Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور جب کبھی تمہیں دعا دے کر سلام کیا جائے تو چاہیے کہ جو کچھ سلام و دعا میں کہا گیا ہے اس سے زیادہ اچھی بات جواب میں کہو یا جو کچھ کہا گیا ہے اس کو لوٹا دو ، بلاشبہ اللہ ہرچیز کا حساب لینے والا ہے
السلام علیکم کا جواب وعلیکم السلام ویسا ہی جواب ہے جیسا کہ اس نے دیا : 148: اس آیت میں سلام و دعا کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ اسلام سے قبل عربوں میں ملاقات کے وقت ” حَیَّاکَ اللّٰہ “ کہنے کا رواج تھا جس کے معنی ہیں کہ ” اللہ تم کو زندہ رکھے “ اس طرح ” اَنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا “ یا ” اَنْعَمَ صَبَاحًا “ کے الفاظ سے بھی ایک دوسرے سے سلام و دعا کرتے تھے اسلام نے طرز تحیہ کی بجائے ” اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ “ کہنے کا طریقہ جاری کیا اور اس کے جواب میں ” وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ “ کہنا شروع کیا یعنی ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو ” السلام علیکم “ کہے اور دوسرا پہلے کو ” وعلیکم السلام “ سے جواب دے اور اگر وعلیکم السلام وحرمۃ اللہ کہہ دے تو گویا اس نے پہلے کو اچھا جواب دیا۔ زیرنظر آیت میں اس بات کا حکم ہے اور السلام علیکم کے معنی ” اَللّٰہُ رَقِیْبٌ عَلَیْکُمْ “ کے ہیں یعنی ” اللہ تعالیٰ تمہارا محافظ و نگہبان ہو۔ “ دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس کا رواج ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہار محبت کے لیے کہیں۔ لیکن موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلامی سلام جتنا جامع ہے کوئی دوسرا ایسا جامع نہیں ، کیونکہ اس میں صرف اظہار محبت ہی نہیں ، بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کو تمام آفات اور آلام سے سلامت رکھے پھر دعا بھی عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں بلکہ حیات طیبہ کی دعا ہے ، تمام آفات اور آلام سے محفوظ رہنے کی ، اسی کے ساتھ اس کا بھی اظہار ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے متحاج ہیں ، ایک دوسرے کو کوئی نفع بغیر اس کے اذن کے نہیں پہنچا سکتا ، اس معنی کے اعتبار سے یہ کلمہ ایک عبادت بھی ہے اور اپنے بھائی مسلمان کو اللہ تعالیٰ یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔ اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ ہمارے ساتھی کو تمام آفات اور تکالیف سے محفوظ فرما دے تو اس کے ضمن میں وہ گویا یہ وعدہ بھی کر رہا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو ، تمہاری جان ، مال ، آبرو کا محافظ ہوں۔ ابن عربی نے احکام القرآن میں امام ابن عینیہ کا یہ قول نقل کیا ہے : اتدری ما السلام ؟ یقول انت آمن منی۔ ” یعنی تم جانتے ہو کہ کیا چیز ہے ؟ سلام کرنے والا یہ کہتا ہے کہ تم مجھ سے مامون رہو۔ “ خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تحیہ ایک عالمگیر جامعیت رکھتا ہے۔ (1) اس میں اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے۔ (2) تذکیر بھی (3) اپنے بھائی مسلمان سے اظہار تعلق و محبت بھی (4) اس کے لیے بہترین دعا بھی (5) اور اس سے یہ معاہدہ بھی کہ میرے ہاتھ اور زبان سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی ، جیسا کہ حدیث صحیح میں رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد وارد ہے : اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ ۔ (الحدیث) ” یعنی مسلمان تو وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے سب مسلمان محفوظ رہیں ، کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ “ کاش ! مسلمان اس کلمہ کو عام لوگوں کی رسم کی طرح ادا نہ کرے ، بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر اختیار کرے ، تو شاید پوری قوم کی اصلاح کے لیے یہی کافی ہوجائے ، یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں کے باہم سلام کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اور اس کے فضائل و برکات اور اجر وثواب بیان فرمائے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی ایک حدیث ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ” تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک مومن نہ ہو اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہاری آپس میں محبت قائم ہوجائے گی ، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو ، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔ “ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں : ” ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اسلام کے اعمال میں سب سے افضل کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کھانا کھلا دو اور سلام کو عام کرو خواہ تم اس کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔ “ (صحیحین) مسند احمد ، ترمذی ، ابوداؤد نے حضرت ابوامامہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں ابتداء کرے۔ مسند بزار اور معجم کبیر طبرانی میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا ہے ، اس لیے تم آپس میں سلام کو عام کرو ، کیونکہ مسلمان آدمی جب کسی مجلس میں جاتا ہے اور ان کو سلام کرتا ہے تو اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا ایک بلند مقام حاصل ہوتا ہے ، کیونکہ اس نے سب کو سلام ، یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دلائی ، اگر مجلس والوں نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا تو ایسے لوگ اس کو جواب دیں گے جو اس مجلس والوں سے بہتر ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے فرشتے۔ اور ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ بڑا بخیل وہ آدمی ہے جو سلام میں بخل کرے۔ (طبرانی ، معجم کبیر عن ابی ہریرہ ؓ رسول کریم ﷺ کے ان ارشادات کا صحابہ کرام ؓ پر جو اثر ہوا اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اکثر بازار میں صرف اس لیے جایا کرتے تھے کہ جو مسلمان ملے اس کو سلام کر کے عبادت کا ثواب حاصل کریں ، کچھ خریدنا یا فروخت کرنا مقصود نہ ہوتا تھا ، یہ روایت مؤطا امام مالک میں طفیل بن ابی بن کعب ؓ سے نقل کی ہے۔ قرآن مجید کی جو آیت اوپر ذکر کی گئی ہے اس میں ارشاد یہ ہے کہ جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس کا جواب اس سے بہتر الفاظ میں دو ، یا کم از کم ویسے ہی الفاظ کہہ دو اس کی تشریح رسول کریم ﷺ نے اپنے عمل سے اس طرح فرمائی ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ” السلام علیک یا رسول اللہ “ آپ ﷺ نے جواب میں کلمہ بڑھا کر فرمایا : ” وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ “۔ پھر ایک صاحب آئے اور انہوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے : ” السلام علیک یا رسول اللہ ورحمتہ اللہ “ آپ نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا : ” وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ “ پھر ایک صاحب آئے انہوں نے اپنے سلام میں تینوں ہی کلمے کر کہا : ” السلام علیک رسول اللہ ورحمتہ اللہ وبرکاتہ “ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ ” وعلیک “ پر اکتفا فرمایا۔ فرمایا کہ تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے ، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیے ، اس لیے ہم نے قرآنی تعلیم کے مطابق تمہارے سلام کا جواب بالمثل دینے پر اکتفاء کرلیا۔ اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے۔ حدیث مذکور سے ایک بات تو معلوم ہوئی کہ سلام کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دینے کا جو حکم آیت مذکورہ میں آیا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے الفاظ سے بڑھا کر جواب دیا جائے ، مثلاً اس نے کہا : ” السلام علیکم “ تو آپ جواب دیں ” وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ “ اور اس نے کہا ” السلام علیکم ورحمتہ اللہ “ تو آپ جواب میں کہیں ” وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ “۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہ کلمات کی زیادتی صرف تین کلمات تک مسنون ہے اس سے زیادہ مسنون نہیں اور حکمت اس کی ظاہر ہے کہ سلام کا موقع مختصر کلام کرنے کا مقتضی ہے ، اس میں اتنی زیادتی مناسب نہیں ہے جو کسی کام میں منحل یا سننے والے پر بھاری ہوجائے اس لیے جب ایک صاحب نے اپنے ابتدائی اسلام ہی میں تینوں کلمے جمع کردیے تو رسول اللہ ﷺ نے آگے اور زیادتی سے احتراز فرمایا۔ اس کی مزید توضیح حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اس طرح فرمائی کہ مذکورہ تینوں سے زیادہ کرنے والے کو یہ کہہ کر روک دیا کہ : ان السلام قد انتھی الی البرکۃ۔ (مظہری عن البغوی) یعنی سلام لفظ برکت پر ختم ہوجاتا ہے ، اس سے زیادہ کرنا مسنون نہیں ہے۔ (لو مثلہ عن ابن کثیر) تیسری بات حدیث مذکور سے یہ معلوم ہوئی کہ سلام میں تین کلمے کہنے والے کے جواب میں اگر صرف ایک کلمہ ہی کہہ دیا جائے تو وہ بھی اداء بالمثل کے حکم میں حکم قرآنی اَوْرُدُّوْھَا کی تعمیل کے لیے کافی ہے ، جیسا کہ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے صرف ایک کلمہ پر اکتفاء فرمایا ہے۔ (تفسیر مظہری) مضمون آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے ، اگر بغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دیا تو گناہ گار ہوگا ، البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے ، ایک یہ ہے کہ جن الفاظ سے سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے ، دوسرے یہ کہ بعینہٖ انہی الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔ اس آیت میں سلام کا جواب دینے کو تو لازم واجب صراحتاً بتلا دیا گیا ہے ، لیکن ابتداء سلام کرنے کا کیا درجہ ہے ؟ اس کا بیان صراحتاً نہیں مگر ” اِذَا حُیِّیْتُمْ “ میں اس کے حکم کی طرف بھی اشارہ موجود ہے ، کیونکہ اس لفظ کو بصیغہ مجہول بغیر تعین فاعل ذکر کرنے میں اشارہ ہو سکتا ہے کہ سلام ایسی چیز ہے جو عادۃً سب ہی مسلمان کرتے ہیں۔ مسند احمد ، ترمذی ، ابوداؤد میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب وہ شخص ہے جو سلام کی ابتداء کرے۔ اور سلام کی تاکید اور فضائل آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے بھی آپ سن چکے ہیں ، ان سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سلام کرنا بھی سنت مؤکدہ سے کم نہیں تفسیر بحر محیط میں ہے کہ ابتدائی سلام تو اکثر علماء کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے اور حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا السلام تطوع والرد فریضۃ یعنی ابتداء سلام کرنے میں تو اختیار ہے ، لیکن سلام کا جواب دینا فرض ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اس حکم قرآنی کی مزید تشریح کے طور پر سلام اور جواب سلام کے متعلق اور بھی کچھ تفصیلات بیان فرمائی ہیں ، وہ بھی مختصر طور پر سن لیجئے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ جو شخص سواری پر ہو اس کو چاہئے کہ پیادہ چلنے والے کو خود سلام کرے اور جو چل رہا ہو وہ بیٹھے ہوئے سلام کرے اور جو لوگ تعداد میں قلیل ہوں اور وہ کسی بڑی جماعت پر گزریں تو ان کو چاہئے کہ سلام کی ابتداء کریں۔ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب آدمی اپنے گھر میں جائے تو اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہئے کہ اس سے اس کے لیے بھی برکت ہوگی اور اس کے گھر والوں کے لیے بھی۔ ابوداؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان سے بار بار ملاقات ہو تو ہر مرتبہ سلام کرنا چاہئے اور جس طرح اول ملاقات کے وقت سلام کرنا مسنون ہے اسی طرح رخصت کے وقت بھی سلام کرنا مسنون اور ثواب ہے۔ ترمذی ابوداؤد میں یہ حکم بروایت قتادہ ؓ و ابوہریرہ ؓ نقل کیا ہے۔ اور یہ حکم جو ابھی بیان کیا گیا ہے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے ، اس سے چند حالات مستثنیٰ ہیں ، جو شخص نماز پڑھ رہا ہے اگر کوئی اس کو سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں بلکہ مفسد نماز ہے ، اسی طرح جو شخص خطبہ دے رہا ہے یا قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہے یا اذان یا اقامت کہہ رہا ہے یا درس دے رہا ہے یا انسانی ضروریات و حوائج جیسے پیشاب ، پاخانہ میں ہے اس کو اس حالت میں سلام کرنا بھی جائز نہیں اور اس کے ذمہ جواب دینا بھی واجب نہیں۔ اختتام مضمون پر فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَْئیٍ حَسِیْبًا ” اللہ تعالیٰ ہرچیز کا حساب لینے والا ہے جن میں انسانی اور اسلامی حقوق مثل سلام اور جواب سلام کے سارے امور داخل ہیں ان کا بھی اللہ تعالیٰ حساب لے گا۔ اس لیے کہ سلام اور جواب سلام انسانی حقوق میں داخل ہے اور اسلامی حقوق میں بھی۔ کتنی بدبختی کی بات ہے کہ آج ہم عملی طور پر اسے نہ انسانی حقوق میں داخل کرنے کے لیے تیار ہیں نہ اسلامی حقوق میں۔ اللہ سمجھ کی توفیق سلب کرلے تو عطاء کرنے والا آخر کون ہے ؟
Top