن ” جن کے مالک ہوتے ہیں داہنے ہاتھ کے ان کے یعنی مسلمان عورتوں کے۔ مولانا مودودی صاحب کے علاوہ سب کا نقطہ نظر تقریباً یہی ہے لیکن مولانا نے اس جگہ ترجمہ کیا ہے ” اپنے مملوک۔ “ سورۃ النور میں عام مسلمان عورتوں کو جو پردے کا حکم دیا گیا ہے اس میں ان مردوں کی فہرست دی گئی ہے جن کے سامنے زیب وزینت کرنے کی اجازت ہے اور اس میں وہ غلام بھی داخل ہیں جو ان آزاد مسلمان عورتوں کی ملکیت میں ہیں۔ اس لیے عام مفسرین نے اس جگہ لونڈی غلام مراد لے کر یہ لکھا ہے کہ مومن عورتیں جن کی ملکیت میں لونڈی غلام ہیں ان سے زیب وزینت کا پردہ نہیں ہے لیکن مولانا مودودی کو مملوک ترجمہ اس لیے کرنا پڑا کہ وہ اس طرح ان ” مملوک “ سے صرف لونڈیاں مراد لینا چاہتے ہیں غلام نہیں۔ کیوں ؟ اس لیے کہ ان کی فیاضی خاص مردوں کے ساتھ ہے کہ اگر کسی آزاد مرد کے ملک میں کوئی باندی آجائے تو اس کو حق ہے کہ وہ بغیر نکاح اس سے ازدواجی تعلق بھی قائم کرے کیونکہ وہ اس کی ملکیت ہے اور ” حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے۔ لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔ “ لیکن اس کے برعکس یہی حقوق حکومت کی طرف سے کسی عورت کو مل جائیں اور وہ کسی غلام کی مالک بن جائے تو وہ اپنے غلام کے ساتھ زیب وزینت نہیں کرسکتی وہ اس کے لیے ایسا ہے جیسا کہ ” آزاد اجنبی مرد “ کیوں ؟ اس لیے کہ ” غلام کے لیے اس کی مالک محرم نہیں ہے اگر وہ آزاد ہوجائے تو اپنی سابقہ مالکہ سے نکاح کرسکتا ہے۔ لہٰذا محض غلامی اس امر کا سبب نہیں ہو سکتی کہ عورت اس کے سامنے وہ آزادی برتے جس کی اجازت محرم مردوں کے سامنے برتنے کے لیے دی گئی ہے۔ “ گویا کوئی باندی جب کسی مرد کی ملکیت میں آجائے تو ” حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے ازدواجی تعلق میں کراہت محسوس کرے۔ “ لیکن یہی حقوق ملکیت عورت کو مل جائیں اور وہ کسی غلام کی مالک بن جائے تو وہ اپنے غلام کے سامنے جس کی وہ مالکہ ہے زیب وزینت بھی نہ کرے اس لیے کہ وہ اس کے لیے ایسا ہی ہے جیسا کہ ” آزاد اجنبی مرد “ کہ ” غلام کے لیے اس کی مالکہ محرم نہیں ہے۔ “ اس کو کہتے ہیں کہ ” میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو۔ “ ” حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم جو پہلے عیسائی تھے جب نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے تو انہوں نے منجملہ اور سوالات کے ایک یہ سوال بھی کیا تھا کہ ” انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ “ اس آیت میں ہم پر اپنے علماء اور درویشوں کو خدا بنا لینے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے ؟ جواب میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے اور جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ضرور ہم کرتے رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : بس یہی ان کو خدا بنا لینا ہے اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعم خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حق شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدا بناتے ہیں۔ “ (تفہیم القرآن ، جلد دوم ، سورة التوبہ ، ص : 190) مولانا کا روحانی حلقہ ما شاء اللہ بہت وسیع ہے اس لیے ہم امید رکھتے ہیں کہ مولانا کی اس حلت و حرمت اور جائز و ناجائز کو قرآن کریم کی کس آیت سے ثابت کریں گے کیونکہ ہمیں تو بہرحال یہ تقسیم کسی آیت یا حدیث سے معلوم نہیں ہوئی اور اس طرح جو مولانا ” حلال قرار دیتے ہیں وہ حلال “ نہیں مان سکتے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ اگر ایسا مان لیا تو گویا ہم نے مولانا مودودی صاحب کو خدا مان لیا۔ ہم پورے وثوق سے یہ کہتے ہیں کہ نہ مولانا کا یہ دعویٰ تھا اور نہ ہی ہم کو یہ منظور ہے اگر ان کا دعویٰ ثابت بھی ہوجائے تو ہم بہرحال اس سے انکاری ہیں۔ مولانا مودودی رقمطراز ہیں فرماتے ہیں : ” جنگ میں پکڑی گئی عورتوں سے تمتع کے معاملہ میں شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہلی میں سے ہوں۔ ان کا مذہب خواہ کوئی ہو۔ بہرحال جب وہ تقسیم کردی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں گی وہ ان سے تمتع کرسکتے ہیں۔ “ (تفہیم القرآن جلد اول ص 340 حاشیہ 43 کی شق نمبر 3) اور قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ (النساء : 25:4) ” جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں سے نکاح کر سے اسے چاہیے کہ تمہاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں۔ “ (تفہیم القرآن ، جلد اول ، ص : 341) مولانا صاحب کے حاشیہ کا نوٹ جو اوپر ذکر ہوا کہ جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملہ میں کوئی شرط نہیں کہ ان کا مذہب خواہ کوئی ہو اور قرآن کریم کی آیت کا ترجمہ جو مولانا مرحوم نے کیا کہ ” ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں۔ “ کوئی فرق تو نظر نہیں آیا ؟ اگر آیا ہے تو وہ کیا ؟ ” ان کا مذہب خواہ کوئی ہو۔ “ اور ” وہ مومنہ ہوں “ ایک ہی بات ہے ؟ ” مِنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُوْمِنٰتِ “ قرآن کریم کا فرمان ہے اور ” ان کا مذہب خواہ کوئی ہو۔ “ یہ مولانا مودودی کا ارشاد ہے۔ اگر ان دونوں جملوں کا ایک ہی مطلب ہے تو چشم ما روشن و دل ماشاد۔ اگر دونوں جملوں میں تضاد ہے تو پھر کس کو مان لیا جائے اور کس کو چھوڑ دیا جائے ؟ اس کا جواب اپنے ضمیر سے طلب کریں ان شاء اللہ دو ٹوک ملے گا۔ اب مولانا ہی کے ترجمہ کو جو انہوں نے سورة النساء کی آیت 25 ” مِنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُوْمِنٰتِ “ تک کیا ہے ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ایک بار پھر پڑھ لیں۔ ” اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محصنات) سے نکاح کرسکے اسے چاہیے کہ اپنی ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرے جو اس کے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں۔ “ قرآن کریم کی سورة النساء سے آیت 25 کو نکال لیں اور کم از کم تین بار پڑھیں اور پھر اس ترجمہ پر غور کریں کہ اس میں کوئی نقص یا کمی و بیشی تو نہیں ہوئی اگر ہوئی ہے تو کیا ؟ کیا آیت کا یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے ؟ سورۃ النساء کی اس آیت یعنی آیت 25 کا مکمل ترجمہ و مفہوم ملاحظہ فرمائیں۔ ” اور تم میں جو کوئی اس کا مقدور نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان بیبیوں سے نکاح کرے تو ان عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے جو لڑائی کے قیدیوں میں سے تمہارے قبضے میں آئی ہیں اور مومنہ ہیں اور اس بات میں کوئی ذلت اور عیب نہ سمجھو کہ تم نے ایک ایسی عورت سے نکاح کر لاں جو لڑائی میں قید ہو کر آئی تھی اور لونڈی بنا لی گئی تھی۔ اصل چیز ایمان ہے اور اللہ تمہارے ایمانوں کا حال بہتر جاننے والا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک مومن لونڈی ایمان کے لحاظ سے بہتر درجہ رکھتی ہو اور ایک شریف زادی ایمانی خصائل سے محروم ہو اور تم سب ایک دوسرے کی ہم جنس ہو یعنی انسان ہونے کے لحاظ سے سب ایک ہی طرح کے انسان ہیں۔ پس ایسی عورتوں کو ان کے سرپرستوں کی اجازت سے بلاتامل اپنے نکاح میں لاؤ اور دستور کے مطابق ان کا مہر ان کے حوالے کر دو البتہ یاد رہے کہ وہ ازدواجی زندگی کی قید و بند میں رہنے والی ہوں۔ بدکار عورتیں نہ ہوں اور نہ ایسی ہوں کہ چوری چھپے بدچلنی کرتی رہتی ہوں۔ “ آیت کے اس حصہ سے جو احکام ثابت ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں : 1۔ اسیران جنگ میں سے جو عورتیں تمہارے قبضہ میں آجائیں انہیں اس لیے حقیر و ذلیل نہ سمجھو کہ وہ دوسری قوم کی عورتیں ہیں یا یہ کہ وہ لڑائی میں قید ہو کر آئی ہیں۔ انسان ہونے کے لحاظ سے ہر آدمی دوسرے آدمی کا ہم جنس ہے اور انسانی برادری کا رشتہ سارے رشتوں سے زیادہ قابل لحاظ ہے۔ اس لیے ان میں سے جو عورتیں مسلمان ہوجائیں اور اسلام بھی اپنی مرضی سے قبول کریں تم ان سے بلاتامل نکاح کرسکتے ہوں خصوصاً اپنے خاندان کی آزاد عورتیں میسر نہ آئیں تو آخر وہ بھی عورتیں ہی ہیں اگر ان کی رضا بھی ہو تو تم ان کو ان سے نکاح کرلینے میں کوئی چیز مانع نہ ہونی چاہیے۔ 2۔ نکاح کے لیے ایمان شرط ہے اور یہ بھی کہ ان کی اپنی رضا بھی ہو کیونکہ بزور ایسی حرکت انسانیت کے خلاف ہے اور اسلام کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو انسانیت کے لیے ننگ و عار ہو۔ خاندانی نہیں تو انسانی رشتہ تو تمہارا ان سے موجود ہے۔ ہاں ! ان کا حق مہر بھی ادا کرنا ضروری ہے جس طرح خاندانی عورتوں کا حق مہر لازم ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ ان کی ملکیت حاصل ہونے کی وجہ سے اب تم ان کے حق مہر ہی کو خورد برد کر دو یہ گویا ایک ازدواجی حق ہے جو مرد پر لازم کردیا گیا ہے کہ شریک زندگی کو شریک مال بھی ایک حد تک کردیا جائے۔ 3۔ اس طرح وہ تمہاری بیوی بھی ہوگی اور ملک یمین بھی جس سے تم کو یہ سہولت بھی حاصل ہوگی کہ اس تعلق کی بناء پر تم اس سے گھر کے کام کاج میں زیادہ مدد لے سکو گے اور وہ بھی اس طرح تمہاری ممنون احسان ہو کر زیادہ خدمت دینے کو تیار ہوں گی کہ اب تم ان کے دوہرے مالک اور دوہرے حقوق کے ادا کرنے والے ہو اور اس طرح ان کے اتنے مطالبات بھی نہیں ہوں گے جتنے کہ خاندان کی عورتیں کرسکتی ہیں۔ 4۔ تمہاری ملکیت میں جو کنیز دی گئی ہے اگر تم خود اس سے نکاح کرنا پسند نہیں کرتے یا تم کو حاجت نہیں ہے اور اس طرح تمہارے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو ضرورت ہے اور وہ چاہتا ہے تو اپنی کنیز سے پوچھ لو اگر وہ بھی پسند کرے تو اس کو نکاح کیا جازت دے دو کیونکہ انسانیت کے تقاضے سارے انسانوں کے ساتھ ایک ہی جیسے ہیں اگر ان کو حالات نے کنیز و غلام بنا دیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب وہ انسان نہیں رہے۔ اس طرح جب تم کسی دوسرے کو نکاح کرلینے کی اجازت دے دو گے اور اپنی کنیز کو نکاح سے منع نہیں کرو گے تو اس سے دو انسانوں کی ضرورت بھی پوری ہوگی اور تمہارا بوجھ بھی ہلکا ہوگا جو اس کنیز کا تم پر پڑچکا تھا کیونکہ اب وہ جس کی زوجیت میں ہے اس کی ضروریات کا وہ کفیل ہوجائے گا۔ 5۔ اس کے باوجود کہ اس کا نکاح تم نے کسی دوسرے آدمی کو کردیا اپنے گھر کے کام کاج میں اس سے مدد لے سکو گے کیونکہ وہ تمہاری ملک یمین ہے اور یہ بات اس کے ہونے والے خاوند کو بھی معلوم ہے۔ 6۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ جب تم دوسرے کے نکاح میں دو گے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ چونکہ وہ تمہاری ملک یمین ہے اس لیے جو اس کا حق مہر ہوگا اس کے تم مالک ہوجاؤ گے ہرگز نہیں وہ حق زوجیت ہونے کے لحاظ سے اس کا اپنا ذاتی حق ہے اس کا مہر کھانے کی تم کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔ 7۔ اس میں تم سب کے لیے خوبی اور بھلائی ہے کہ ایسی عورتوں سے خصوصاً جب کہ وہ جوان اور خوبرو بھی ہوں یا خود نکاح کرو یا کسی ضرورت مند سے نکاح کر دو کہ اس طرح دونوں طرف سے ایک مشکل امر کا خوف جاتا رہے گا یعنی کسی برائی کے مرتکب ہونے کا خطرہ مٹ جائے گا لیکن اگر کنیز نکاح کے لیے تیار نہ ہو یا تم کسی مصلحت کے پیش نظر نکاح نہ کرسکو اور نہ ہی کسی دوسرے جگہ نکاح کرو تو بھی اس میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ جو کچھ کیا جائے انسدانیت کے حقوق کے اندر رہ کر کیا جائے اس سے تجاوز نہ ہو۔ کیونکہ اس کا حقیقی فیصلہ وہی ہوگا جو فریقین کی مرضی کے مطابق ہو۔ 8۔ جو کچھ تمہیں کرنا چاہیے وہ پاک دامنی اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے کرنا چاہیے اس کا نتیجہ بےحیائی اور بری بات یعنی نفس پرستی نہ ہو اور ہر عمل کا انحصار نیت پر ہے یہ اصول تم کو بھول نہ جانا چاہیے اور فضیلت کا معیار ایمان و عمل ہے نہ کہ حسب ونسب۔ 9۔ احکام معاشرت میں سختیاں اور جکڑ بندیاں نہ ہوں کیونکہ یہ انسانیت کے خلاف ہیں اور انسانیت کا احترام ہر فرد و بشر پر لازم و ضروری ہے اور معاشرت کا تقاضا سہولتیں اور آسانیاں ہیں۔ سختیاں اور جکڑبندیاں نہیں۔ 10۔ نکاح کرنے سے پہلے ان حرام رشتوں پر نظر رکھنا ضروری ہے جو اسلام نے حرام قرار دیے ہیں۔ یعنی دو کنیزیں ایسی جمع نہ کریں جو ازروئے اسلام جمع نہ ہو سکتی ہوں کیونکہ وہ اصولی باتیں جو اوپر بیان ہوئی ہیں ان کا خلاف کسی حال میں قبول نہیں ہوگا کہ اسلام اپنے اندر پختہ اصول رکھتا ہے وہ موم کی ناک نہیں ہے۔ یاد رہے کہ جنگی قیدیوں کے متعلق جو حکم عام دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یا ان پر احسان کرو اور یا فدیہ کا معاملہ کرلو۔ احسان اس میں کیا ہے ؟ یہی کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ یہ کہ قتل یا دائمی قید کی بجائے ان کو غلام و باندی بنا کر افراد مسلمین کے حوالہ کردیا جائے۔ یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنا لیا جائے اور یہ بھی کہ ان کو بلامعاوضہ رہا کردیا جائے۔ اس طرح گویا یہ ان پر احسان ہوا جو انسانیت کے حقوق میں سے ایک اہم حق ہے۔ اور اس طرح فدیہ کا معاملہ بھی تین طریقوں سے کیا جاسکتا ہے ایک یہ کہ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے دوسرے یہ کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت ان سے لی جائے جو دائرہ انسانیت اور اسلام کے اندر رہ کرلی جائے اور ان کو اس طرح خدمت لے لینے کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کے قبضے میں ہوں ان کا تبادلہ کرلیا جائے اور اس طرح گویا اس کو اولیت حاصل ہونا چاہیے۔ اسلام کے مختلف ادوار میں ان پر عمل ہوتا رہا اور خود رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ان کی اس طرح حفاظت کی گئی جس طرح کوئی شخص اپنے مہمانوں کی خدمت کرتا ہے۔ اگر ان سے کوئی کام لیا گیا تو وہ بھی انہی اصولوں کے مطابق جو اصول اسلام نے انسانیت کو پروان چڑھانے کے لیے قائم کیے تھے۔ آپ کی ہدایت کہ ” استوصوا بالاساری خیرا “ کہ ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا کے اصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ مختصر یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے یہ بات مسلمانوں کو سکھائی کہ ملک یمین مرد ہو یا عورت سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کو ملکیت میں آتے ہی آزاد کر دو اور پھر آزاد ہونے کے بعد وہ چاہیں اپنے ملک اور اپنے لوگوں میں واپس چلے جائیں اگر وہ یہاں ہی رہائش پذیر ہونا پسند کریں تو ان عورتوں سے جن کو تم نے آزاد کیا ہے خود نکاح میں لے آؤ ورنہ ان کو آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں نکاح کرنے دو ۔ آپ ﷺ نے خود ایک یا دو کنیزوں کو آزاد کیا اور ان کو امہات المومنین میں داخل ہونے کا شرف نصیب ہوا اور کچھ نے دوسری جگہ بھی نکاح کیے جیسے ام ایمن وغیرہ۔ ہمیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ بھی بات کہی گئی کہ آپ ﷺ نے کئی ایک کنیزیں بےنکاح رکھی تھیں اور ان سے تعلق خاص بھی قائم کیا تھا لیکن اس طرح کی ساری باتوں کو ” خرافات “ کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم ان کو عمداً بیان کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان کو ترک کرتے ہیں اور پورا زور دے کر کہتے ہیں کہ ایسی ساری روایتوں کا نہ سر ہے اور نہ پیر صرف دو اذکار قصے اور کہانیاں ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ ہاں ! آپ ﷺ نے ایک یا دو کنیزوں سے نکاح کیا ان کا ولیمہ کیا اور حق مہر ادا کیا اور پردہ کرنے کا حکم بھی صادر فرمایا۔ اس میں زیادہ ہی کوئی گہرائی میں اتر کر دیکھے گا اور ان روایات کا تجزیہ کر کے کوئی بات پیش کرے گا تو صرف یہ کہ کسی کو نکاح میں رکھا ہو اور آزاد نہ کیا ہو جب کہ اس کیا جازت موجود تھی۔ حالانکہ یہ بات بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتی۔ قرآن کریم کی وہ دو آیات جن سے یہ سمجھ لیا گیا ہے جن کا ذکر بھی ہم ابھی اوپر کر آئے ہیں وہ یہ ہیں : وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ اِِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ (المومنون : 6 ۔ 