Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 62
فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ثُمَّ جَآءُوْكَ یَحْلِفُوْنَ١ۖۗ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا
فَكَيْفَ : پھر کیسی اِذَآ : جب اَصَابَتْھُمْ : انہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا : اس کے سبب جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ ثُمَّ : پھر جَآءُوْكَ :وہ آئیں آپ کے پاس يَحْلِفُوْنَ : قسم کھاتے ہوئے بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنْ : کہ اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اِلَّآ : سوائے (صرف) اِحْسَانًا : بھلائی وَّتَوْفِيْقًا : اور موافقت
پھر اگر ایسا ہو کہ ان کے اپنے ہی کرتوتوں کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آپڑے تو اس وقت ان لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟ اس وقت یہ تمہارے پاس آ کر اللہ کے نام کی قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے ہم نے جو کچھ کیا تھا اس سے مقصد صرف بھلائی تھی اور یہ کہ میل ملاپ رہے
اپنے ہی کرتوتوں کی وجہ سے آئی ہوئی مصیبت کو کوئی حل ؟ 114: جوں جوں اسلام طاقت پکڑتا گیا اور یہود کی سیادت ختم ہوتی گئی تو مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اب منافقین کے معاملے میں چشم پوشی اور اغماض سے کام نہ لیا جائے بلکہ اب وہ بھی اپنی روش بدلیں اس حکم سے مسلمانوں نے اپنی روش بدل لی اور اس طرح اب منافقین کا احتساب شروع ہوگیا۔ منافقین اس صورت حال سے بہتر پریشان ہوئے نہ یہود میں اتنا زور باقی رہا کہ وہ ان کو پہلے کی طرح سہارا دے سکیں اور نہ ہی مسلمان اب ان پر اعتماد کرنے کیلئے تیار تھے اس وقت ان کا حال کیا تھا ؟ ” نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن “ نتیجہ یہ ہوا کہ اب منافقین بھاگ بھاگ کر نبی اعظم وآخر ﷺ ہی کے پاس جائے اور قسمیں کھا کھا کر آپ ﷺ کو یقین دلاتے کہ وہ یہود سے جو ربط ضبط آج تک رکھے تھے اور کبھی کبھی اپنے معلامات مین ان کے فیصلے تسلیم کرتے تھے اس میں ہماری نیت کا کوئی فساد نہیں تھا بلکہ ہماری خواہش تو صرف اور صرف یہ تھی کہ اس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا اور جو خلیج اختلاف عناد یہود اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہوگئی تھی وہ زیادہ وسیع نہ ہونے پاے اس طرح اب وہ اپنی منافقت کو مصالحت کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے اور اس طرح منہ بسور بسور کر رسول ﷺ کے سامنے اپنی عرضیاں گزارتے لیکن ان کی سمجھ مین یہ بات نہ آتی کہ جب ہم ایک جھوٹ بول کر اس مصیبت میں مبتلا ہیں تو اس طرح جتنے جھوٹ بڑھتے جائیں ہماری مصیبت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور پھر یہی کچھ ہوا۔ کیا اس طرح وہ رواداری کا اظہار کر کے بری الذمہ ہوگئے ؟ ہرگز نہیں بلکہ اس نے یہ بات واضح کردی کہ حریف طاقتوں کے ساتھ اختلاف یا رواداری کی پالیسی بنانا حکومت وقت اور ارباب حل وہ عقد اور سردار ان ملت کا کام ہینہ کہ عوام کی انفرادی صورت کا یا گروہی سیاست کا۔ ہاں ! ضرورت پیش آئے تو عوام بجائے خو دیا اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے حکومت کی توجہ مبذ ول کرسکتے ہیں اور حکومت کو افرادی اور مادی وقوت دے سکتے ہیں لیکن جو ان کے کرنے کا کام نہیں وہ خود نہیں کرسکتے جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں ہو رہا ہے اور ہر جماعت اور ہر پارٹی اپنے اپنے خیال کے مطابق مصروف جہاد ہے اس طرح کا کوئی شرعی جواز موجود نہیں بلکہ یہ صرف اور صرف پیٹ کا دھندا ہے اور اس کا نیا روپ ہونے کی وجہ سے ابھی قبول عام ہے اور پیٹ کے باقی دھندوں سے مجموعی طور پر بڑا بھی ہے۔ آیت کے ترجمہ میں ارشاد فرمایا کہ یہ قسمیں کھا کھا کر باور کرانے والے عادی مجر ہیں اس لئے ان کے اس طرز عمل کو اچھی طرح نگاہ میں رکھو اور ان کے طرز عمل کی تین وجہیں ہو سکتی ہیں ان میں سے تجزیہ کر کے دیکھ لو ان کو کیا بات لاحق ہے۔ ایک یہ کہ آدمی سرے سے ایمان ہی نہ لایا ہو اور منافقانہ طرز طریقہ پر محض دھوکہ دینے اور مسلم معاشرے میں شرکت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے مسلمان ہوگیا۔ دوسرے یہ کہ ایمان لے آنے کے باوجودا اسے اس امر میں شک ہو کہ کیا رسول اللہ اللہ کا رسول ہے یا نہیں ؟ قرآن اللہ کی کتاب ہے یا نہیں ؟ آخر واقعی ہی آنے والی ہے یا نہیں ہے ؟ ہاں ! اس طرح یہ کہ کیا اللہ بھی کوئی حقیقت میں ہے یا نہیں ؟ کیا اللہ کا تصور تصوراتی ہی تو نہیں ہے ؟ تیسرے یہ کہ وہ اللہ کو اللہ مان کر اور رسول کو رسول مان کر بھی ان سے ظلم کا اندیشہ رکھتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ اللہ کی کتاب نے فلاں حکم دے کر ہمیں تو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسول کا فلاں طریقہ تو ہمارے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھجی ہو ایسے لوگوں کے ظالم و منافق ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ اس طرح کے خیالات رکھ رک جو شخص مسلمانوں میں آتا ہے ، ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اور مسلم معاشرے کا ایک رکن بن کر مختلف قسم کے ناجائز فائدے اس معاشرے سے حاصل کرتا ہے۔ وہ بہت بڑا دغاباز ، خائن اور جعل ساز ہے۔ اس طرح وہ اپنے نفس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اسے شب وروز کے جھوٹ سے ذلیل ترین خصائل کا پیکر بنا تا چلا جاتا ہے اور مسلمانوں پر بھی ظلم کرتا ہے جو اس کے ظاہر کلمہ شہادت پر اعتماد کر کے اس اپنی ملت کا ایک جزمان لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ ساھت طرح طرح کے معاشرتی ، تمدنی ، سیاسی اور خلاقی تعلقات قائم کرلیتے ہیں۔ قرآن کریم دوسری جگہ ان کی اس طرح نشاندہی کرتا ہے۔ ” یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر اور ہم نے اطاعت قبول کی مگر اس کے بعد ان میں سے ایک اگر وہ اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے ، ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔ جب ان کا بلایا جاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف تاکہ رسول اللہ ﷺ ان کیٍٍٍ آپس کے مقدمے کا فیصلہ کریں تو ان میں سے ایک 115: اس میں شک نہیں کہ منافقین ایک الگ گروہ ہے جو اہل ایمان کی امت سے بالکل الگ تھلگ ہے اگرچہ اسلام کی پیروری کا خارجی اظہار دونوں گروہوں میں مشترک ہے لیکن دونوں کے مزاج ، اخلاق ، اطوار ، عادات اور طرز فکر و عمل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ جہاں زبان پر ایمان کا دعویٰ ہے مگر دل سچے ایمان سے خالی ہیں وہاں زندگی کا سارا رنگ ڈھنگ ایسا ہے جو اپنی ایک ایک ادا سے دعوئے ایمان کی تکذیب کر رہا ہے۔ اوپر کے لیبل پر لکھا ہے کہ یہ کستوری ہے مگر لیبل کے نیچے کل ہی پیدا ہونے والے بچے کے پیٹ کا ایک سٹرا ہوا گند ہے جو اپنے پورے وجود سے ثابت کر رہا ہے کہ کہ ایک پلید و ناپاک شے کے سوا کچھ بھی نہیں بخلاف اس کے جہاں ایمان اپنی اصل حقیقت کے ساتھ موجود ہے وہاں کستوری اپنی صورت سے ، اپنی خوشبو سے ، اپنی خاصیتوں سے ہر آزمائش اور ہر معاملہ میں اپنا مشک ہونا کھولے دے رہی ہے۔ اسلام و ایمان کے عرفی نام نے بظاہر دونوں گروہوں کو ایک امت بنا رکھا ہے مگر فی الواقع منافق مسلمانوں کا اخلاقی مزاج اور رنگ طبیعت کچھ اور ہے اور صادق ال ایمان مسلمانوں کا کچھ اور۔ اس وجہ سے منافقانہ خصائل رکھنے والے مرد و زن ایک الگ گروہ بن گئے ہیں جن کو اللہ سے غفلت ، برائی سے دلیسپ ، نیکی سے بعد اور خیر سے عدم تعاون کی مشترک خصوصیات نے ایک دوسرے سے وابستہ اور اہل ایمان سے عملاً بےتعلق کردیا ہے اور دوسری جانب سچے مومن مرد و زن ایک دوسرا وہ بن گئے ہیں جس کے سارے افراد میں یہ خصوصیت مشترک ہے کہ نیکی سے وہ دلچسپی رکھتے ہیں ، بدی سے نفرت کرتے ہیں۔ اللہ کی یاد ان کے لئے غذا کی طرح زندگی کی ناگزیر ضروریات میں شامل ہے۔ راہ خدا میں خرچ کرنے لے لئے ان کے دل اور ہاتھ کھلے ہوئے ہیں اور اللہ اور ردسول کی اطاعت ان کی زندگی کا وتیرہ ہے۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرز اور زندگی نے انہیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑا اور منافقین کے گروہ سے مکمل طور پر توڑ دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اب تم ہی بتائو کہ کستوری وہ کام کیسے کرے گی جو بچے کے پیٹ کی گندگی کر رہی ہے اس لئے تم اپنی کستوری کی مشک و خوشبو کو اتنا عام کر دو کہ ان کو اپنا گند خود بخود معلوم ہونے لگے۔ تم کسی بحث میں الجھے بغیر وہی کام کرو جو خوشبو کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ” جادو وہ جو سر چڑھ بولے “ تمہارے بول اتنے میٹھے ہوں کہ ان کو اپنی کڑواہٹ خود محسوس ہونے لگے دیکھو نیکی کے عوض میں نیکی کوئی نیکی نہیں ہاں ! برائی کے عوض نیکی نیکی ہے۔ فرمایا تمہارے برتن میں رکھا کیا ہے ؟ کستوری ، پھر کستوری کا کام ؟ خوشبو دینا ، بس خوشبو کو چھوڑو اور اتنا چھوڑو کہ ان کو اپنی بدبو خود معلوم ہونے لگے۔ بات کرو اتنی میٹھی اور اتنی اچھی ، اتنی ستھری کہ ان کے دلوں کے اندر اتر جائے۔ آپ کا کام منانا نہیں بلکہ صرف پہنچانا ہے بس تم اپنا کام کرو اور ایسے انداز سے کرو جو انداز تم کو اسلام نے سکھایا ہے۔
Top