Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 60
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَزْعُمُوْنَ : دعویٰ کرتے ہیں اَنَّھُمْ : کہ وہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے بِمَآ اُنْزِلَ : اس پر جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف وَمَآ اُنْزِلَ : اور جو نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَحَاكَمُوْٓا : مقدمہ لے جائیں اِلَى : طرف (پاس) الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) وَقَدْ اُمِرُوْٓا : حالانکہ انہیں حکم ہوچکا اَنْ : کہ يَّكْفُرُوْا : وہ نہ مانیں بِهٖ : اس کو وَيُرِيْدُ : اور چاہتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ : کہ يُّضِلَّھُمْ : انہیں بہکادے ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
کیا تم نے ان لوگوں کی حالت پر نظر نہیں کی جن کا دعویٰ یہ ہے کہ جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ تم سے پہلے نازل ہوچکا ہے وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اپنے جھگڑے ، قضیے ایک سرکش اور شریر کے آگے لے جاتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا جا چکا ہے کہ اس سے انکار کریں ، شیطان چاہتا ہے کہ انہیں اس طرح گمراہ کر دے کہ سیدھی راہ سے بہت دور جا پڑیں
دعوائے اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ قبول نہ کرنے والوں کا فیصلہ : 112: روایات میں اس طرح کے بہت سے فیصلوں کا ذکرد کیا گیا ہے جن میں لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں آپ ﷺ کو چھوڑ کر سرادر ان یہود کے پاس اپنے مقدمہ کو لے جانے کی کوشش کی ان میں سے ایک کا ذکر اس جگہ کردینا مناسب خیال کیا جاتا ہے تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکے۔ ابو صالح نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک یہودی سے ایک نام کے مسلمان کا جھگڑا ہوگیا۔ یہودی نے اپنا فیصلہ کرانے کے لئے اس نام کے مسلمان سے رسول اللہ ﷺ کے پاس مقدمہ لے جانے میں پہل کی اور کہا کہ چلو رسول اللہ ﷺ سے اپنے اس قضیہ کا فیصلہ کرا لیں لیکن مسلمان مصر تھا کہ فیصلہ رسول اللہ ﷺ کی بجائے کعب بن اشرف ایک یہودی سرادر سے کرایا جائے۔ لیکن یہودی نے اپنے سرادر کعب بن اشرف کے پاس جانے سے صاف صاف انکار کردیا اور رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ کرنا ے پر اصرار کیا۔ مجبوراً منافق کو بھی نبی اعظم وآخر ﷺ کی طرف آنا پڑا۔ مختضر یہ کہ اس طرح وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ﷺ نے دونوں کی بات سنی اور یہودی کے حق میں فیصلہ کے لئے عمر ؓ کے پاس چلئے اس طرح دونوں عمر فاروق ؓ کے پاس آئے تو یہودی نے عرض کیا کہ ہم دونوں مل کر رسول اللہ ﷺ کے پاس مقدہ لے کر گئے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کے خلاف فیصلہ دے دیا تب یہ آپ ﷺ کے فیصلے پر راضی نہ ہوا اور مجھے آپ کے پاس لے کر آیا ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے منافق سے فرمایا کیا ایسا ہی ہے ؟ منافق نے اقرار کرلیا کہ جی ہاں ! حضرت عمر ؓ نے فرمایا ذرا ٹھہرو میں ابھی فیصلہ کردیتا ہوں۔ آپ ؓ اٹھ کر گھر میں داخل ہوئے اپنی تلوار اٹھائی اور باہر آکر اس منافق کو قتل کردیا اور فرمایا جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اس کا فیصلہ میں اس طرح کرسکتا ہوں۔ یہ روایت ثبلی نے ابن عباس ﷺ سے اور ابن ابی حاتم نے او الاسود سے بھی نقل کی ہے اور اس نام کے مسلمان اور عمل کے منافق کا نام بھی ” بشر “ لیا گیا ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ عمر ؓ نے حق کو باطل سے الگ الگ کردیا ہے اس لئے آپ کا لقب ” فاروق “ سے معروف ہوگیا۔ آیت کے الفاظ نے اس نام کے مسلم اور عمل کے منافق کے متعلق یہ اشارہ بھی کردیا کہ اس کا تعلق اہل کتاب سے تھا اور یہ بات بھی ان الفاظ ہی سے نکلتی ہے کہ اس طرح کے بہت سے لوگ اس وقت موجود تھے جو منہ سے اسلام کا اظہار کرتے تھے لیکن وہ مصلحت وقت کے تحت مسلمان ہوئے تھے ان کے دل اسلام کی تعلیمات پر جمتے نہیں تھے۔ وہ دعویٰ توبہ کرتے تھے کہ وہ قرآن کریم پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کریم سے پہلے کی نازل شدہ کتابوں کو مانتے اور تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ اپنے معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنے کی بجائے یہود کے سرداروں اور ان کی عدالتوں کی طرف جانے کے شوقین تھے حلان کہ سج اللہ اور اس کے رسول ا پر وہ ایمان کے مدعی تھے ان کی طرف سے یہ واضح ہدایت آچکی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے مدعتی تھے فان کی طرف سے یہ واضح ہدایت آچکی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے لئے لازم ہے کہ طاغوت کا انکار کیا جائے بغیر اس انکار کے ایمان معتبر نہیں ہے لیکن یہ دونوں کو جمع کرنا چاہتے تھے اور اس طرح شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ اس طرح ان کو بھٹکا کر صراط مستقیم سے اتنی دور کردے کہ پھر ان کے لئے اس کو پانے کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے تو یہ ان منافقین کی بات تھی لیکن آج اہل اسلام کی حالت کیا ہے ؟ وہ کتنے جھگڑے ہیں جو ہم نے اپنے رسول اللہ ﷺ سے دور کرا لئے ہیں ؟ اور آپ ﷺ کے فیصلے کو مان لیا ہے ؟ اس وقت ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کا عمل ان کے دعویٰ کی تصدیق نہیں کرتا۔ طاغوت کون ہیں ؟ وہ لوگ مراد ہیں جو حاکم ہیں لیکن قانون خداوندی کو چھوڑ کر دوسرے قوانین کے مطابق فیصلے صادر کرتے ہیں اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ ہی کتاب اللہ کو آخری سند مانتا ہو خواہ اعتقاداً ایسا ہو یا عملاً ، ہاں ! اگر اعتقاداً ایسا ہوگا تو وہ طاغوت کافر ہوں گے اور اگر صرف عمالا ایسا ہوگا تو وہ منافق ہوں گے۔ اس جگہ منافقین سے مراد تو وہی لوگ ہیں جو اسلام کو اقرار تسلیم کرچکے لیکن عملا اس کا خلاف کرتے تھے اور وہ اہل کتاب سے اسلام کی طرف آئے تھے اور طاغوت سے سرادر ان یہود مراد ہیں جو لوگوں کے درمایان فیصلے کیا کرتے تھی اور لوگ بھی ان کو اپنا سردار مانتے اور تسلیم کرتے تھے۔ چونکہ ان لوگوں نے مصلحتا اسلام قبول کیا تھا سلے لئے بانی اسلام ﷺ کو بحثیت رسول انہوں نے دل سے قبول نہیں کیا تھا۔ ایسے ہی لوگ تھے جن کو اسلام کی زبان میں منافق کہا گیا اور آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں بلکہ اکثریت انہی لوگوں کی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے عملاً منکر ہیں اور آپ ﷺ کے فیصلوں پر ان کا دل نہیں جمتا۔
Top