Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 55
فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْهُ١ؕ وَ كَفٰى بِجَهَنَّمَ سَعِیْرًا
فَمِنْھُمْ : پھر ان میں سے مَّنْ اٰمَنَ : کوئی ایمان لایا بِهٖ : اس پر وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : کوئی صَدَّ : رکا رہا عَنْهُ : اس سے وَكَفٰى : اور کافی بِجَهَنَّمَ : جہنم سَعِيْرًا : بھڑکتی ہوئی آگ
پھر ان میں سے کوئی تو ایسا ہوا جس نے اس پر یقین کیا ، کوئی ایسا ہوا جس نے روگردانی کی اور اس کو دہکتی ہوئی دوزخ کی آگ بس کرتی ہے
آل ابراہیم میں سے کچھ لوگوں نے مان لیا اور کچھ نے انکار کیا : 107: ” پھر ان میں سے کوئی تو ایسا تھا جس نے اس پر یقین کیا۔ “ اس جگہ کس کو مان لینا مراد ہے ؟ یعنی اٰمَنَ بِہِ میں ” ھ “ کی ضمیر کس کی طرف اشارہ کر رہی ہے ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ اس سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ کا تعلق اور آپ ﷺ کی نسبت بھی آل ابراہیم سے ایسی ہی ہے جیسے دوسرے انبیاء بنی اسرائیل کی ان میں سے کچھ لوگوں نے آپ ﷺ کو تسلیم کیا اور کچھ آپ ﷺ کے منکر تھے۔ اور پھر جو منکر تھے وہ صرف یہی نہیں کہ منکر تھے بلکہ دوسروں کو روکنے کا سبب بھی تھے اور برملا کہتے تھے کہ ہمارے انکار کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے کیوں نہیں ؟ حالانکہ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کا تعلق ابراہیم (علیہ السلام) سے بالکل ایک طرح کا تھا جن کی نسل سے نبوت خاص کردی گئی تھی۔ اب فرمایا کہ مان لینے والوں کا اپنا فائدہ ہے بشرطیکہ وہ اس کی تعلیمات سے استفادہ کریں اور رو گردانی کرنے والوں کا اپنا نقصان ہے جب وہ اس کی لائی ہوئی ہدایت سے استفادہ نہیں کرتے۔ پھر اسن پر ایمان نہ لانے والوں کو انجام کار اللہ کی سلگائی ہوئی ابدی آگ میں داخل کردیا جائے گا اس وقت ان کی آنکھیں گھلیں گی لیکن ” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ “
Top