Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 55
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ
فَاصْبِرْ : پس آپ صبر کریں اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّاسْتَغْفِرْ : اور مغفرت طلب کریں لِذَنْۢبِكَ : اپنے گناہوں کے لیے وَسَبِّحْ : اور پاکیزگی بیان کریں بِحَمْدِ رَبِّكَ : اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ بِالْعَشِيِّ : شام وَالْاِبْكَارِ : اور صبح
پس آپ ﷺ صبر کریں بلاشبہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کیجئے اور صبح و شام اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے رہیے
قوم بنی اسرائیل کے ذکر سے قوم مسلم کو سبق لینے کی ہدایت 55۔ اوپر قوم بنی اسرائیل سے ایمان لانے والوں اور اپنے رسولوں سیدنا موسیٰ اور سیدنا ہارون (علیہ السلام) کی مدد کا ذکر تھا اور اس طرح تمکن فی الارض دیئے جانے کا بھی جو بلاشبہ اس وقت ان کو فرعونیوں کے مقابلہ میں عطا ہوا لیکن قوم بنی اسرائیل اس وراثت کو سنبھال نہ سکی اس لیے ان کی دنیا بھی خراب ہوگئی اور آخرت بھی برباد ہوئی۔ زیر نظر آیت میں نبی اعظم وآخر محمد ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اس وقت جو معاملہ موسیٰ وہارون (علیہ السلام) کو پیش آۃ یا آج وہی معاملہ آپ کو درپیش ہے اور جس طرح ہم نے موسیٰ وہارون (علیہ السلام) کی مدد کی تھی یقینا آپ کی بھی کریں گے کیونکہ آپ بھی اسی طرح اللہ کے رسول ہیں جس طرح موسیٰ وہارون (علیہ السلام) تھے لیکن موسیٰ وہارون (علیہ السلام) کو ہم نے حکم دیا تھا کہ وہ قومی کوتاہیوں کا سدباب کریں اس طرح آپ کو بھی ہمارا یہی حکم ہے کہ آپ قومی کوتاہیوں کا سدباب کریں ( واستغفرلذنبک) اور ہر وقت ہر آن صبح وشام اللہ کی حمد و ستائش میں لگے رہیں اور صبر استقلال سے کام لیتے ہوئے دعوت الی اللہ جاری رکھیں آپ کی بھی اور آپ کی ایمان لانے والی جماعت کی بھی یقینا مدد کی جائے گی پھر دنیا نے دیکھا کہ جو بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہی گئی ہے وہ کس طرح پوری ہوئی اور پیغمبر اسلام نبی اعظم وآخر محمد ﷺ کو اور آپ پر ایمان لانے والوں کو کس طرح دین و دنیا دونوں میں کامیابی عطا کی گئی لیکن افسوس کہ قوم بنی اسرائیل کی طرح ہم بھی اس کامیابی کو سنبھال نہ سکے اور آج پھر ہماری حالت دنیاوی ناگفتہ بہ ہو کر رہ گئی ہے بلاشبہ اس نقصان پر جتنا رویا جائے اتنا ہی کم ہے۔ آنے اولی آیات میں ابھی نبی اعظم وآخر محمد ﷺ کو مخاطب کر کے ہدایات دی جا رہی ہیں اور صبر و استقامت کی تلقین باربار کی گئی ہے اور اپنے وعدہ کو دہرایا جا رہا ہے جس سے قوم مسلم کو سبق حاصل کرنا چاہیے اور یہ بات ذہن میں جما لین چاہیے کہ ہم قوم ہی دنیا کی آخری قوم ہیں اس لیے اب ہم کو ہمت کر کے اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنا چاہیے اور جو ہمارے رسول مکرم کو عطا ہوا تھا اس وراثت کو سنبھالنے کی جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اس کا احساص کرتے ہوئے جو کچھ ہم سے چھن چکا ہے اسے واپس لینا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت کو ادا کر کے ہم دین ددنیا میں سرخرو ہو سکیں۔
Top