Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو فریق بن گئے ہو حالانکہ اللہ نے ان بدعملیوں کی وجہ سے جو انہوں نے کمائی ہیں انہیں الٹا دیا ہے ، کیا تم چاہتے ہو کہ ان کو راہ دکھا دو جن پر اللہ نے راہ گم کردی ؟ اور یاد رکھو جس پر اللہ راہ گم کر دے تو پھر تم اس کیلئے کوئی راہ نہیں نکال سکتے
قانون الہی جس کو فیل کردے تم اس کو پاس کرنے والے کون ہو ؟ بےفائدہ جھگڑا چھوڑ دو : 150: بلاشبہ اسلام نرمی کو پسند کر ات ہے لیکن ساتھ ہی وہ ہر معاملہ میں اعتدال پسند بھی ہے اس لحاظ سے ایسی نرمی جو جماعت و قوم کے لیے نقصان دہ ہو وہ نرمی نرمی نہیں رہتی بلکہ کچھ اور ہی بن جاتی ہے۔ لوگ جب اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے اور رسول اللہ کی ہجرت کے بعد انہوں نے بھی ہجرت شروع کردی تو ایسے بھی واقعات رونما ہوئے کہ کچھ سچے مسلمانوں کے ساتھ کچے لوگ بھی شامل ہوگئے اور یہ فطری بات تھی مثلا ایک آدمی نے سچے دل سے ایمان قبول کیا ہے وہ رسول اللہ کی ہجرت کے بعد مکہ میں ایک پل رہنا بھی گوارا نہیں کرتا وہ سب کچھ چھوڑ کر نکلنا چاہتا ہے لیکن اس گھر اور خاندان کے کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو ایمان میں تو پکے نہیں لیکن اس اپنے آدمی کا ساتھ چھوڑنا بھی ان کو پسند نہیں ہے اس لیے وہ اس پکے مسلمان کے ساتھ ہجرت کر کے آجاتے ہیں تو صورت حال کیا پیدا ہوئی ؟ وہ ایمان میں تو پکے نہیں تھے لیکن اپنے ایمان میں پکے آدمی کے ساتھ ہجرت کر کے آگئے اس طرح وہ مزاج کے لحاظ سے تو اسلام کے مزاج شناس نہیں لیکن ان میں کا ایک جو اسلام کا مزاج شناس ہے اس کو بھی ان سے فطری محبت ہے کیوں ؟ اس لیے کہ انہوں نے اس کے ساتھ مل کر اپنا سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے دل میں بھی ان کے لیے نرم گوشہ ہوگا۔ بس اس طرح کے کئی لوگ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے لیکن ان کی پوزیشن دوہری رہی ایسے لوگوں نے کافی حد تک بدمزگی پیدا کی کیونکہ وہ مدینہ ہجرت تو کر آئے لیکن وہاں کا نظام حیات ، اخلاقی پابندیوں اور ساتھ ہی ساتھ دشمنوں کے حملہ کا خطرہ انہیں وہاں قیام نہ کرنے دیتا اور وہ آب و ہوا کی ناموافقت کا عذر کر کے واپس لوٹ جاتے۔ پھر اس طرح کے لوگوں کے متعلق مسلمانوں کی آرا مختلف تھیں بعض ان کو مسلمان سمجھتے اور بعض ان کو خارج اسلام سمجھتے اور اس طرح مسلمانوں کی گویا دو جماعتیں بن گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ان کے متعلق دو جماعتوں میں تقسیم کیوں ہوتے ہو وہ تو اپنی بداعمالیوں کے باعث جدھر سے آئے تھے تو ادھر واپس چلے گئے اور تم نے خواہ مخواہ اس معاملہ میں جھگڑنا شروع کردیا۔ مفسرین نے ایسے بہت سے لوگوں کے نام بھی اور ان کے کام بھی اور ان کا انجام بھی ذکر کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ان دو جماعتوں سے مسلمانوں کے مقابلہ میں منافقوں کی اس جماعت کا ذکر ہے جو عبداللہ بن ابی منافقین کے سردار کی پارٹی تھے جو احد کی جنگ میں مدینہ سے نکل کر اپنے ساتھیوں سمیت واپس آگیا تھا۔ بہرحال اس جگہ اس تفصیل میں گئے بغیر مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ وہ جو کچھ ہیں ان کو چھوڑو تم آپس میں اختلاف مت کرو۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اختلاف کسی حال میں بھی اچھا نہیں ہوتا یا یہ کہ اختلاف ہونے کے باوجود جماعت ہی میں رہنا بہتر ہوتا ہے اور جماعتی کاموں کی دلچسپی کو ذاتی اختلافات کی بنا پر نہ ترک کیا جاسکتا ہے اور نہ ان میں بددلی کا اظہار کیا جاسکتا ہے بلکہ وسعت سے کام لے کر اس اختلاف کو برداشت کرنا مناسب ہوتا ہے۔ اور اس جگہ یہی ہدایت دی جارہی ہے ۔ قانون الہی میں ہدایت حاصل کرنے کے دو ہی راستے ہیں غور و فکر اور مشاہدہ و نظر : 151: فرمایا جارہا ہے کہ غور کرو کہ جو لوگ نہ تو فکر سے کام لیتے ہوں اور نہ مشاہدہ و نظر سے ان کی ہدایت کی کوئی اور راہ بھی ہوسکتی ہے ؟ اگر وہ فکر سے کام لیتے تو پیغمبر اسلام کی پوری زندگی ان کے سامنے تھی کیونکہ وہ ان میں پیدا ہوا انہی میں رہ کر جوان ہوا اور انہی میں سے ہے جو بذاتہ سچائی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اگر نظر و مشاہدہ سے کام لیتے تو آسمان و زمین کا ایک ایک ذرہ اس کی الوہیت ، اس کی ہستی اور اس کے مقررہ قوانین خلقت کی شہادت دے رہا ہے اس لیے جب یہ دونوں باتیں ان کی ہدایت کا باعث نہ بن سکیں تو پھر تم ان کو ہدایت کس طرح دے لوگے ؟ اور یہ مضمون قرآن کریم میں بار بار بیان فرمایا گیا ہے چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا : من یضلل اللہ فلا ھادی لہ ویذرھم فی طغیانھم یعمھون۔ (الاعراف : 186) جس پر کامیابی کی راہ اللہ گم کردے یعنی اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قانون نتائج کے مطابق کھویا جائے تو پھر اس کے لیے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔ اللہ نے انہیں چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : من یھدی اللہ فھو المھتدی ومن یضلل فاولئک ھم الخاسرون ۔ (الاعراف : 178) جس پر اللہ کامیابی کی راہ کھول دے تو وہی راہ ہے اور جس پر کامیابی کی راہ گم کردے تو ایسے ہی لوگ ہیں جو گھاٹے میں پڑے ہیں۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : جس کسی کو اللہ سعادت و کامیابی کی راہ پر لگا دے فی الحقیقت وہی راہ پر ہے اور جس کسی پر اس نے راہ گم کردی تو تم اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے ۔ (بنی اسرائیل : 97) ایک جگہ فرمایا : جس کسی پر وہ کامیابی کی راہ کھول دے تو وہی راہ پر ہے ۔ جس پر وہ راہ گم کردے تو تم کسی کو اس کا کارساز اس کا رادہ دکھانے والا نہ پاؤ گے۔ (الکہف : 18۔ 17) اس لیے تم یاد رکھو کہ جس کو قانون الہی فیل کردے اس کو تم پاس نہیں کرسکتے اور تمہارا یہ جھگڑا تمہارے لیے نقصان دہ ہے اس سے تمہاری ہوا اکھڑے گی اور تم پریشان ہوگے اور اسلام لانے کے بعد یہ راہ چہ معنی دارد ؟ یہ وہ وقت تھا جبکہ منافقوں کے چار گروہ بن چکے تھے گویا نفاق چار درجوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ 1۔ نام کے مسلم اور باطن کے کافر لیکن مسلمانوں میں شامل ۔ 2۔ مسلمانوں سے نکل کر اسلام کے دشمنوں میں شریک۔ 3۔ اسلام لانے کے بعد کھلے کھلے مرتد ہوجانے والے جو معاہدین اسلام میں شامل ہوگئے۔ 4۔ ظاہر و باطن میں نہ مسلمانوں کے ساتھ نہ کافروں کے ساتھ۔
Top