Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 53
اَمْ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًاۙ
اَمْ : کیا لَھُمْ : ان کا نَصِيْبٌ : کوئی حصہ مِّنَ : سے الْمُلْكِ : سلطنت فَاِذًا : پھر اس وقت لَّا يُؤْتُوْنَ : نہ دیں النَّاسَ : لوگ نَقِيْرًا : تل برابر
تو پھر ، کیا یہ بات ہے کہ ان کے قبضے میں بادشاہت کا کوئی حصہ آگیا ہے اور اس لیے نہیں چاہتے کہ لوگوں کو رائی برابر بھی کچھ مل جائے ؟
یہود کو اگر دنیا کی سیادت مل جاتی تو اس میں وہ کسی کو شریک نہ کرتے : 105: نقیر ن ق ر سے ہے جس کے اصل معنی کرید نے کے ہیں اور اس سے منقار ہے اور منقار جانور کی چونچ کو کہتے ہیں جس سے وہ زمین وغیرہ کو کریدتا ہے اور اس آلہ کو بھی جس سے چکی وغیر راہی جاتی ہے اور اس جگہ نقیر سے مراد وہ کریدی ہوئی جگہ ہے جو کھجور کی گھٹلی میں ایک چھوٹی سی لکیر کی مانند گہرائی ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے اس کی طرف نسبت دے کر کہیں فتیل اور کہیں نقیر کا لفظ استعمال کیا ہے مراد اس سے حقیر سے حقیر اور تھوری سے بھی تھوڑی چیز ہے جیسے ہماری زبان اردو میں ایک رائی برابر یا رتی بھر کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں اس وجہ سے شاہ عبد القادر (رح) نے اپنے ترجمہ میں ” تل بھر “ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یعنی یہود کی اپنی حالت یہ ہے کہ روحانی عظمت تو الگ رہی اگر ان کی دنیوی امارت و سیادت نصیب ہوئتی تو یہ انتے بخیل اور تنگ دل لوگ ہیں کہ اس میں بھی کسی کو شریک نہ ہونے دیتے بلکہ لوگوں کے حقوق تک ادا نہ کرتے اور ادی تنگ دلی اور بخیلی کے باعث وہ دنیا کے اقتدار سے بھی محروم کر دئے گئے ہیں اور محروم ہی رہیں گے اور کہیں کچھ ٹھکانا پائیں گے بھی تو وہ دوسروں کے سہارے اور دوسروں کے سہارے زندہ رہنے والے درحقیقت مردہ ہی ہوتے ہیں اور قوموں کی زندگی اور موت کا مطلب یہی ہے کہ جو قوم برسر اقتدار ہے اور ان کا اقتدار دوسروں کے سہارے نہی بلکہ اپنی قومی طاقت کے بل بوتے پر ہے وہ قوم زندہ ہے اور جو دوسروں کے سہارے برسر اقتدار ہے وہ اسلام کی زبان میں مردہ ہے۔ آج قوم مسلم کو بھی اپنا تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ کیا آج وہ زندہ قوم ہیں یا یہود کی طرح وہ بھی قومی حیات کو ضائع کر بیٹھے ہیں ؟ اس آیت میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہود کو یہ حسد کھا گیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نبی اسماعیل سے کیوں ؟ وہ بنی اسرائیل سے کیوں نہیں ؟ اور یہ لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ نبوت من اللہ چیز ہے جس کا تعلق کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ نبوت عطا کرنے والا ہی جانتا ہے کہ وہ اپنی نبوت و رسالت کا منصب کس کو عطا کرے اور پھر جس کو وہ عطا کردیتا ہے اس کی عطا کو کوئی روک نہیں سکتا اور یہ بھی کہ بنی اسماعیل بھی ذریت ابراہیم (علیہ السلام) ہی ہیں کہیں باہر سے تو نہیں آئے۔ پھر اس آیت نے یہ سبق و درس بھی دیا کہ جس کو اللہ تعالیٰ بادشاہت و اقتدار عطا فرما دے اس کو بہت وسیع النظر اور عریض القلب ہونا چاہیے اگر وہ ایسا ہوگا تو اس کی بادشاہت اور اقتدار دیر پا ہوگا۔ دیکھو دنیا کے آنسانوں میں سے جو وسعت قلب اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو دیا وہ کسی دوسرے انسان کے ح سے میں نہ آیا اس لئے آپ ﷺ کا اقتدار نبوت ابد الاباد رہے گا جب تک نظام دنیا قائم ہے وہ بھی قائم رہے گا بلکہ ہر وہ شخص جو اس اقتدار نبوت میں قدم رکھے گا تباہ و برباد کردیا جائے گا۔
Top