Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور دیکھو مال و متاع کو اللہ نے تمہارے لیے قیام کا ذریعہ بنایا ہے ، پس ایسا نہ کرو کہ کم عقل آدمیوں کے حوالے کر دو ، ایسا کرنا چاہیے کہ ان کے مال سے ان کے کھانے اور کپڑے کا انتظام کردیا جائے اور نیکی اور بھلائی کی بات انہیں سمجھا دی جائے
یتامیٰ جب تک مال سنبھالنے کے قابل نہ ہوں ان کے مال واپس نہ کرو : 15: انہی یتامیٰ کے باعث نکاح کی طرف مضمون منتقل ہوا تھا اور پھر واپس اپنے مقام پر لایا گیا ہے فرمایا وہ یتامیٰ جن کے تم کفیل بنے تھے یا بنائے گئے تھے ان کی کفالت کو راستے ہی میں مت چھوڑو بلک ان کو سن رشد تک پہنچ لینے دو تب ان کے مال ان کی طرف لوٹاؤ ۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ مال جو قیام زندگی کا ذریعہ ہے اگر یہ مال ان بچوں کو دے دیا گیا جو ابھی خرچ کرنے اور مال پر عمل کرنے کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے اگر ان کو مال دیا گیا تو وہ بہت جلد اس کو ضائع کردیں گے اور پھر زندگی کے بحال رکھنے کا ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ اس لیے جب تک یہ یتیم بچے عاقل بالغ نہ ہوجائیں اور اپنے مفاد کی خود حفاظت نہ کرسکیں ان کا مال بھی ان کے قصبہ میں نہ دو ۔ اس میں بلاغت کا ایک عجیب نکتہ ہے۔ غور کرو کہ آیت کے شروع میں جہاں متولیوں کو ناسمجھ یتیموں کے مال کو اپنے پاس سنبھال کر رکھنے کا حکم ہے۔ وہاں مال کی نسبت متولیوں کی طرف ہے کہ ” تم اپنا مال ان کو نہ دو “ اور آیت کے آخر میں جہاں بلوغ اور سن رشد کے بعد متولیوں کو یتیموں کا مال واپس کردینے کا حکم ہے وہاں اس مال کی نسبت یتیموں کی طرف کی گئی کہ ” تم ان کا مال ان کو واپس کر دو “ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں اس مال کی نسبت یتیموں کی طرف کی گئی کہ ” تم ان کا مال ان کو واپس کر دو “ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک یہ امانت متولیوں کے پاس ہے تو اس کی ایسی ہی حفاظت اور نگہداشت کرنی چاہئے جیسی اپنے مال کی اور جب واپسی کی نوبت آئے تو اس طرح ایک ایک تنکا تک چن کر واپس کردیا جائے جیسا کہ کسی غیر کا مال دیانت کے ساتھ واپس کیا جاتا ہے جس پر تمہارا کوئی حق نہیں۔ صاحب جائیدار یتیموں کے متولی اگر خود کھاتے پیتے ہوں تو ان کے لیے یتیموں کے مال کی دیکھ بھال اور نگرانی کا معاوضہ قبول کرنا بھی خلافِ اخلاق قرار دیا گیا ہے اور تنگ دست ہوں تو منصفانہ معاوضہ لینے کی اجازت دی گئی اور فرمایا گیا کہ ” ایسا کرنا چاہئے کہ ان کے مال سے ان کے کھانے اور کپڑے کا انتظام کردیا جائے اور نیکی اور بھلائی کی بات ان کو سمجھا دی جائے۔ “ ” وَلَا تُؤْتُوْا السُّفَھَآئُ “ اور مت دو کم عقلوں کو۔ یہ کم عقل کون ہیں ؟ وہی جو ابھی اپنے مال پر کسی طرح کا عمل نہیں کرسکتے صرف خرچ کرسکتے ہیں ! ان کو مال کمانے کی سمجھ نہیں ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ یتیموں کے مال پر متولیوں کو عمل کرنے کا حق ہے تاکہ مال آہستہ آہستہ ختم نہ ہوجائے بلکہ جو خرچ ہو اس میں کچھ اضافہ بھی ہو اور اضافہ کے لیے ضروری ہے کہ مال کو کسی کام پر لگایا جائے۔ گویا متولی حضرات اپنا مال سمجھ کر اس حفاظت کریں اور اس کو بڑھانے کی فکر بھی کریں جس طرح انسان اپنے مال کو بذریعہ عمل بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان کے یتیم کا زمان بآسانی گزر جائے اور مال کی حفاظت بھی ہوتی رہے اور اس طرح جو کچھ کیا جائے وہ پوری دیانت داری اور حساب کتاب کے ساتھ کیا جائے۔ علی الحساب اندھا کھاتہ نہ رکھا جائے۔ گویا اس آیت کے مطابق مضاء وہی ہیں جو مال پر عمل کرنے کی سمجھ نہ رکھتے ہوں۔ رہی یہ بات کہ یہ مال پر عمل کیا چیز ہے ؟ تو یہ کسی سے بھی مخفی نہیں مال کو تجارت کے ذرائع میں سے کسی ذریعہ پر لگانا جو ذریعہ شرعاً جائز اور درست ہو۔ مطلب واضح ہے کہ جو لوگ شغل معاش کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور اپنے راس المال کو تباہ کرتے چلے جاتے ہیں وہ سب کم عقلوں میں داخل ہیں۔ مال ان کے سپرد کرنے کی بجائے یہ حکم دیا ہے کہ ان اموال پر تم ہی کسی تجارت وغیرہ میں لگا کر اس سے ان کی پرورش کا بندوبست بھی کرو اور مال کو سنبھالنے کی فکر بھی۔ پھر ان کے کھانے اور پہننے کے بندوبست کے علاوہ ایک مزید ارشاد بھی فرمایا کہ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ” نیکی اور بھلائی کی بات انہیں سمجھاؤ ۔ “ اس سے ہمارے مفسرین نے نصیحت کے چند فقرے ہی مراد لیے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے ان کی صحیح تربیت کرنا مراد ہے۔ “ یعنی ان کی تربیت پر روپیہ خرچ کرو اور مال کو تجارت پر لگا کر اس کی حفاظت اور اس کے بڑھانے کے طریقے ان کو سمجھاؤ تا آنکہ ان کو یہ عقل و شعور آجائے کہ مال کو اسراف کے طور پر خرچ کرنے کی بجائے سنبھال کر خرچ کرنے کی اہلیت بھی ان میں پیدا ہوجائے یہ بھی ” قولاً معروفا “ میں داخل ہے۔ چناچہ آنے والی آیت میں قرآن کریم نے اس بات کو وضاحت کے ساتھ خود بیان کردیا ہے۔
Top