Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 67
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ یُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُیُوْخًا١ۚ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى مِنْ قَبْلُ وَ لِتَبْلُغُوْۤا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ : پھر نطفہ سے ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ : پھر لوتھڑے سے ثُمَّ : پھر يُخْرِجُكُمْ : تمہیں نکالتا ہے وہ طِفْلًا : بچہ سا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا : پھر تاکہ تم پہنچو اَشُدَّكُمْ : اپنی جوانی ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا : پھر تاکہ تم ہوجاؤ شُيُوْخًا ۚ : بوڑھے وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے مَّنْ يُّتَوَفّٰى : جو فوت ہوجاتا ہے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَلِتَبْلُغُوْٓا : اور تاکہ پہنچو اَجَلًا مُّسَمًّى : وقت مقررہ وَّلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : سمجھو
(لوگو ! ) وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا پھر نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے پھر تم کو (جیتا جاگتا) بچہ بنا کر نکال لیا تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو پھر (مزید مہلت دی) تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ اور تم میں سے کچھ پہلے ہی مر جاتے ہیں (ایسا کیوں ؟ اس لیے) کہ تم اپنے مقررہ وقت کو پہنچو اور شاید تم عقل سے کام لو (اور حقیقت کو سمجھ جاؤ )
اللہ وہ ذات ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر تمہاری عمریں مقرر کیں 67۔ زیر نظر آیت پیچھے سورة المومنون سورة الحج اور سورة الروم میں گزر چکی ہے جس میں پہلی دونوں سورتیں عروۃ الوثقی جلد ششم میں اور آخری سورة الروم جلد ہذا میں بیان کی گئی ہے اور وہاں اس کی وضاحت تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں حسب سابق یہاں بھی بالکل وہی مضمون تخلیق انسانی کے متعلق گزر چکا ہے کہ وہ ذات الٰہ جس نے انسان کو مختلف ادوار واطوار سے گزرنے کے بعد اس ڈھانچے اور موجودہ شکل و صورت میں بنایا اور پھر تمہارے لیے اپنے قانون میں عمریں مقرر کردیں تم میں سے کتنے ہیں جو پھولوں کی طرح کھلتے ہیں ، مرجھا جاتے ہیں اور کتنے ہیں جو موتیے کی کلیوں کی طرح توڑ لیے جاتے ہیں اور پھر کتنے ہیں جو بلوغت کو پہنچتے ہیں اور ان میں سے کتنے ہی ہیں جو بوڑھے ہوجاتے ہیں اللہ رب العزت نے سب کے لیے وقت متعین کردیا ہے اور ان حالات واطوار سے انسان کس طرح گزرتا چلا جاتا ہے لیکن کسی ایک مقام پر ہی وہ رک جانا چاہے تو نہیں رک سکتا کہ یہ اس کے اختیار کی بات نہیں جو اس نے کسی کو مہلت دے دی ہے اس سے پہلے کوئی شخص مر نہیں سکتا اور جب اس کے انتقال کا وقت آجاتا ہے تو کوئی اس کو ایک پل بھر کے لیے روک نہیں سکتا۔ پھر ہر ذی روح کے لیے ایک وقت متعین ہے اور ان میں سے انسان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم غور کرو کہ ایسا کیوں ہے کہ تم کو اتنے مراحل سے گزارا جاتا ہے اور ایسا کیوں نہیں کہ وہ تم کو یکدم زمین سے پیدا کردیتا یا آسمان سے نازل فرما دیتا ؟ کیا وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا ؟ یقینا کرسکتا تھا لیکن اس کی میشت کے فیصلہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان سارے ادوار ومدارج سے تم کو گزارا ہے اس لیے کہ تم اپنے ان ادوار ومدارج پر غور وفکر بھی کرسکو اور اپنے مالک حقیقی اور خالق کائنات کی قدرتوں اور حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور انہی باتوں سے عقل وفکر سے کام لے کر اپنی زندگی کے سراغ کو پا جائو گویا یہ دنیا میں تمہارے لیے ایک بہترین تعلیم کا نمونہ ہے۔ اب تمہارا اپنا فرض ہے تم اس رب ذوالجلال والاکرام کی پہچان کرو اور جس نے تم کو بغیر کسی کی مدد اور شرکت کے پیدا کردیا اور تمہاری زندگی کے دارے سازو سامان پیدا کردیئے ہیں اور اس کے لیے مختلف سطحیں مقرر کر ہیں کبھی تم نطفہ ، علقہ اور منصفہ تھے اور پھر تم کو ایک گوشت و پوست کا لوٹھڑا بنایا اور پھر اپنے قانون کے مطابق زندگی عطا کر کے ایک خوبصورت بچہ بنایا اور زندگی کے مختلف مدارج مقرر کردیئے اور ان میں سے ایک بھی نہیں جس میں تم رک جانا چاہو تو رک جائو اور آگے نہ بڑھو نہیں تم جوان ہوئے اور تم نہیں چاہتے تھے کہ یہ جوانی کبھی تم سے زائل ہوجائے لیکن تمہارے سارے پاپڑ بیلنے کے باوجود تم کو بوڑھا کردیا گیا کیا تم چاہتے تھے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو تم اس سے سمجھ جائو کہ انسان کتنا بےبس ہے لیکن اس کے باوجود جب اترانے اور فخر کرنے لگتا ہے تو اس کے غرور کا سر نیچے ہونے ہی کو نہیں آتا۔ بہرحال انسان غور کرے یا نہ کرے اس دار فانی میں بڑے بڑے اونچے سروں اور ثملوں والے آئے جن کے غرور کی دھجیاں اڑ گئیں اور اس دنیا سے اس طرح مٹ گئے کہ آج ان کے نام بھی بطور عبرت لیے جاتے ہیں اگر کہیں لیے جاتے ہیں اور رب کائنات کا نظام اسی طرح جاری وساری ہے اگر کل کے مغروروں کا نام نہیں رہا تو یقینا آج کے مغرور بھی اپنے ناموں کو زندہ نہیں رکھ سکیں گے اور مٹ مٹا کر رہ جائیں گے۔
Top