Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 81
وَ یَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ١٘ فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ بَیَّتَ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَكْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ١ۚ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں طَاعَةٌ : (ہم نے) حکم مانا فَاِذَا : پھر جب بَرَزُوْا : باہر جاتے ہیں مِنْ : سے عِنْدِكَ : آپ کے پاس بَيَّتَ : رات کو مشورہ کرتا ہے طَآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْھُمْ : ان سے غَيْرَ الَّذِيْ : اس کے خلاف جو تَقُوْلُ : کہتے ہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ يَكْتُبُ : لکھ لیتا ہے مَا يُبَيِّتُوْنَ : جو وہ رات کو مشورے کرتے ہیں فَاَعْرِضْ : منہ پھیر لیں عَنْھُمْ : ان سے وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اور دیکھو یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کا حکم سر آنکھوں پر ! لیکن جب تمہارے پاس سے جاتے ہیں تو راتوں کو اپنی مجلسیں جماتے اور جو کچھ تم کہتے ہو اس کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور راتوں کی ان مجلسوں میں وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ لکھ رہا ہے ، پس چاہیے کہ ان کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لو اور اللہ پر بھروسہ کرو ، کارسازی کیلئے اللہ کی کارسازی بس کرتی ہے
اللہ کی اطاعت کا دعویدار رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کر کے خود اپنے دعویٰ کی تردید کرتا ہے : 139: جن لوگوں نے بھلائی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تھی اس نسبت سے انہوں نے اللہ کی اطاعت کا دعویٰ کیا لیکن وقت آنے پر برائی کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کر کے گویا انہوں نے اپنے دعویٰ کی خود تردید کردی۔ اس لیے کہ رسول جب اللہ ہی کا رسول ہے اور اس کی اطاعت ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اس لیے وہ اس سے انکاری ہیں۔ حالانکہ رسول کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے۔ جس نے رسول کی اطاعت سے سر پھیرا اس نے یقینا اللہ کی اطاعت کو قبول نہیں کیا۔ اس لیے ایسا دعویٰ جس کی تردید دعویٰ کرنے والا خود ہی کر دے اس پر کسی خارجی شہادت کی ضرورت پیش ہی نہیں آتی وہ خودبخود خارج ہوجاتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا دعویدار توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرتا ہے جس کی سزا بذاتہ بڑی سخت ہے اور وہ دھوکہ دہی کا مجرم بھی ٹھہرتا ہے اس لیے اس کی ” دوہری پوزیشن “ کے پیش نظر اس پر دوہری سزا لازم آتی ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اے پیغمبر اسلام ! ہم نے آپ ﷺ کو داروغہ یا پاسبان بنا کر نہیں مبعوث کیا بلکہ پیغام بر بنا کر بھیجا ہے۔ آپ ﷺ کا کام پیغام پہنانا تھا وہ آپ ﷺ نے پہنچا دیا اب اگر کوئی بدبخت آپ ﷺ کا انکار کرتا ہے تو اس نے آپ ﷺ کا انکار ہی نہیں کیا بلکہ اس نے بھیجنے والے یعنی اللہ کا انکار کیا پھر جب اس نے اللہ کا انکار کردیا تو وہ اس کی سزا سے بچ کر کہاں جائے گا ؟ اور کیسے جائے گا ؟ آپ ﷺ فکر نہ کریں بلکہ سمجھیں کہ ” بس وہ دھر لیا گیا۔ “ اللہ کے رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور اللہ کا رسول اس لیے آتا ہے کہ پیغام برحق پہنچا دے اس لیے نہیں کہ لوگوں کے اعمال کا پاسبان ہو اور انہیں جبراً اپنے طریقے پر چلائے۔ اسلامی نظام میں اصلک مطاع بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہے لیکن یہ تصور کس نے دیا ؟ رسول نے ؟ اس لیے اسلام کہتا ہے کہ رسول کی اطاعت مستقل بالذات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعت الٰہی کی واحد عملی صورت ہے۔ اس بات کو آپ اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ اطاعت اللہ کی ہے لیکن عمل و طریقہ رسول کا۔ اس لیے وہی اطاعت ” اللہ کی اطاعت “ کہلائے گی جو اللہ کے رسول ﷺ کے ” عمل و طریقہ “ کے مطابق ہوگی۔ وہ شخص جو اللہ کی اطاعت کا دعویدار ہے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت یعنی عمل و طریقہ سے سر پھیرتا ہے وہ ہرگز ہرگز اپنے دعویٰ میں سچا نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کی جاسکتی ہے کہ رسول اللہ اطاعت کی جائے اس لیے رسول کی پیروی سے منہ موڑنا اللہ کے خلاف بغاوت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اپنا ارشاد بھی اسی طرح ہے چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا : من اطاعنی فقد اطاع اللہ ومن عصانی فقد عصی اللہ ” جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ “ اور یہی بات قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے جس کی یہاں تفسیر بیان کی جا رہی ہے۔ اس اطاعت کو دو حصوں میں کیوں بیان کیا گیا ؟ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کو ابد الا باد زندہ نہیں رہنا تھا بلکہ آپ ﷺ کا اٹھا لیا جانا بھی لازم و ضروری تھا اس لیے الٰہی پیغام یعنی کلام اللہ اور ” عمل و طریقہ “ رسول دونوں میں خط امتیاز بھی ضروری تھا اور یہ اس صورت مںٰ ممکن تھا کہ ان دونوں کی حیثیت الگ الگ قائم کی جاتی اور یہی کچھ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کلام اللہ یعنی قرآن کریم کو باقاعدہ تحریر کروا کر اول تا آخر مکمل کروا دیا جو اطیعوا اللہ کا مرکز قرار پایا اور رسول اللہ ﷺ کی تشریحات و تفسیر کو آپ ﷺ کا ” عمل و طریقہ “ مشاہدہ کرنے والوں نے منضبط کرا دیا جو اَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور دونوں کے امتزاج کا نام اسلام ہے۔ اس جگہ ایک شبہ کا ازالہ کردینا بھی ضروری ہے کہ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ شبہ پیدا کیا گیا ہے کہ تمام مسائل زندگی کے فیصلے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے ممکن ہی نہیں ، کیوں ؟ اس لیے کہ جو چیزیں بعد میں پیدا ہوئیں اور اس وقعت ان کا وجود ہی نہیں تھا جیسے میونسپل کمیٹیاں ، ڈاک خانہ ، ریلوے ، پی ڈبلیو ڈی ، ٹیلیفون ، تار برقی ، بجلی ، وائرلیس ، ریڈیو ، ٹی وی اور وی سی آر وغیرہ اور ان کے قواعد و ضوابط اور اس طرح ان گنت معاملات کے احکام سرے سے جب وہاں موجود ہی نہیں تھے اس کے ازالہ کے لیے سب سے پہلے یہ یاد رکھنا ہے کہ یہ شبہ اصول دین کو نہ سمجھنے کی بناء پر پیدا ہوا۔ مسلمان کو جو چیز کافی کافر سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کافر مطلق آزادی کا مدعی ہے اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اس دائرہ کی آزادی سے متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اسے دی ہے۔ کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اصول اور قوانین اور ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند نہیں سمجھتا اس کے برعکس مسلمان ہر معاملہ میں سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرتا ہے پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے اور وہ چیزیں جو نئی نئی ایجاد ہوتی ہیں ان کے متعلق کتاب و سنت سے استنباط کر کے جائز و ناجائز کی تمیز کرتا ہے اور اس کی یہ آزادی اس حجت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملہ میں شارع نے جو احکام دیے ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل تیار کرتا ہے۔ پھر جو لائحہ عمل تیار کرتا ہے اس پر مزید تجربہ کرتا رہتا ہے اگر اس کے نقصانات زیادہ اور نفع کم ہو تو ترک کردیتا ہے اور نفع زیادہ اور نقصانات کم ہوں تو ان کو کرتا رہتا ہے اور اس میں اگر وہ نور بصیرت سے کام لے تو ان شاء اللہ کم ہی خطا ہوتی ہے اور اگر کہیں غلطی ہو بھی جائے تو معلوم ہونے پر اس سے تائب ہو کر اپنے مالک حقیقی سے معافی طلب کرتا ہے اور اسلام کا رب اس کے سارے اعمال سے چونکہ خبردار ہوتا ہے اور اس طرح وہ اس کی نیت سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے اگر اس کی نیت میں کوئی فتور نہ ہو تو وہ معاف کردیتا ہے۔ اس طرح کی جتنی ایجادات ہوئی ہیں اور جو جو ابھی مزید ہوں گے ان سے جائز فائدہ وہ اپنا حق سمجھتا ہے کیونکہ وہ اس کے رب ہی کے پیدا کیے گئے عناصر سے ترتیب پائی ہیں اور ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی وہ کبھی کوشش ہی نہیں کرتا اور وہ جانتا ہے کوئی ایجاد بذاتہ خود غلط نہیں غلط ہمیشہ اس کا استعمال ہوتا ہے اس لیے وہ ہر ایجاد سے جائز فائدہ حاصل کرتا ہے بلکہ نئی نئی ایجادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ جس طرح قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اسی طرح اس کائنات میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام اور اللہ کا فعل ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہو سکتے بلکہ وہ دونوں ایک ہیں اس لیے وہ سائنس سے کبھی دور نہیں بھاگتا بلکہ قرآن کریم کے مطابق اس کو ترتیب دینے کی سعی کرتا ہے جس میں وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ کامیاب ہی ہوتا ہے اس طرح نئے نئے اسلحے تیار کرتا اور ان کے استعمال کا علم حاصل کرتا ہے لیکن ان کے استعمال میں وہ قرآن کریم کی راہنمائی کے مطابق پوری احتیاط برتتا ہے تاکہ چھری اس چیز کو کاٹے جس کے کاٹنے کا اس کو حق ہے اور اس سے تجاوز بھی نہیں کرتا تاکہ اس سے مواخذہ نہ ہو۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ اب اس شبہہ کا ازالہ ہوگیا ہوگا اور مزید کوئی شبہ پیدا بھی نہیں ہوگا۔ اسلام اس کو جھوٹا کہتا ہے جو جھوٹا ہو اور پھر اس کو اس کے گھر تک پہنچا دیتا ہے : 140: انہی دوہری پوزیشن کے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ جب تمہاری نافرمانیوں کا یہ حال ہے کہ منہ سے تو یہ اطاعت کا اقرار کرلیتے ہو لیکن راتوں کو مجلس جما کر مخالفانہ مشورے کرتے ہو تو پھر تمہیں کیا حق ہے کہ نتائج کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کو ذمہ دار ٹھہراؤ ؟ بَیَّتَ کے متعلق یاد ہے کہ ہر وہ فعل جس کے متعلق رات کو تدبر کیا جائے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ رات کو سارے ہم خیال اپنے اپنے دھندوں سے فارغ ہو کر ایک جگہ جمع ہوتے اور سب مل کر ایک دوسرے سے مشورہ کر کے ایک پروگرام مرتب کرتے ہیں تاکہ مخالف کو زک پہنچا سکیں اور یہی کچھ یہ لوگ نبی اعظم و آخر ﷺ کی مجلس سے اٹھ کر اپنے سرغنوں کی مجالس میں شریک ہو کر آنے والے روز کا پروگرام حاصل کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ” اے پیغمبر ﷺ ! یہ لوگ اپنی زبانوں سے کیا کہتے ہیں آپ ﷺ کا حکم ہمارے سر آنکھوں پر۔ “ لیکن جب تمہارے پاس اٹھ کر باہر جاتے ہیں تو ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو راتوں کو اپنی مجلسیں جماتے ہیں اور جو کچھ تم کہتے ہو اس کے خلاف مشورے کرتے ہیں۔ گویا بڑے ڈھیٹ اور بےحیاء لوگ ہیں کیا وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح اللہ اور اس کے رسول کو وہ دھوکہ دے لیں گے ؟ جو شخص ایسا سوچ سکتا ہے ایک تو اس کا اسلام ظاہر ہوگیا کہ وہ کتنا متقی ہے ؟ اور دوسرا اس کے فریب کا وبال بھی یقینا اس پر پڑے گا کیونکہ اس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کس مجلس سے اٹھ کر آیا ہے اور اس مجلس میں کوئی ایسا پروگرام مرتب نہیں ہوتا جس میں کسی کو دھوکہ و فریب میں مبتلا کرنے کا کوئی پروگرام ہو اس طرح قانون الٰہی یہ ہے کہ جو فریق دھوکہ دینے کی سوچتا ہے دراصل وہ خود فریب خوردہ ہوتا ہے وہ پانی پر لاٹھی مارتا ہے اس کی چھینٹیں خود اس پر پڑتی ہیں اور پانی کا کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ یہ بھول نہ جائیں ہم ان کے کیے ہوئے مشورہ کو لکھ رہے ہیں : 141: یہ فریب خوردہ لوگ جو کچھ اپنے مشوروں میں طے کرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں اور ان کی یاد دہانی کے لیے محفوظ بھی کر رہے ہیں کہ تحریر شدہ چیز محفوظ ہوجاتی ہے ممکن ہے کہ یہ بھول جائیں لیکن ہم ان کو اس مجلس کی پوری جھلکی دکھائیں گے جس میں ان کے سرغنے اور یہ سارے شامل ہوں گے اور جو کچھ انہوں نے طے کیا ہے اس کی تحریر بھی ان کے سامنے پیش کردیں گے اور ان کو بولتا بھی دکھا دیں گے۔ ہاں ! آج ہی یہ لوگ اس نقشہ کو اپنے ذہن میں رکھ لیں تو شاید ان کو اپنی اس حرکت پر شرمندگی ہو اور یہ اس جرم سے باز آجائیں جو ان کے اپنے لیے ہی مفید ہو۔ پھر آپ ﷺ بھی زیادہ فکر نہ کریں آپ ﷺ کو تو ان کے کرتوتوں سے ہم بتا ہی رہے ہیں اس لیے ان کا کوئی راز بھی آپ ﷺ سے پوشیدہ نہیں رہا اس لیے انہیں جو کچھ کل کرنا ہے ہم آج ہی تم کو بتا دیتے ہیں۔ اگر کسی بات کی اطلاع قبل از وقت نہیں دیتے تو اس میں بھی یقینا آپ ﷺ کا یا آپ ﷺ کے ساتھیوں کا امتحان مطلوب ہوتا ہے اور امتحان کے لیے ضروری ہے کہ پرچہ آؤٹ نہ ہو اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ امتحان کیوں لیا جاتا ہے ؟ ان کی اَن ہونیوں کو آپ ﷺ اپنے دل میں جگہ نہ دیں کہ نیش زن کا کام نیش مارنا ہے : 142: اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ خود اور آپ ﷺ کے ساتھی ان عقرب صفت لوگوں کے متعلق زیادہ خیال ہی نہ کریں اس لیے کہ یہ اپنی عادت سے باز آنے والے نہیں اور یہ لباس انہوں نے اتارنے کے لیے نہیں پہنا بلکہ اس کے اندر کچھ چھپانے کے لیے پہنا ہے۔ آپ ﷺ اپنے اللہ پر بھروسہ کریں اور ان کو نیش مارنے کا موقعہ ہی فراہم نہ کریں بلکہ ان کو دور سے آتا دیکھ کر ان کے چہروں سے ان کے اندر کی حالت دیکھ لیں اس طرح سب کچھ آپ ﷺ پر روشن ہوجائے گا اور یہی سبق اپنے ساتھیوں کو بھی یاد کرائیں۔ یاد رکھو کہ جو ” دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ “ وہ عقل مند نہیں ہوتا۔ عقل و فکر اس چیز کا نام ہے کہ دودھ اور چھاچھ کو دیکھتے ہی پہچان جائے کہ یہ دودھ ہے اور یہ چاچھ۔ ہاں ! پکڑتے ہی منہ نہ لگا لو ، توقف کرو تمہیں ہاتھ ہی نہ بتا دے گا کہ پینے کے قابل ہے یا ابھی نہیں۔ فرمایا : جس کا اللہ کارساز ہو اس کو کسی دوسرے کی کارسازی کی آخر ضرورت ہی کیوں ؟
Top