5:23) ” جو لوگ اپنے ستر کی نگہداشت سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ ہاں ! اپنی بیبیوں سے زنا شوئی کے علاقہ رکھتے ہیں یا ان سے جو ان کی ملکیت میں آگئیں یعنی غلامی میں پڑی ہوئی عورتیں جو ان کے نکاح میں آگئیں تو ان سے علاقہ رکھنے پر ان کے لیے کوئی ملامت نہیں۔ “ اور دوسری جگہ آیات سورة المعارج کی 31/30 ہیں جو بالکل لفظ بلفظ ایک ہی جیسی ہیں ان میں ایک حرف یا زبر و زیر کا فرق بھی نہیں گویا وہی مضمون المعارج میں بھی بیان ہوا ہے اور یہ دونوں سورتیں مکی ہیں اور ان کا زمانہ نزول بھی بالکل قریب قریب ہے اگرچہ المومنون المعارج سے پہلے کی نازل شدہ ہے۔ گویا المومنون ہی کا مضمون المعارج میں دہرایا گیا ہے اور ابھی تک اسلامی جنگوں اور ان کے امیروں کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ عربوں میں ملک یمین کی جتنی صورتیں اس وقت رائج تھیں اور عربوں کی ازدواجی زندگی کا جو حال تھا اس کی طرف ہم نے شروع ہی سے اشارت دے دیے ہیں اور اسلام نے جو ان کی اصلاح کی اور جس طریقہ سے کی وہ قابل داد اور تحسین و شاباش کے لائق ہے۔ پھر اسلامی ترقی کا زمانہ آیا تو اس میں دفاعی جنگیں بھی لڑی گیں اور ان کے اندر جو قیدی آئے ان کی مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی کی گئی اور احسان و سلوک کے تحت ، جنگی قیدیوں کے تبادلہ اور مفتوح قوموں کی عورتوں کے مسلمان ہونے کے بعد ان سے نکاح ان کے خاندانوں کے سربراہوں کی بیٹیوں کے خود رسول اللہ ﷺ سے نکاح ہونے سے ان کے قیدیوں کی رہائی جیسے کام عمل میں لائے گئے اور آہستہ آہستہ اس زعم کو نیست و نابود کردیا گیا۔ تاہم جب تک اس کے اثرات باقی رہے ان میں اصلاح کی مسلسل کوششیں اختیار کی گئیں جن میں ایک کوشش ان کے مسلمان ہوجانے کے بعد نکاح کرنا بھی تھا۔ اس لیے کہ نکاح کے بعد اس عورت کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ جب اس کے ہاں اولاد ہوجاتی تو خودبخود آزاد ہوجاتی تھی۔ نکاح کی صورت میں اس کو حق مہر وصول ہوتا تھا جس سے اس کی انسانیت کو ایک سہارا مزید مل جاتا تھا۔ ملک کا کسی دوسری جگہ ان کا نکاح کردینے میں بھی انہی عورتوں کا فائدہ ہوتا تھا جس سے اس کی انسانیت کو ایک سہارا مزید مل جاتا تھا۔ مالک کا کسی دوسری جگہ ان کا نکاح کردینے میں بھی انہی عورتوں کا فائدہ ملحوظ خاطر رکھا گیا اور ملک یمین کو آزاد عورتوں سے الگ اس لیے رکھا گیا کہ ملک یمین سے نکاح کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور اس عیب کو مٹانے کے لیے جب تک ان کا نام ملک یمین ہی سے نہ لیا جاتا کوئی صورت اور اس کے عیب کو مٹانے کی نہ تھی اور یہ بھی کہ جب کسی طرح سے قومی تقسیم تشکیل پا جاتا کوئی صورت اور اس کے عیب کو مٹانے کی نہ تھی اور یہ بھی کہ جب کسی طرح سے قومی تیمی تشکیل پا جاتی ہے تو اس کو جب تک اس قوم کی طرف منسوب نہ کیا جائے اس وقت تک وضاحت ممکن نہیں ہوتی۔ یہود و نصاریٰ کے وہ لوگ جو ایمان لا چکے تھے ایمان لا چکنے کے باوجود ان کو اہل کتاب کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مہاجرین و انصاری دونوں ایک ہی وطن کے باشندے تھے صرف فرق یہ تھا کہ ایک شہر سے وہ دوسرے شہر ہجرت کر آئے تھے دونوں کے اسلام لانے اور اسلام کی خدمت کرنے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش موجود نہیں ہے تاہم وہ مہاجر و انصار کہلاتے رہے۔ اوس و خزرج دو قبیلوں کے لوگ جب مسلمان ہوئے تو اسلام لانے کے باوجود ان کو خزرعی اور اوس ناموں سے یاد کیا گیا ہے اور یہ ساری تقسیمات مع شے زائد آج بھی موجود ہیں اس لیے کہ ایک دفعہ تقسیم ہونے کے بعد یا اس کا کوئی نام رکھا جانے کے بعد اس کا بدلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اسی بنیاد کے پیش نظر اہل کتاب سے نکاح جائز اور اہل کتاب کا کھانا حلال رکھا گیا لیکن مسلمانوں نے ان القابات سے جو جو ٹھوکریں کھائیں ان کا بیان بہت لمبا ہے اور ایک بار جب کوئی غلطی رواج پا جاتی ہے اس کی اصلاح نہایت ہی مشکل ہوتی ہے تعجب ہے کہ مشرکوں کے ساتھ مناکحت کو اسلام نے واضح الفاظ میں منع فرمایا اور پھر اس سے بھی واضح الفاظ اہل کتاب کے دونوں گروہوں سے شرک کا رد کیا۔ یہ شرک کا رد کیا تھا ؟ اس سے کیا بات ثابت ہوتی تھی ؟ یہی کہ اہل کتاب سارے کے سارے نہیں تو کم از کم ان کی کثیر تعداد کھلے شرک کی مرتکب ہوچکی ہے۔ لیکن ان ساری باتوں کے باوجود ہٹ دھرمی سے ہر طرح کے اہل کتاب سے مناکحت اور ہر قسم کے اہل کتاب کے کھانے حلال و طیب سمجھے گئے یہاں تک کہ وہ چیزیں جو ان کے لیے قطعی حرام تھیں جب انہوں نے اپنی قومی غلطی کی بناء پر ان کو حلال بنا لیا تو اہل اسلام نے اگرچہ اختلافی صورت ہی میں سہی ان کو کھا لینے کا فتویٰ دیا اس لیے کہ وہ اہل کتاب کا کھانا تھا۔ ایک بات ہو تو اس کی تفہیم پر وقت لگایا جائے جب آوے کا آوا ہی خراب ہوجائے تو اصلاح کی کوئی صورت ہے ؟ اس لیے اس جگہ یا خاموشی اختیار کرلینا یا مار کھاتے رہنا دونوں میں سے ایک کا انتخاب لازم ہے اور پھر خود انسان یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ مار کھاتے کھاتے مر جانے سے یا مارا جانے سے بہتر خاموشی ہے اس لیے وہ اکثر خاموش ہو کر دم بخود رہتا ہے۔ سب سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ جب کوئی آدمی خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور کتنا ہی ذمہ دار کیوں نہ ہو انبیاء کرام کے علاوہ جب بھی کوئی بھول چوک سے کچھ کہہ بیٹھتا ہے تو اس کا اعتراف اس کے لیے اپنی موت سے بھی دشوار نظر آتا ہے اس لیے وہ اپنے کیے ہوئے پر دلائل مہاع کرتا رہتا ہے اور ان طفل تسلیوں کے لیے اس کے پاس سہارا بھی ہوتا ہے وہ یہ کہ پہلے بھی لوگ اس طرح کہتے آئے ہیں۔ کیا وہ سارے غلط تھے ؟ کیا ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آسکتی تھی ؟ یہی کچھ یہاں ہوا۔ ملک یمین اگر عورت ہو تو پھر اس کے انگ انگ اور جوڑ جوڑ میں وہ کچھ جائز رکھا گیا جس کا ذکر کرنا نہ کرنے سے سو بار برا ہے اس لیے اس کو ترک کردیا گیا ہے۔ جب اسلام نے ” فَاَمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاَمَّا فِدَآء “ کے بالکل مختصر ان الفاظ سے عربوں کی ان ساری کارستانیوں پر پانی پھیر دیا تو اہل اسلام کے علماء کے لغو خیالات کی تردید بھی یقینا انہی الفاظ سے ہوگئی۔ اس جگہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ میرے جیسے ان پڑھوں اور ناخواندہ لوگوں کے لیے ہے علماء کو سمجھانے والے ہم کون ہیں ؟ اس کے متعلق مزید تفصیل درکار ہو تو رسالہ ” حق الیقین “ ملاحظہ فرما لیں وہ ” مکتبہ الاثریہ “ سے مل جائے گا۔ یہ رسالہ استاذی حافظ عنایت اللہ اثری (رح) کی تصنیف ہے۔
Top