Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 72
وَ اِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ١ۚ فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَهُمْ شَهِیْدًا
وَاِنَّ : اور بیشک مِنْكُمْ : تم میں لَمَنْ : وہ ہے جو لَّيُبَطِّئَنَّ : ضرور دیر لگا دے گا فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَتْكُمْ : تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالَ : کہے قَدْ اَنْعَمَ : بیشک انعام کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيَّ : مجھ پر اِذْ : جب لَمْ اَكُنْ : میں نہ تھا مَّعَھُمْ : ان کے ساتھ شَهِيْدًا : حاضر۔ موجود
اور تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے کہ وہ ضرور قدم پیچھے ہٹائے ، اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑے تو کہے اللہ نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہ تھا
فائدے کے ساجھی نقصان کا نام سنتے ہی دم بخود ہوجائیں گے کہ ہم ساتھ نہیں تھے : 126: چھلنی اور چھاج کیوں ؟ کہ صاف اور ستھرا غلہ الگ ہوجائے۔ میدان جگن کی مصیبت کیا ہے ؟ چھاج بھی اور چھلنی بھی۔ بلاشبہ میدان احد میں تم پر مصیبت آتی لیکن وہ تمہارے اپنے ہی عمل کا نتیجہ تھی اور پھر بھی وہ تمہارے لیے مفید رہی کہ اس نے کھرا اور کھوٹا ، اچھا اور خراب ، گندا اور ستھرا لگ الگ کردیا۔ کھرے اچھے اور ستھرے کو کھوٹا ، خراب اور گندا صاف صاف نظر آنے لگا۔ مسلمان اور منافق کی پہچان ہوگئی۔ جو تم نے کھویا وہ کھویا نہیں گیا وہ کام آگیا۔ جانے والے جنت اور باغوں کی نعمتوں میں خوش اور خراماں ہیں تمہارے زخم بھی مندمل ہوچکے۔ اب تم صاف ستھرے اور کھرے باقی ہو اٹھو اور اپنا مقصد زندگی حاصل کرو۔ ہاں ! کوئی کوئی دانہ ابھی تمہارے اندر موجود ہے۔ اس کی پہچان کیا ہے ؟ وہی کہ وہ فائدے کے ساجھی ہیں اور نقصان کے شریک نہیں۔ جس طرح احد میں تم کو نقصان پہنچا تو وہ بغلیں بجاتے تھے اور ان کی کثیر تعداد پہلے ہی روز تم سے الگ ہوگئی تھی یہی عمل ان کا ہوگا۔ اگر کچھ دینا پڑے گا تو ان کے ہاتھ رُک جائیں گے۔ میدان جنگ کو جانا پڑے گا تو ان کے قدم چلنے سے ڈھیلے پڑیں گے اور ان کی ہمت جواب دے جائے گی اگر میدان جنگ کو جانا پڑے گا تو ان کے قدم چلنے سے ڈھیلے پڑیں گے اور ان کی ہمت جواب دے جائے گی۔ اگر لینے کا وقت آیا تو یہ سب سے آگے ہوں گے۔ گھر بیٹھ کر باتیں کرسکتے ہیں چاہو جتنی کروا لو۔ بس ان کا خیال رکھو اور اپنے کام سے غرض رکھو کیونکہ تم غازی ہو اور زندہ قومیں اپنے دفاع سے کبھی نہیں گھبراتیں اس لیے تم بھی قومی زندگی کا ثبوت دو ۔ ہر جماعت میں کچھ لوگ ایمان و یقین سے محروم اور عزت و ہمت سے تہی دست ہوتے ہیں۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ عزم و ہمت کا کوئی قدم اٹھایا جا رہا ہے تو اپنی کمزوری سے خود بھی باز رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی باز رکھیں۔ پھر جب جماعت قدم اٹھا دیتی ہے تو وہ الگ تھلگ رہ کر غیروں کی طرح تماشا دیکھتے ہیں۔ اگر کامیابی ہوتی ہے تو حسد سے جل مرتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ کاش ! ہم نے بھی ساتھ دیا ہوتا گویا ان کی شخصیت جماعت کی ہستی سے بالکل الگ تھلگ ہے نہ تو اس کا نقصان ان کا نقصان ہے نہ اس کی کامیابی ان کی کامیابی۔
Top