Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 66
وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًاۙ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّا كَتَبْنَا : ہم لکھ دیتے (حکم کرتے) عَلَيْهِمْ : ان پر اَنِ : کہ اقْتُلُوْٓا : قتل کرو تم اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ اَوِ اخْرُجُوْا : یا نکل جاؤ مِنْ : سے دِيَارِكُمْ : اپنے گھر مَّا فَعَلُوْهُ : وہ یہ نہ کرتے اِلَّا : سوائے قَلِيْلٌ : چند ایک مِّنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : یہ لوگ فَعَلُوْا : کرتے مَا : جو يُوْعَظُوْنَ : نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : اس کی لَكَانَ : البتہ ہوتا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے وَاَشَدَّ : اور زیادہ تَثْبِيْتًا : ثابت رکھنے والا
اور اگر ہم انہیں حکم دیتے کہ اپنے آپ کو ملامت کرو یا حکم دیتے کہ اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہو تو چند آدمیوں کے سوا کوئی بھی اس کی تعمیل نہ کرتا ، حالانکہ اگر یہ اس پر عمل کرتے اور پوری طرح جمے بھی رہتے تو ان کے حق میں اچھا ہوتا
ان لوگوں کو اپنے آپ کو قتل کرنے ، گھروں سے نکلنے کا حکم دیا جاتا تو کیا یہ بجا لاتے ؟ 119 : اطاعت و فرمانبرداری کا ان کا حکم دیا گیا تھا اس پر انہوں نے جیسا کیسا عمل کیا وہ سب پر عیاں ہے کہ ان میں سے کتنے تھے جو منہ سے اقرار کرنے کے باوجود علمی کوتاہی کے مترتکب ہوئے۔ وہ دائو ہے جو انہیں نے نہیں لگایا ؟ کو وہ حکم ہے جس کا انہوں نے بلا چون وچرا مان لیا ؟ کو نسا وہ وقت ہے کہ وہ چیں بجبیں نہیں ہوئے ؟ یہ کن لوگوں کا بیان ہے انہیں منافقین کا جو نام کے مسلم اور کام وعمل کے کافر تھے۔ اب ان کی حلات کو مزیرد ظاہر کرنے کے لئے تاکہ ان کا نفاق کھل کر سامنے آجائے ور اس طرح گویا جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچا دیا جانے کا اصول بتایا گیا کہ کہنے کو تو وہ اسلام کے مدعی بنے بیٹھے ہیں لیکن ابھی تک وہ جاہلیت کے مطابق روابط وتعلقات اور رسم و رواج کے پھندوں سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ ابھی تک خاندان ، برادری ، قبیلہ اور قوم کی زنجیریں اور بیڑیاں بھی ان کے پائوں میں ہیں اور وطن و سرزمین کی وابستگیاں بھی دامن گیر ہیں اس وجہ سے یہ آگے بڑھنے کی جائے بار بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہے ہیں حالانکہ اسلام کا اول مطالبہ یہی ہے کہ آدمی ہر زنجیر کو توڑ کر صرف اللہ کے لئے اٹھ کھڑا ہوا جس طرح مہاجرین اولین اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ یہ منافقین زیادہ تر یہود اور اطراف مدینہ کے قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر اسلام کے اظہار ہر تو مجبور ہوگئے تھے لیکن یہ اپنے روابط سرداران یہود اور اپنے قبائلی سرداروں کے ساتھ بھی مسلسل رکھنا چاہتے تھے اور اس غرض اپنے اکثر معلامات ومقدمات میں بھی ان سے رجوع کرتے تھے اور یہ لوگ چاہتے تھے کہ دونوں طرف روابط رکھ کر دنیوی فوائد حاصل کرتے رہیں۔ قرآن کریم نے ان کی اس کمزوری سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھانا شروع کیا اور ان کو صاف ننگا کر دکھایا۔ اس جگہ ارشاد فرمایا کہ ان کو اپنوں سے لڑنے اور اپنے گھر بار چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ آملنے کا حکم دیا جائے تو اس جہاد و ہجرت کے لئے یہ لوگ کبھی آمادہ نہ ہوں گے یا بہت ہی تھوڑے ہوں گے جو اس امتحان سے پاس مارکس حاصل کرسکیں۔ ” اُقْتُلُواْ اَنْفُسَکُمْ “ کا حکم قرآن بار بار ارشاد فرمایا ہے اور ہمارے مفسرین نے اس مراد اپنے آپ کو قتل کردینے ہی سے زیادہ ترلی ہے جو کسی صورت بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ خودشی ہے جس کی کبھی بھی اجازت نہیں دی گئی اور حکم و اجازت نہیں دی گئی اور حکم و اجازت میں جو فرق ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ ہاں ! خود کشی کی سزا اسلام میں بڑی سخت ہے۔ یہ ایک طرح کا محاورہ ہے جو اپنے اندر بہت سا مضمون پوشیدہ رکھتا ہے۔ ہاں ! بلاشبہ میدان جنگ میں مسلمان نے اپنے خویش و اقارب پر تلوار چلائی ہے اگر اس سے یہی حکم مرادلیا جائے و بھی اس کی گنجائش موجود ہے لیکن وہ بات جو مفسرین نے لیھ ہے اس کی تو کوئی بھی اصل اسلام میں موجود نہیں کہ ایک طرح کا توبہ کا طریقہ تھا کہ جب انہوں نے اپنے آپ کو قتل کردیا تو اللہ نے ان کو دوبارہ زندہ کردیا اور اس طرح ان کی توبہ قبول ہوگئی ساری بےپر کی اڑائی گئی ہیں۔ جہاد جو اپنی فطرت ہی سے ایک آزمائش ہے لیکن یہ تلوار ان لوگوں کے خلاف اٹھانی پڑے جن سے خون کے رشتے موجود ہوں اور جن کی حمیتوحمایت کا جذبہ رگ ویشہ میں سرایت کئے ہوئے ہو جن کا اٹھانا بھٹانا اور پرورش کرنا ابھی تک یاد ہو ، جن کے پیار و محبت کی داستانیں ابھی تک کانوں میں گونج رہی ہوں تو یہ آزمائش اور بھی سخت تر ہوجاتی ہے اس لئے کہ اس صورت میں تلوار گویا اپنی ہی جانوں پر چلانا پڑتی ہے لیکن اسلام کے حق مقابلہ میں خون اور نسب کا کوئی رشتہ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا اس لئے رب کریم کی وفاداری کا امتحان پاس کرنے کے لئے اہل ایمان کو اس مرحلہ سے بھی گزرانا پڑتا ہے چناچہ تاریخ اسلام شاہد کہ میدان بدر میں ماموں کی تلوار بھانجے ، بھتیجے کی تلوار چچا اور بیٹے کی تلوار نے باپ کو میدان جنگ میں ڈھیر کردیا اور اس طرح عصبیت ، جاہلیت کے تمام روابط دین الٰہی کے آگے بالکل بےحقیقت اور ہیچ ہو کر رہ گئے۔ جو چیز مشکل سے حاصل کی جائے اس کی قدر و منزلت دل میں بڑھ جاتی ہے : 120: اسلام کی اس حقیقت کی طرف یہاں ان منافقین کی بھی توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اگر یہ بھی اپنے خاندوان وقبیلہ اور گھردر کی وابستگیوں سے آزاد اور یکسو ہو کر کلیتاً مسلمانوں کے معاشرے میں شامل ہوجائیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اس طرح ہی اسلام قدر و قیمت کا صحیح احساس ہوتا ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ جو چیز مشکل سے حاصل ہوئی ہے اتنی ہی اس کی قدر و قیمت انسان کے دل میں زیادہ ہوتی ہے اور جتنی ہی کوئی چیز آسانی اور آرام سے حاصل ہوجائے اس کی قیمت اتنی ہی انسان کے دل میں بہت کم ہوتی ہے۔ ایک چیز آسانی اور آرام سے حاصل ہوجائے اس کی قیمت انسان کے دل میں بہت کم ہوتی ہے ایک چیز اپنی کمائی سے اور پھر کمائی بھی بڑی محنت کی ہو تو اس کو عوض دے کر خریدی گئی چیز کے ساتھ جو محبت وا نس ہوگی وہ اس سے سوگنا قیمتی چیز جو مفت میں حاصل ہوگئی ہو اس سے نہیں ہوتی۔ یہی حال اسلام کا ہے اس کے لئے قربانیاں دی گئی ہوں تو جس اس وقت اس کی قدر و قیمت دل میں ہوگی اس کو اس کے متعلق کیا علم ہو سکتا ہے جو نسلاً بعد نسلٍ مسلمان ہوتا آیا ہے فرمایا اس طرح جب یہ لوگ قربانیاں دے کر اسلام میں داخل ہوں گے اور فاسد ماحول سے نکل کر جب یہ پاکیزہ ماحول میں پہنچ جائیں گے تو اس وقت ان کی کمزوریاں دور ہوں گی اور پھر یہ بھی اسلام کے جاں نثاروں کے ساتھ مل کر اللہ کے وفادار اور حق کے خدمت گزار ہوجائیں گے۔ فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ اطاعت رسول پورے طور پر کریں تو یہ ان کی دونوں طرح پر بھلائی کا موجب ہوگا۔ دنیا میں بھی ان کی بہتری کا موجب ہوگا اور ایمان میں بھی وہ مضبوط ہوں گے اور ثابت قدمی میں بھی ترقی کریں گے۔ یا آخرت میں یہ ان کی بھلائی کا موجب اور دنیا میں ان کی ثابت قدمی کا موجب ہوگا۔ اس سے یہ منشاء نہیں کہ حفاظت دین کے لئے اپنے آپ کو قتل تک کے لئے پیش کرنا یا اپنے گھر کو چھوڑ دینا کسی حال میں جائز نہیں ، کیوں نہیں بلکہ یہ بعض اوقات فرض عین ہے کیونکہ دین کے مقابلہ میں جان عزیز ہونا اسلام کا حکم نہیں بلکہ دین کی خاطر کان کی قربانی دینا اسلام کا ایک اہم ترین حکم ہے۔ ہاں ! اپنی جان کو خود قتل کردینا اور پھر یہ کہنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ایک بالکل طفلانہ بات ہے جو نقل و عقل دونوں کے خلاف ہے اور اس طرح کے قتل کو قربانی نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ یہ ” کنوئیں میں گرے کو خصی کرلینے کے مرادف ہے “ یا اس کو لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے “ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور اسلام ایک عقل وفکر کا مذہب ہے ” سِکھ شاہی “ کا نام نہیں۔ بعض چیزوں کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ خرچ کرنے ہی سے بڑھتی ہیں : 121: اب یہ ارشاد ہو رہا ہے کہ احکام پر عمل کرنے سے خود قوت ایمانی ضعیف سے قوی اور قوی سے قوی تر ہوجاتی ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ دین کا کام کرتے رہنے سے اعتقاد یقین کی باطنی کیفیت کو بھی ترقی ہوتی رہتی ہے۔ بشرطیکہ وہ تجارت کے اصول دین کے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ اِذَّا یعنی اس وقت جب انہوں نے احکام خداوندی سر انجام دیئے ہوتے اور رسول اللہ ﷺ کا اتباع کیا ہوتا اور نتیجہ انہیں خیر وصلاح بھی حاصل ہو چکتی اور دین میں ثبات و استقامت بھی نصیب ہو چکتی اس لئے کہ یہ ایک اصلی بات ہے کہ کاٹتا وہی ہے جو بیجتا ہے جو بیجے گا نہیں آخر کاٹے گا کیا ؟
Top