Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا
: اور جب
حُيِّيْتُمْ
: تمہیں دعا دے
بِتَحِيَّةٍ
: کسی دعا (سلام) سے
فَحَيُّوْا
: تو تم دعا دو
بِاَحْسَنَ
: بہتر
مِنْھَآ
: اس سے
اَوْ
: یا
رُدُّوْھَا
: وہی لوٹا دو (کہدو)
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلٰي
: پر (کا)
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
حَسِيْبًا
: حساب کرنے والا
اور جب کبھی تمہیں دعا دے کر سلام کیا جائے تو چاہیے کہ جو کچھ سلام و دعا میں کہا گیا ہے اس سے زیادہ اچھی بات جواب میں کہو یا جو کچھ کہا گیا ہے اس کو لوٹا دو ، بلاشبہ اللہ ہرچیز کا حساب لینے والا ہے
السلام علیکم کا جواب وعلیکم السلام ویسا ہی جواب ہے جیسا کہ اس نے دیا : 148: اس آیت میں سلام و دعا کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ اسلام سے قبل عربوں میں ملاقات کے وقت ” حَیَّاکَ اللّٰہ “ کہنے کا رواج تھا جس کے معنی ہیں کہ ” اللہ تم کو زندہ رکھے “ اس طرح ” اَنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا “ یا ” اَنْعَمَ صَبَاحًا “ کے الفاظ سے بھی ایک دوسرے سے سلام و دعا کرتے تھے اسلام نے طرز تحیہ کی بجائے ” اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ “ کہنے کا طریقہ جاری کیا اور اس کے جواب میں ” وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ “ کہنا شروع کیا یعنی ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو ” السلام علیکم “ کہے اور دوسرا پہلے کو ” وعلیکم السلام “ سے جواب دے اور اگر وعلیکم السلام وحرمۃ اللہ کہہ دے تو گویا اس نے پہلے کو اچھا جواب دیا۔ زیرنظر آیت میں اس بات کا حکم ہے اور السلام علیکم کے معنی ” اَللّٰہُ رَقِیْبٌ عَلَیْکُمْ “ کے ہیں یعنی ” اللہ تعالیٰ تمہارا محافظ و نگہبان ہو۔ “ دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس کا رواج ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہار محبت کے لیے کہیں۔ لیکن موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلامی سلام جتنا جامع ہے کوئی دوسرا ایسا جامع نہیں ، کیونکہ اس میں صرف اظہار محبت ہی نہیں ، بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کو تمام آفات اور آلام سے سلامت رکھے پھر دعا بھی عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں بلکہ حیات طیبہ کی دعا ہے ، تمام آفات اور آلام سے محفوظ رہنے کی ، اسی کے ساتھ اس کا بھی اظہار ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے متحاج ہیں ، ایک دوسرے کو کوئی نفع بغیر اس کے اذن کے نہیں پہنچا سکتا ، اس معنی کے اعتبار سے یہ کلمہ ایک عبادت بھی ہے اور اپنے بھائی مسلمان کو اللہ تعالیٰ یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔ اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ ہمارے ساتھی کو تمام آفات اور تکالیف سے محفوظ فرما دے تو اس کے ضمن میں وہ گویا یہ وعدہ بھی کر رہا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو ، تمہاری جان ، مال ، آبرو کا محافظ ہوں۔ ابن عربی نے احکام القرآن میں امام ابن عینیہ کا یہ قول نقل کیا ہے : اتدری ما السلام ؟ یقول انت آمن منی۔ ” یعنی تم جانتے ہو کہ کیا چیز ہے ؟ سلام کرنے والا یہ کہتا ہے کہ تم مجھ سے مامون رہو۔ “ خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تحیہ ایک عالمگیر جامعیت رکھتا ہے۔ (1) اس میں اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے۔ (2) تذکیر بھی (3) اپنے بھائی مسلمان سے اظہار تعلق و محبت بھی (4) اس کے لیے بہترین دعا بھی (5) اور اس سے یہ معاہدہ بھی کہ میرے ہاتھ اور زبان سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی ، جیسا کہ حدیث صحیح میں رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد وارد ہے : اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ ۔ (الحدیث) ” یعنی مسلمان تو وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے سب مسلمان محفوظ رہیں ، کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ “ کاش ! مسلمان اس کلمہ کو عام لوگوں کی رسم کی طرح ادا نہ کرے ، بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر اختیار کرے ، تو شاید پوری قوم کی اصلاح کے لیے یہی کافی ہوجائے ، یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں کے باہم سلام کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اور اس کے فضائل و برکات اور اجر وثواب بیان فرمائے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی ایک حدیث ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ” تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک مومن نہ ہو اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہاری آپس میں محبت قائم ہوجائے گی ، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو ، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔ “ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں : ” ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اسلام کے اعمال میں سب سے افضل کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کھانا کھلا دو اور سلام کو عام کرو خواہ تم اس کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔ “ (صحیحین) مسند احمد ، ترمذی ، ابوداؤد نے حضرت ابوامامہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں ابتداء کرے۔ مسند بزار اور معجم کبیر طبرانی میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا ہے ، اس لیے تم آپس میں سلام کو عام کرو ، کیونکہ مسلمان آدمی جب کسی مجلس میں جاتا ہے اور ان کو سلام کرتا ہے تو اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا ایک بلند مقام حاصل ہوتا ہے ، کیونکہ اس نے سب کو سلام ، یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دلائی ، اگر مجلس والوں نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا تو ایسے لوگ اس کو جواب دیں گے جو اس مجلس والوں سے بہتر ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے فرشتے۔ اور ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ بڑا بخیل وہ آدمی ہے جو سلام میں بخل کرے۔ (طبرانی ، معجم کبیر عن ابی ہریرہ ؓ رسول کریم ﷺ کے ان ارشادات کا صحابہ کرام ؓ پر جو اثر ہوا اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اکثر بازار میں صرف اس لیے جایا کرتے تھے کہ جو مسلمان ملے اس کو سلام کر کے عبادت کا ثواب حاصل کریں ، کچھ خریدنا یا فروخت کرنا مقصود نہ ہوتا تھا ، یہ روایت مؤطا امام مالک میں طفیل بن ابی بن کعب ؓ سے نقل کی ہے۔ قرآن مجید کی جو آیت اوپر ذکر کی گئی ہے اس میں ارشاد یہ ہے کہ جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس کا جواب اس سے بہتر الفاظ میں دو ، یا کم از کم ویسے ہی الفاظ کہہ دو اس کی تشریح رسول کریم ﷺ نے اپنے عمل سے اس طرح فرمائی ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ” السلام علیک یا رسول اللہ “ آپ ﷺ نے جواب میں کلمہ بڑھا کر فرمایا : ” وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ “۔ پھر ایک صاحب آئے اور انہوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے : ” السلام علیک یا رسول اللہ ورحمتہ اللہ “ آپ نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا : ” وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ “ پھر ایک صاحب آئے انہوں نے اپنے سلام میں تینوں ہی کلمے کر کہا : ” السلام علیک رسول اللہ ورحمتہ اللہ وبرکاتہ “ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ ” وعلیک “ پر اکتفا فرمایا۔ فرمایا کہ تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے ، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیے ، اس لیے ہم نے قرآنی تعلیم کے مطابق تمہارے سلام کا جواب بالمثل دینے پر اکتفاء کرلیا۔ اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے۔ حدیث مذکور سے ایک بات تو معلوم ہوئی کہ سلام کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دینے کا جو حکم آیت مذکورہ میں آیا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے الفاظ سے بڑھا کر جواب دیا جائے ، مثلاً اس نے کہا : ” السلام علیکم “ تو آپ جواب دیں ” وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ “ اور اس نے کہا ” السلام علیکم ورحمتہ اللہ “ تو آپ جواب میں کہیں ” وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ “۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہ کلمات کی زیادتی صرف تین کلمات تک مسنون ہے اس سے زیادہ مسنون نہیں اور حکمت اس کی ظاہر ہے کہ سلام کا موقع مختصر کلام کرنے کا مقتضی ہے ، اس میں اتنی زیادتی مناسب نہیں ہے جو کسی کام میں منحل یا سننے والے پر بھاری ہوجائے اس لیے جب ایک صاحب نے اپنے ابتدائی اسلام ہی میں تینوں کلمے جمع کردیے تو رسول اللہ ﷺ نے آگے اور زیادتی سے احتراز فرمایا۔ اس کی مزید توضیح حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اس طرح فرمائی کہ مذکورہ تینوں سے زیادہ کرنے والے کو یہ کہہ کر روک دیا کہ : ان السلام قد انتھی الی البرکۃ۔ (مظہری عن البغوی) یعنی سلام لفظ برکت پر ختم ہوجاتا ہے ، اس سے زیادہ کرنا مسنون نہیں ہے۔ (لو مثلہ عن ابن کثیر) تیسری بات حدیث مذکور سے یہ معلوم ہوئی کہ سلام میں تین کلمے کہنے والے کے جواب میں اگر صرف ایک کلمہ ہی کہہ دیا جائے تو وہ بھی اداء بالمثل کے حکم میں حکم قرآنی اَوْرُدُّوْھَا کی تعمیل کے لیے کافی ہے ، جیسا کہ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے صرف ایک کلمہ پر اکتفاء فرمایا ہے۔ (تفسیر مظہری) مضمون آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے ، اگر بغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دیا تو گناہ گار ہوگا ، البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے ، ایک یہ ہے کہ جن الفاظ سے سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے ، دوسرے یہ کہ بعینہٖ انہی الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔ اس آیت میں سلام کا جواب دینے کو تو لازم واجب صراحتاً بتلا دیا گیا ہے ، لیکن ابتداء سلام کرنے کا کیا درجہ ہے ؟ اس کا بیان صراحتاً نہیں مگر ” اِذَا حُیِّیْتُمْ “ میں اس کے حکم کی طرف بھی اشارہ موجود ہے ، کیونکہ اس لفظ کو بصیغہ مجہول بغیر تعین فاعل ذکر کرنے میں اشارہ ہو سکتا ہے کہ سلام ایسی چیز ہے جو عادۃً سب ہی مسلمان کرتے ہیں۔ مسند احمد ، ترمذی ، ابوداؤد میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب وہ شخص ہے جو سلام کی ابتداء کرے۔ اور سلام کی تاکید اور فضائل آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے بھی آپ سن چکے ہیں ، ان سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سلام کرنا بھی سنت مؤکدہ سے کم نہیں تفسیر بحر محیط میں ہے کہ ابتدائی سلام تو اکثر علماء کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے اور حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا السلام تطوع والرد فریضۃ یعنی ابتداء سلام کرنے میں تو اختیار ہے ، لیکن سلام کا جواب دینا فرض ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اس حکم قرآنی کی مزید تشریح کے طور پر سلام اور جواب سلام کے متعلق اور بھی کچھ تفصیلات بیان فرمائی ہیں ، وہ بھی مختصر طور پر سن لیجئے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ جو شخص سواری پر ہو اس کو چاہئے کہ پیادہ چلنے والے کو خود سلام کرے اور جو چل رہا ہو وہ بیٹھے ہوئے سلام کرے اور جو لوگ تعداد میں قلیل ہوں اور وہ کسی بڑی جماعت پر گزریں تو ان کو چاہئے کہ سلام کی ابتداء کریں۔ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب آدمی اپنے گھر میں جائے تو اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہئے کہ اس سے اس کے لیے بھی برکت ہوگی اور اس کے گھر والوں کے لیے بھی۔ ابوداؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان سے بار بار ملاقات ہو تو ہر مرتبہ سلام کرنا چاہئے اور جس طرح اول ملاقات کے وقت سلام کرنا مسنون ہے اسی طرح رخصت کے وقت بھی سلام کرنا مسنون اور ثواب ہے۔ ترمذی ابوداؤد میں یہ حکم بروایت قتادہ ؓ و ابوہریرہ ؓ نقل کیا ہے۔ اور یہ حکم جو ابھی بیان کیا گیا ہے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے ، اس سے چند حالات مستثنیٰ ہیں ، جو شخص نماز پڑھ رہا ہے اگر کوئی اس کو سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں بلکہ مفسد نماز ہے ، اسی طرح جو شخص خطبہ دے رہا ہے یا قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہے یا اذان یا اقامت کہہ رہا ہے یا درس دے رہا ہے یا انسانی ضروریات و حوائج جیسے پیشاب ، پاخانہ میں ہے اس کو اس حالت میں سلام کرنا بھی جائز نہیں اور اس کے ذمہ جواب دینا بھی واجب نہیں۔ اختتام مضمون پر فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَْئیٍ حَسِیْبًا ” اللہ تعالیٰ ہرچیز کا حساب لینے والا ہے جن میں انسانی اور اسلامی حقوق مثل سلام اور جواب سلام کے سارے امور داخل ہیں ان کا بھی اللہ تعالیٰ حساب لے گا۔ اس لیے کہ سلام اور جواب سلام انسانی حقوق میں داخل ہے اور اسلامی حقوق میں بھی۔ کتنی بدبختی کی بات ہے کہ آج ہم عملی طور پر اسے نہ انسانی حقوق میں داخل کرنے کے لیے تیار ہیں نہ اسلامی حقوق میں۔ اللہ سمجھ کی توفیق سلب کرلے تو عطاء کرنے والا آخر کون ہے ؟
Top