Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 56
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًا١ؕ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : کفر کیا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کا سَوْفَ : عنقریب نُصْلِيْهِمْ : ہم انہیں ڈالیں گے نَارًا : آگ كُلَّمَا : جس وقت نَضِجَتْ : پک جائیں گی جُلُوْدُھُمْ : ان کی کھالیں بَدَّلْنٰھُمْ : ہم بدل دیں گے جُلُوْدًا : کھالیں غَيْرَھَا : اس کے علاوہ لِيَذُوْقُوا : تاکہ وہ چکھیں الْعَذَابَ : عذاب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
یاد رکھو جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا ، تو قریب ہے کہ ہم انہیں آتش دوزخ میں جھونک دیں جب کبھی ایسا ہوگا کہ ان کی کھال پک جائے گی تو ہم پہلی کھال کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے تاکہ عذاب کا مزہ چکھ لیں بلاشبہ اللہ سب پر غالب ہے اور جو کچھ کرتا ہے حکمت کیساتھ کرتا ہے
منکرین کے عذاب کی کیفیت کا ایک منظر : 108: عذاب الٰہی کی مختلف کیفیتیں قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں اور ہر ایک کیفیت اپنے اندر ایک خاص حیثیت رکھتی ہے۔ اس جگہ جس کیفیت کو بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو جب دوزخ میں ڈالا جائے گا تو ان کی جلدیں یعنی کھالیں جھلس جائیں گی اور پھر ان کو بدل دیا جائے گا اور اس طرح وہ پھر جھلس جائیں گی اور عذاب کی یہ کیفیت ہمیشہ اس طرح قائم رہے گی تاکہ ان کا عذاب تازہ ہوتا رہے اور وہ برابر اس تکلیف میں مبتلا رہیں کیونکہ وہ دنیوی زندگی میں جو مخالفت کرتے تھے تو مسلسل کئے ہی جاتے تھے گویا مخالفت کی انہوں نے قسم کھائی تھی کہ کوئی وجہ بظاہر اگرچہ مخالفت کی نہ تھی لیکن ان کا کام صرف مخالفت تھا اور یہ وہی صورت ہے کہ کسی کام کی کوئی وجہ و علت ہو یا نہ ہو جس کو مخالفت کرنا ہے وہ وجہ خود پیدا کرلیتا ہے اور اس حالت کو ہمارے ہاں اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ” آٹا گوندھتی ہلتی کیوں ہے ؟ “ جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ جیسے رسول کی رسالت کا انکار کیا آخر ان کی رسالت کے انکار کا کوئی باعث بھی تھا ؟ ہرگز نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کچھ بیان بھی نہ کرسکے اور جو بیان کیا وہ صرف یہ تھا کہ ” وہ بنی اسرائیل سے کیوں نہیں ؟ “ اور کچھ لوگوں کو اعتراض یہ تھا کہ ” اگر نبوت کو آنا ہی تھا تو وہ مکہ یا طائف کے کسی سردار کے پاس آتی “ تاکہ لوگ آسانی سے اس کو مان لیتے یا اگر کوئی نہ مانتا تو اس سے منوا لیا جاتا کیونکہ قوم کے وڈیروں کی بات کو مان لینا نہ ماننے سے زیادہ آسان ہے اور قوم کے کسی غریب کی بات کو مان لینا اس کے انکار کردینے سے زیادہ مشکل ہے اور ہر انسان آسانی کا طالب ہے ” لوہے کے چنے چبانا کون پسند کرتا ہے ؟ “ اس لئے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ” چلو تم ادھر کو جدھر کی ہوا ہو۔ “ اللہ تعالیٰ کی اس آگ کا بیان جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا مختلف کیفیتوں سے کیا گیا ہے ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” کہ یہ لوگ تو چکنا چور کردینے والی جگہ پھینگ دیئے جائیں گے اور تم کیا جانو کہ وہ چکنا چور کردینے والی جگہ کیا ہے ؟ وہ تو اللہ کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں تک پہنچ جائے گی اور وہ ان پر ڈھانک کر بند کردی جائے گی۔ “ (الھمزہ : 8:4:104) یعنی ہیں تو وہ بڑے بڑے لوگ جو دنیا میں بڑے بڑے بنے بیٹھے تھے اور ان کی یہی بڑائی ان کو حقیقت مان لینے میں آڑے آئی۔ لیکن قیامت کے روز ان کو ایک بےوقعت اور حقیر سمجھتے ہوئے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ فرمایا ایسا کیوں ہوگا اس لئے کہ ان کی نخوست وتکبر نے ان کی نگا میں محمد رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کو حقیر اور بےوقعت چیز جانا جس کے نتیجہ میں آج وہ بےوقعت اور حقیر بنا کر رکھ دئیے گئے جس طرح نخوت وتکبر کا اصل مرکز دل ہے اس لئے لازم تھا کہ آگ بھی ان کے دل ہی پر اپنا اثر دکھاتی۔ دل کا لفظ عربی زبان میں اس مقام کے لئے استعمال ہوتا ہے جو انسان کے شعور و ادراک اور جزبات و خواہشات اور عقائد و افکار اور نیتوں اور ارادوں کا مقام ہے۔ دلوں تک اس کے آگے پہنچنے کا مطلب اس سے واضح ہوجاتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا۔ ” ان کے لئے جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا یہ ہے وہ جزاء جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں۔ “ (الاعراف : 41:7) ” ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے بھی چھائی ہوں گی اور نیچے سے بھی بچھونے آگ ہی کے ہوں گے۔ “ (الزمر : 12:39) ایک جگہ اور ارشاد ہوا کہ : ” آگ ان کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اور ان کے جبڑے بالکل باہر نکل آئیں گے۔ “ (لمومنون : 104:23)
Top