Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 57
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١٘ وَّ نُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک سَنُدْخِلُھُمْ : عنقریب ہم انہیں داخل کریں گے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِھَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْھَآ : اس میں اَبَدًا : ہمیشہ لَھُمْ : ان کے لیے فِيْھَآ : اس میں اَزْوَاجٌ : بیبیاں مُّطَهَّرَةٌ : پاک ستھری وَّنُدْخِلُھُمْ : اور ہم انہیں داخل کریں گے ظِلًّا : چھاؤں ظَلِيْلًا : گھنی
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کے کام بھی اچھے ہوئے تو ہم انہیں ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ، وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے ، ان کی رفاقت کیلئے نیک و پارسا بیویاں ہوں گی ، نیز ہم انہیں بڑے اچھے سائے میں جگہ دیں گے
ایمان لانے والوں کے انعام الٰہی پانے کا منظر : 109: دوسرا گروہ وہ تھا جو ایمان لایا ان کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ ان کو ہم جنت میں داخل کریں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اس مین ان کے لئے پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ پھل کھائیں گے اور سایوں میں آرام کریں گے اور پھر اس کی کیفیات بھی مختلف انداز سے بیان کی گئیں ہیں۔ اور ہر ایک کیفیت اپنے اندر ایک مقام رکھتی ہے جو ایک سے ایک بڑھ کر ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا کہ : ” پرہیز گاروں کے لئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نیہ آیا ہوگا۔ نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لئے نہایت لزیر ہوگی۔ نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی ، اس میں ان کے لئے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے خاص بخشش ہوگی۔ “ (محمد : 15:47) ” بلاشبہ متیخ انسان اس دن باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ انہیں کہا جائے گا سلامتی کے ساتھ بہ اطمینان ان باغوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ان کے دلوں میں باہمی جو کچھ رنجشیں تھیں سب ہم نے نکال دیں وہ بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ وہاں کسی طرح کا صدمہ ان کو چھو بھی نہیں سکے گا۔ نہ وہاں سے کسی کو نکالا جائے گا۔ “ (الحجر : 48:45:15) مذہبی مکیاتب فکر کی لڑائی لڑنے والوں کے لئے درس عبرت ہے کہ رنجشیں اور کدورتیں جو ایک دوسرے کے ساھت بنا رکھی ہیں ان کا فائدہ ؟ یہ بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں بلا آخر دور کردی جائیں گی اور دل ایک دو سے سے صاف ہوجائیں گے اس لئے بہتر ہے کہ آج ہی ان کو دور کر دو اور وسیع النظری سے اور وسعت قلب سے کام لو اس لئے کہ یہ ساری چیزیں آخرت میں کام آنے والی نہیں بلکہ انجام کار ان کا دور اہونا لازمی وہ ضروری ہے۔ اپنی اس دنیوی زندگی کو بھی جنتی زندگی کے مماثل کرنے کی کوشش کرو اس میں تمہارا اپنا بھی فائدہ ہے اور ان لوگوں کا بھی فائدہ ہے جن کو ایک دوسرے سے تم نے بیزار کردیا ہے۔ یاد رکھو کہ ہم سب کو ایک ضیافت میں ماشاء اللہ شریک ہونا ہے اور ایک ہی کی مہمانی کو قبول کرنا ہے اس لئے ان آیت کو تلاوت کرتے وقت صرف تلاوت کر کے آگے مت بڑھ جاؤ بلکہ ذرا رک جاؤ اور ایک بار اپنے اندر جھانک کر دیکھ لو کہ تم ماشاء اللہ زمرہ علماء میں داخل ہو جو لوگوں کی راہنمائی کے لئے مختص کر لئے گئے ہو۔ اللہ مثبت سوچ کی توفیق عطا فرما دے۔ جنتیوں کو جنت میں کیا کچھ ملے گا ؟ اس کا بیان بڑا وسیع ہے اور جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سب کا سب بطور تفہیم ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے ان انعامت کو جو وہاں نیک لوگوں کو ملیں گے اپنے الفاظ میں سمجھ لیا جائے حالانکہ ان کی حقیقت ان چیزوں سے جو دنیا کے اندر موجود ہیں کسی لحاظ سے بھی ملتی نہیں ہوگی اگر کوئی مشابہت ہوگی بھی تو وہ شکل و صورت میں ہو سکتی ہے علاوہ ازیں کوئی مشابہت ان چیزوں کی ان چیزوں سے نہیں ہوگی اور یہ بات خود رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے جہاں ارشاد فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے اس کو سنا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کا کسی انسان کے دل میں تصور پیدا کرنا بھی مشکل ہے نہیں کیا جاسکتا۔ “ حالانکہ ان ساری چیزوں کا تصور انسان کے دل میں موجود ہے اور ان میں سے ہر ایک چیز کو اکثر انسان جانتا ہے جن کا نام لے کر انعامات جنت کا ذکر کیا گیا ایسا کیوں ہے ؟ اس لئے کسی ان دیکھی ان سمجھی بات بیان کرنے کے لئے وہی الفاظ بیان کئے جاسکتے ہیں جو معلوم چیزوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں اور یہ گویا انسان کی مجبوری ہے کہ بات اس کی زبان میں ادا ہوگی تو اس کو کچھ معلوم ہوگا ورنہ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا اور قرآن کریم جو اللہ کی کتاب ہے وہ دعین اس زبان کے مطابق ہے جو انسان کے ہاں بولی جاتی ہے تاکہ ان کی تفہیم ہو سکے۔
Top