Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اور لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں اولاد چھوڑ جائیں تو انہیں ان کی طرف سے کیا کچھ اندیشہ ہو ؟ پس چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور ایسی بات کہیں جو درست اور مضبوط ہو
متوفی کے ورثاء کے لئے ایک مزید تنبیہہ کہ جو آج بیجو گے کل وہی کاٹو گے : 25: فرمایا کسی حق دار کے حق میں ناانصافی کرنے والے لوگوں کو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ جس طرح ہم ہی میں سے ایک آدمی کے ترکہ کا معاملہ درپیش ہے اس طرح کل ہمارا معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیا اس قانون کے تحت بھی کبھی انہوں نے سوچنے کی کوشش کی۔ اگر وہ یہ بات ذہن نشین رکھیں تو کبھی کسی کے حق میں زیادتی کا سوچ بھی نہ سکیں۔ ہاں ! ہاں ! لوگوں کو اس بات سے ڈرنا ہی چاہئے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے ناتواں اولاد چھوڑ جائے تو انہیں ان کی طرف سے کیا کچھ اندیشہ لاحق ہوتا ؟ ایسا ہی دوسروں کے لئے سمجھیں اور چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور ایسی بات کہیں جو صاف اور سیدھی ہو۔ اصل میں یہاں الفاظ ہیں ” قولَا سدیدا “ ۔ سدیدسد سے ہے جس کے معنی ہیں کسی اختلال کو بند کردینا یا روک دینا۔ قول سدید اس بات کو کہتے ہیں جو صحیح موقعہ پر پہنچنے والی ہو وہ ایک طرف اختلال کو روکتی ہے اور دوسری طرف قصد کو حاصل کرلیتی ہے۔ یعنی ایسی بات کرو جس کو کہی جا رہی ہے وہ محسوس بھی نہ کرے اور جو تمہارا مقصد ہے اس بات کو کہنے کا وہ بھی پورا ہوجائے۔ اس کو کہتے ہیں کہ ” سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی بچے۔ “ اس لئے یہاں ارشاد فرمایا کہ ” لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں اولاد چھوڑ جائیں تو انہیں ان کی طرف سے کیسا کچھ اندیشہ ہو ؟ پس چاہئے کہ اللہ سے ڈریں اور ایسی بات کہیں جو درست ہونے کے ساتھ مضبوط بھی ہو۔ “ دین اسلام کی یہ وہ ہدایات ہیں جن کے مطابق زندگی گزار کر انسان صحیح معنوں میں دنیا ہی میں جنت کا پر تو حاصل کرسکتا ہے کہ معمولی معمولی باتوں میں ایسے اصول بتا دیئے ہیں کہ ان کے مطابق عمل کرنے سے انسان صحیح انسان کہلا سکتا ہے لیکن افسوس کہ آج ہم نے ان باتوں کو بالکل بھلا دیا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھو عروۃ الوثقٰی جلد اول سورة البقرہ : 266:2)
Top